وہ گروہ جو بار بار قتل ہو کر فرقہ واریت کو فروغ دیتا ہے


اپنی فطرت کے برعکس یا کسی مصلحت کی خاطر میں کسی معاملے پر غیر جانبدار یا نیوٹرل بننا بھی چاہوں، تو ایلی ویزل کا پڑھا ہوا ایک قول سامنے آ جاتا ہے کہ ”ہمیں ہمیشہ مظلوم طبقے کا ساتھ دینا چاہیے، غیرجانبداری اور خاموشی ظالم کو طاقتور بناتی ہے“۔

اور یہ لکھنے کا باعث یہ ہے کہ ہر سال کی طرح کوہاٹ (در عباس۔ استرزئی) کے لئے رخت سفر باندھا کہ جو روحانی سکون وہاں جاکر محسوس ہوتا ہے کہیں اور نہیں ملتا، پر روانگی سے قبل اطلاع ملی کہ فرقہ وارانہ حملوں اور مزید تصادم کے خدشے کی وجہ سے زیارت بند کردی گئی ہے اور ان علاقوں میں ٹرانسپورٹ بھی آج کل کچھ شدید متعصبانہ نگرانی کے زیر اثر ہے۔ خبر سن کر کچھ دھچکا لگا کیونکہ گزشتہ دو تین ہفتوں میں یکے بعد دیگرے ایسے واقعات مسلسل دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں، کچھ دن ضبط کیا کہ اس موضوع پر کچھ لکھا یا سوچا تک بھی نہ جائے کہ خاموشی سے شاید مسائل کا بہتر حل نکلتا ہو۔

اب گرد و پیش سے اٹھتی آوازوں کو لے کر جب فرقہ واریت کی تھوڑی ہسٹری کھنگالی تو سوائے افسوس اور پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ میں اس الجھی ڈور کا سرا ڈھونڈنا چاہ رہی تھی کہ پڑھتے پڑھتے ضیا الحق کے آمریت کے اس دور پہنچی جہاں اسلحہ اور مذہب اپنی حاکمیت قائم کرنے کے دو بنیادی جز قرار دیے گئے اور اس کے بعد نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، اب جیسے وقت گزرتا گیا ایسے دلخراش واقعے تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ 1988 میں گلگت بلتستان میں رویت ہلال کے معاملے پر تصادم اس قدر بڑھا کہ نتیجے میں مخالف فرقے کے کئی گھر اور بستیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔

علاقوں کے مطابق اگر ماضی قریب کے واقعات کا تذکرہ کروں تو ہزارہ قوم کی نسل کشی ہمارے ”پرامن“ ہونے کے دعوے پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ 9 فروری 2001 کو آٹھ ہزارہ مسافروں کو علمدار روڈ پر شناخت کر کے مارا گیا۔ 8 جون 2003 بارہ نوجوان پولیس افسران کو شناخت کر کے مارا گیا۔ 4 جولائی 2003 کو میکانگی روڈ پر نماز جمعہ پر حملے کے نتیجے میں 55 افراد جاں بحق اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ 2 مارچ 2004 کوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس پر فائرنگ اور بلاسٹ کے نتیجے میں 60 افراد لقمہ اجل بنے اور 160 سے زیادہ شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔

10 جنوری 2007 کو پچیس سالہ آغا غلام علی کو ان کی فروٹ شاپ پہ ٹارگٹ کیا گیا، اس سے قبل ان کے والد آغا عباس علی کے قتل کی ذمہ داری بھی اسی دہشتگرد تنظیم نے قبول کی، جنھوں نے آغا غلام کے قتل کا ذمہ لیا۔ 3 ستمبر 2010 کو القدس ریلی پر لشکر جھنگوی کے حملے کے نتیجے میں 73 ہلاکتیں اور 160 زخمی رپورٹ کیے گئے۔ 6 مئی 2011 کو آٹھ ہزارہ بچوں کو کھیل کے دوران ٹارگٹ کر کے مار دیا گیا۔ 16 جون پاکستان کے اولمپئن باکسر ابرار حسین کو ایوب سٹیڈیم کے سامنے ٹارگٹ کیا گیا۔

