سیاست جغرافیہ ( قسط ششم )


قسط ششم میں سلطنت سیاست میں پائی جانے والی خوراک، پھل، جانور وں اور رسم و رواج کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

فصلیں، خوراک اور پھل

سب سے پہلے کشت سیاست میں چاپلوسی اور منافقت کا گہرا ہل چلا کر سرمائے کے پانی سے سینچا جاتا ہے۔ تعلق اور سفارش کی کھاد ڈال کر ا ن کھیتیوں کو مزید زرخیز کر لیاجاتا ہے۔ پھر خیالی پلاؤ سے بات شروع ہوکر نقد آور فصلوں سے ہوتی ہوئی لنگر خانوں پہ لنگر انداز ہوجاتی ہے۔ قرض کی مئے قومی مشروب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں سلطنت سیاست کے باشندوں کی خوراک مثالی تھی جس میں قومی اثاثے، خزانے اور کمیشن کھانے کا رواج عام تھا تاہم بوجوہ ببانگ دہل بسیار خوری محال ہوچکی ہے۔

مستزاد مکافات عمل کے موجب حالیہ خوراک میں دھکے کھانا، آنسو پینا ہمراہ چنے چبانا ہے۔ شرم و حیاء، تحمل، بردباری کی فصلات کا قحط ہے۔ عوام کا خون، گوشت اور کھال حکومتوں کی امانت ہیں۔ پھلوں میں خربوزہ مرغوب ہے کیونکہ اس کی نسبت سے نئے لوگ پرانوں سے رنگ پکڑتے ہیں۔ یہاں کی مونگ کی دال حریفوں کے سینوں پہ دلنے کے کام آتی ہے جبکہ مسور مخالفین کے منہ چڑانے میں استعمال ہوتی ہے۔ انگور دانت کھٹے کرنے کے لئے مفید رہتے ہیں کیونکہ یہ ماضی بعید سے کھٹے ہی چلے آرہے ہیں۔

کیلے کے چھلکے بھی منہ کے بل گرانے میں تاثیر رکھتے ہیں۔ کیلے کی نسبت سے ریاست کو بنانا ری پبلک اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایپل ریپبلک بھی کہہ سکتے ہیں۔ آم سب سے محبوب پھل ہے کیونکہ آم کے ساتھ ساتھ گٹھلیوں کے دام بھی ہاتھ آتے ہیں نیز، ایتھے امبھ لین آئے ہو، والی جگت میں بھی آم ہی کام آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رت آنے پہ اس کا خوب، قتل آم، ہوتا ہے۔ زخموں کے لئے نمک کمال کی چیز ہے۔ اک اور مقبول ترین خوراک ”چورن“ ہے جو بہت سی اقسام کا ہوتا ہے اور اپنے حریفوں کے خلاف عوام میں بیچا جاتا ہے۔

اس چورن کی عمر اب تہتر سال ہے اور مسلسل فروخت ہورہا ہے۔ البتہ کھجور گرتے ہوؤں کو پھر سے اٹکانے کے موجب پسند نہیں کی جاتی۔ کسی خاص باغ کی مولی اور تھالی کے بینگن بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹماٹر بھی دن میں تارے دکھانے پہ آ جاتا ہے اور ڈالر کو بھی مات دے سکتا ہے۔ ڈرائی فروٹ میں چلغوزے کو مہابلی کا مقام حاصل ہے اور اسے حق مہر میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصے سے چلغوزے کھٹے اور کچے آرہے ہیں جس کے باعث ان کی فروخت کم ہے۔

ہاں صبر کا پھل ناپید ہے۔ مشروبات میں شربت کرتوت سیاہ اور شربت بد روح افزاء نمایاں ہیں۔ جبکہ چائے اشرف المشروبات کا درجہ رکھتی ہے اور اسی کی نسبت سے پوری ریاست کا انتظامی ڈھانچہ چائے پانی کے اصول پہ قائم ہے۔ ایک کپ چائے ہزاروں ضمیروں پہ بھاری ہو سکتا ہے۔ اک بڑی کوفت آور فصل ”ضمیر“ کی فصل بھی ہوتی ہے جو اب گناہوں کے مزے کو کر کرا کرنے کی وجہ سے اپنی افادیت و اہمیت کھو چکی ہے لہٰذا اس کی ساری کھیپ بر آمد کرکے کثیر ”شر مبا د لہ“ حاصل کر لیا جاتا ہے۔

ماضی میں ایک مشہور زمانہ فصل پٹ سن تھی جس کی خوشبو شہر اقتدار کی شاہراہوں سے آیا کرتی تھی۔ دور دراز سے آئے لوگ اس کی خوشبوؤں کو بڑی حسرت سے سونگا کرتے تھے۔ مدت ہوئی وہ مہک رفو چکر ہوئی۔ جبکہ باقی ما ندہ فصلات پہ امریکی سنڈیوں کے شدید حملے ہوا کرتے تھے اور کسان سخت پریشان رہتے تھے۔ شعرا ء کرام ہم وطنوں کو یہ کہہ کر دلاسے دیا کرتے تھے،

تشویش و اضطراب سے کہتا تھا اک کسان
امریکی سنڈیاں میرے کھیتوں میں آ گئیں
میں نے کہا میاں تجھے کھیتوں کی فکر ہے
امریکی سنڈیاں تو تیرا ملک کھا گئیں
گندم اور انسان کے ازلی بیر کے موجب آٹے کا بحران وفقدان بھی سیاست نگر کی خصوصیات میں شامل ہے۔
جانور

کسی زمانے میں سیاست نگر کا قومی جانور چکور ہوا کرتا تھا جسے چھپ چھپ کر چندا سے پیار کی عادت نے بانورا کر دیا۔ اب، گھوڑا، اس کی جگہ قومی جانورکا اعزاز حاصل کر چکا ہے جو ہارس ٹریڈنگ کے کام بھی آتا ہے۔ شہر اقتدار میں صدا بہار منڈی، اسپاں، لگی رہتی ہے۔ کچھ گھوڑے تانگوں میں استعمال بھی کیے جاتے ہیں۔ ان تانگوں میں بعض کچہریوں سے خالی واپس آنے کے خوگر ہوتے ہیں مگر اکثر بامراد ہی لوٹتے ہیں۔ گدھوں کو تو مثالی شہرت ملی البتہ شیر کمزوری اور بدنامی کے باعث مایوسی کا شکار ہیں۔

ان کی زندان سے آنکھ مچولی بھی چلتی رہتی ہے۔ لومڑیاں، لگڑ بگڑ، بلیاں، بندر، کچھوے اور خرگوش بھی کثرت سے موجود ہیں۔ آواز سگاں کا چرچا بھی رہتا ہے۔ آستین کے سانپ تو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں فاختاؤں (doves) کی جگہ، باز، (hawks) لے چکے ہیں۔ دور حاضر میں بھینسوں، کٹوں اور مرغیوں کو تاریخ ساز اہمیت حاصل ہے۔ بھینسوں کو تو اقتدار بدر کرنے کا تاریخی کارنامہ ہوا کیونکہ سرکار کے خیال مین ان چوبیس لاکھ کی بھینسوں کے آگے بین بجانا بے سود تھا لہٰذا بھینسوں کے شعور، تحت الشعور اور لا شعور کا بنظر غائر جائزہ لے کر طے ہوا کہ ان کی مووجودگی کٹوں کی پیدائش کا موجب ہو سکتی ہے اور وہ سرکاری ”کٹے“ ہر روز کھلنے کے خدشات ہوں گے جو درفنطیاں پیداکریں گے۔

البتہ بھینسوں کے ارتحال سے جو خلاء پیدا ہوا اسے شعراء کرام کے اد بی ذوق کی بین سے پر کر لیا گیا۔ جہاں تک طوطوں کی بات ہے تو وہ قدرے مظلوم و مقہور رہے اور ”طوطی بولنے“ سے قبل بولتی بند کروا بیٹھے۔ حتیٰ کہ ”کوئے یار“ میں چند گز پنجروں کی جگہ سے بھی محروم رہے۔ ریاست کے کئی علاقوں میں گدھوں کا راج ہے جو ہمہ خوری کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ دیسی گدھوں کے علاوہ آئی ایم ایف نامی بدیشی گدھیں بھی منڈلاتی رہتی ہیں۔

ٹڈی دل اتحاد و اتفاق کا مظہر ہے۔ ٹڈی دل کا متحد لشکر پلک جھپک میں اپنی کا رروائی مکمل کرلیتا ہے۔ ٹڈیاں اپنے امیر کی ر اہ نمائی میں پرواز کرتی ہیں اور اسی کے حکم پہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ اہل دانش کا مشورہ ہے کہ ان کو بھون کر کھایا جائے کیونکہ ان میں وافر پروٹین پایا جاتا ہے۔ موش یعنی چوہے بھی اپنے آپ کو منو ا کر مقام پیدا کر چکے ہیں۔ کچھ لنڈورے ہونے کے باوجود اپنے وجود کو بنائے ہوئے ہیں مگر اکثر بلیوں کے بہلاوؤں میں آ جاتے ہیں۔ یہاں کی گربہ یعنی بلی زیادہ تر تھیلوں میں بند رہتی ہے مگر کبھی کبھار تھیلوں سے نکالنے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسے ”شیر“ کی خالہ بھی کہتے ہیں۔ تاہم کوئی، بلا، تاحال کسی تھیلے میں بند ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ ایک فارسی شاعر کہتے ہیں۔

گر بہ میر و سگ وزیر و موش را دیواں کند
ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کند

کبوتر اور فاختہ یکسر معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال کا شاہین کب کا اڑ چکا جس کی کمی کا خلاء پر کرنے کے لئے بیسیوں مقامی جانور پیدا کیے جا چکے ہیں۔ تاریخ میں ایک قدیم پرندے ”طائر لا ہوتی“ کا ذکر بھی ملتا ہے تاہم اس کے دورکا تعین کافی مشکل ہے۔ کہتے ہیں کہ رزق کی بابت کسی بات پہ مذکورہ طائر کی پرواز متاثر ہوئی اور وہ لا پتہ ہوکر ناپید ہوگیا۔ نغموں پہ اکسانے والے مرغ چمن کی بھی خاصی دھوم رہی مگر جنیاتی تغیر کے باعث وہ مرغ اب برائیلر اور لئیر کا روپ دھار چکا ہے۔