31 اگست 2011 عید کے دن عیدگاہ کے قریب بلاسٹ میں تیرہ افراد لقمہ اجل بنے اور 24 زخمی ہوئے۔ 20 ستمبر 2011 کو تفتان بارڈر کے قریب زائرین کی بس پر حملہ کر کے 26 افراد کو شہید کر دیا گیا۔ 26 جنوری 2012 کو ٹی وی آرٹسٹ عابد علی نازش سمیت دو افراد کو مار دیا گیا اور ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی۔ 29 مارچ 2012 ایک ہی خاندان کے سات افراد کو چاروں طرف سے گولیوں سے بھون کر قتل کیا گیا۔ 3 اپریل 2012 کو میکانگی روڈ، 9 اپریل 2012 کو پرنس روڈ پر چھ ہزارہ افراد، 12 اپریل 2012 کو ایک چائے کے تاجر اور دو آئس کریم پارلرز کے مالکان، 21 اپریل کو دو بھائیوں کو سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کے سامنے ان کی ”ہزارہ شناخت“ کے جرم میں مارا گیا۔

21 مئی کو دو بھائی کوئٹہ پاسپورٹ آفس اور 28 جون 2012 کو زائرین کی بس پر خودکش حملے کے نتیجے میں 15 افراد لقمہ اجل بنے اور 25 بری طرح زخمی ہوئے۔ 10 جنوری 2013 کو علمدار روڈ پر موجود سنوکر کلب کے اندر اور باہر ہونے والے دھماکوں کی زد میں سینکڑوں لوگ آئے۔ جس میں ہزارہ قوم کے علاوہ پولیس اور صحافیوں سمیت 115 افراد موقع پر جان سے گئے اور زخمیوں اور بعد کی اموات کی تعداد الگ ہے۔ 16 فروری کو کرانی روڈ پر دھماکے کی وجہ سے 73 شہید اور 180 سے زائد زخمی ہوئے۔ 30 جون 2013 کو القاعدہ سے منسلک ایک انتہا پسند جماعت کے حملے کے نتیجے میں 33 افراد دار فانی سے کوچ کر گئے۔

اب اگر کوئی اور ہزارہ سے باہر کے علاقوں میں نظر دوڑاؤں تو خیبر پختونخوا میں اس قسم کے فرقہ وارانہ واقعات کا سلسلہ کچھ ایسا ہے کہ پشاور میں 90، بنوں میں 41، ڈیرہ اسماعیل خان میں 50، چارسدہ میں 29 اور مردان میں ایسے حملوں کی ریکارڈ تعداد 27 بتائی جاتی ہے حالانکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ صرف پشاور شہر کے ماضی قریب کے کچھ شہدا کے نام درج ذیل ہیں۔ مولانا عالم۔ صفدر عباس، سردار علی بابا۔ صفدر عباس، حسن عباس ( بھائی)، واجد علی، عابد علی ( بھائی )، ملک افتخار، ملک جرار ( بھائی ) خواجہ عمران، ناصر عباس، سید امداد حسین ( متولی امام بارگاہ گنج)، صبا علی، ملک جرار حیدر ایڈوکیٹ، ڈاکٹر شاہنواز، ثمر عباس، اکبر علی، ملک عالمگیر، صفدر لال آغا ( ڈی ایس پی)، انور علی اخوانزادہ، اصغر علی، سردار حیدر علی، آرزو علی، گلاب حسین، حیدر علی، میر سردار اشرف، قمر عباس ( ایم، پی، اے ) عارف حسین الحسینی، فاروق حیدر، ڈاکٹر ریاض حسین بنگش، مظہر علی، سردار ممتاز، سید شاہد علی شاہ۔ ۔ ۔

فہرست بہت طویل ہے کہ بم دھماکوں، جلوسوں اور امام بارگاہوں میں مشق ستم بننے والوں کا تذکرہ ابھی اس میں شامل نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل کی بات کریں تو وہاں کی زمین پر زندوں سے زیادہ شہیدوں (ٹارگٹ کلنگ) میں مارے جانے والوں کے قبرستان زیادہ آباد ہوئے ہیں۔

کبھی 20 فروری 2009 کو مہتاب بی بی امام بارگاہ کے متولی ناظر حسین کو گھر کے سامنے گولی مار دی جاتی ہے اور انہی کے جنازے کے دوران دوبارہ خودکش حملہ کر کے مزید افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی پلانٹڈ بم کے مریضوں کے لئے مساجد سے خون کے عطیے کی اپیل کی جاتی ہے اور جب وہاں ایک خاص مسلک کے لوگ خون دینے پہنچتے ہیں تو ہسپتال کو ہی بم دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی صورتحال کراچی کے عباس ٹاؤن بلاسٹ اور فرقہ وارانہ تصادم میں دکھائی دیتی ہے اور یہی جنون لاہور کی حسینیہ ہال، اور مغلپورہ کی مجالس پر حملوں میں دکھائی دیتا ہے۔

11 اکتوبر 2005 کو سیالکوٹ کی امام بارگاہ پر خود کش حملہ ہو، 8 جنوری 2005 کو گلگت بلتستان میں آغا ضیاء الدین کا قتل ہو یا 15 اپریل 2009 کو چکوال کی امام بارگاہ میں خود کش حملہ ہو، ایسی صورت حال میں اکثر آواز حق بلند کرنے والے لوگوں کو خاموشی اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ شیعہ سنی تفرقے کو ہمیشہ عوام کے سامنے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے دونوں طرف سے تصادم ایک ہی شدت سے ہے اور ردعمل بھی ایک جیسا ہے جبکہ حقیقت برعکس ہے، انتہا پسند تنظیمیں کھلے عام لاؤڈ سپیکر کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قتل و کفر کے فتوے بانٹتے نظر آتی ہیں، ببانگ دہل علمدار روڈ میں سو سے زیادہ لقمہ اجل بننے والے افراد کی موت کو سینچری سے تعبیر کر کے جشن کا سماں باندھا جاتا ہے۔

اسلام آباد کے چوک میں کھڑے ہو کر ”شیعہ کافر“ کے نعرے بلند کر کے نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ پڑھایا جاتا ہے اور اسی نفرت انگیزی کا نتیجہ اوپر بتائے گئے چند اعداد و شمار ہیں، ابھی کیلکولیٹر اٹھائیے اور اوپر لکھے گئے ان ناموں کی تعداد جمع کر کے دیکھئے، ( ابھی یہ اعداد و شمار صرف گنتی کے کچھ واقعات پر مشتمل ہیں ) جواب آپ کو بھی پریشان کردے گا اور مبشر علی زیدی کے اس بیان کی سمجھ بھی آ جائے گی کہ ”پاکستان میں ایک گروہ بار بار قتل ہو کر فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے“۔

ایام عزا کے آغاز سے حالات جس نہج پر جاتے دکھائی دے رہے ہیں، وہ کسی بہتر صورتحال کی نشاندہی نہیں کر رہے، ایسے میں علماء، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی نمائندوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کا واضح اشارہ دے رہی ہے کہ عوام کو دوبارہ بارود کے اسی ڈھیر پر بٹھایا جا رہا ہے۔ جس کی آگ کو دامن سے بجھاتے بجھاتے دہائیاں بیت جاتی ہیں۔ ایک بار کسی کسان سے پوچھا گیا کہ فصلوں کو کون سا پرندہ یا جانور بہت نقصان پہنچاتا ہے تو اس نے کہا کہ طوطا کہ وہ پتوں کا ہم رنگ ہو کر آسانی سے چھپا رہتا ہے اور فصل تباہ کرتا جاتا ہے۔

یہی حال ان علما اور ذاکرین کا بھی ہے جو بظاہر مذہب / مسلک اور خیر خواہی کا چولا پہن کر منبر و مسجد ایسے اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں جو بعد میں خون کی نہ ختم ہونے والی ہولی کا باعث بنتے ہیں۔ اب آئے دن ٹارگٹ کلنگ کی خبروں میں مجرم وہ علما بھی ہیں جو کہ منبر کو انسانوں کو جوڑنے کی بجائے توڑنے پر اپنی طاقت لگا رہے ہیں پھر چاہے وہ کسی مسجد کا خطیب ہو یا امام بارگاہ کا کوئی ذاکر۔

حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس قسم کے عناصر کی بیخ کنی کے لئے بروقت کسی مناسب حکمت عملی کو وضع کرے کہ اب ہم کسی قسم کے نئے تصادم کے متحمل نہیں ہیں اور اگر آپ طاقت رکھتے ہوئے بھی ان معاملات پر خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو کہیں نہ کہیں کسی بے گناہ کے قتل کے کچھ حصے دار تو آپ بھی بن جاتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ”ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں جس قدر تاخیر سے کام لو گے، قربانی اتنی ہی بڑی دینی پڑے گی“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).