البتہ، ہما، نامی پرندہ کافی متحرک ہے کیونکہ بے شمار سر اس کے منتظر رہتے ہیں۔ سیاست میں بڑے بڑے راناؤں کی موجودگی کے باوجود رانا ٹیگرانا المعروف ”ڈڈو“ بھی متعارف ہوچکے ہیں جو پوری دیانت داری سے ٹرانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ سلطنت سیاست پہ نقاد ا لزم لگاتے رہے ہیں کہ اس کی ہر شاخ پہ الو بیٹھے ہیں۔ مگر الواس کی تردید کرکے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ اسی اثناء میں قوم کو الو بنانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہی نہیں بلکہ سندھسۂ بہار کی نوید بھی الوؤں کی ہی ذمہ داری ہے۔ الو مغرب میں سعید جبکہ ہمارے ہاں نحس سمجھا جاتا ہے۔ اس کے رت جگے کی خوبی پہ اقبال بھی الو کو اتنا الو نہیں سمجھتے تھے۔ ایک جگہ لکھا،

معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت۔ کہہ دے کوئی الو کو اگر رات کا شہباز

الوؤں سے پہلے کسی بلبل کا ذکر بھی تاریخ میں موجود ہے جسے صیادوں نے بڑ ی مہارت سے الو بنا کر نالو ں پہ مجبور کر دیا۔ شجر اقتدار کی شاخوں پہ الوؤں کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ہما بھی بیٹھا کرتے ہیں۔ یہاں کے اونٹ کینہ اور نت نئی کروٹیں بدل بدل کر بیٹھتے میں مہارت کے حامل ہیں تاہم کچھ اونٹ ایسے بھی ہیں جن کو علم نہیں ہوتا کہ کس کروٹ بیٹھنا ہے۔ کسی اونٹ کے پاس پانے کو کچھ نہیں تو کسی کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔

گدھے کی بات کریں تو بظاہر شریف، مظلوم اور بے ضرر نظر آنے والا گدھا بھی اپنے نمک کے بوجھ کو نہر میں بیٹھ کر ہلکا کر سکتا ہے مگر معلوم پڑنے پہ اس پہ کپاس لاد کر سبق سکھا دیا جاتا ہے۔ یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ اپنا دیس انسانوں کی مردم شماری میں دنیا میں چھٹے نمبر پہ ہے جبکہ گدھوں کی بابت خیر سے تیسرے نمبر پہ براجمان ہے۔ ہمسایہ ملک چین میں گدھوں کی مانگ مثالی ہے کیونکہ وہاں اس کی کھال سے نزلہ زکام کی موثر ادویات بنتی ہیں۔

لہٰذا شا ہراہ ریشم کے رستے گدھوں کو چین برآمد کرنے سے اس کی تعداد کم ہونے کا اندیشہ ہو چلا ہے مگر اتنے لوگوں کی موجودگی میں یہ کوئی قابل تشویش امر نہ ہے۔ یہاں کے اہل خر، خروں سے استفادہ حاصل کرنے کے فن سے آگاہ ہیں لہٰذا خر اندازی اور خر اندیشی کے واقعات اور جذبات معمول کی باتیں ہیں۔ صد شکر کہ گدھے کر سر پر سینگ نہیں ہوتے اور موصوف نو دولتیا ہونے کی بجائے صرف ”دولتیا“ کہلاتا ہے۔ دانش ور کہتے ہیں ہمارا کتا اتنے عرصے بعد اب بھی لالچی ہے۔

کیونکہ اب وہ محض چوری کے گوشت پہ قناعت نہیں کرتا بلکہ زندہ انسانوں کی قدم بوسی کی آڑ میں گوشت خوری کے در پے ہے۔ سلطنت کے سب سے بڑے شہر میں کتوں کی کتیائی نے دہشت مچارکھی ہے۔ متعدد افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹا اور خوب کاٹا جس پر خوب، کتا کتا، بھی ہوتی رہتی ہے۔ علاوہ ازیں جنجال کوٹ میں دو درجن احباب پاگل کتوں کی زد میں آکر سگ گزیدگی کا شکار ہوئے۔ انہونی یہ ہوئی کہ متاثرین میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔

کتوں میں کچھ منتخب اور بہت سے غیر منتخب ہوتے ہیں۔ کچھ پٹے والے، کچھ مہذب اور کچھ بدتمیز بھی ہوتے ہیں۔ بعض تو پارلیمانی آداب سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اس سماج کے سارے کتے ”پہلا کتا“ بننے کے شائق ہیں۔ کوئی بھی ”دوسرا کتا“ بننے پہ آمادہ نہیں کیونکہ بیٹھے بٹھائے کھانے پینے کا مزہ ہی نرالا ہے۔ ا یسے میں کتوں کو چین برآمد کرنے کی چہ میگوئیاں بھی سننے میں آئیں۔ کچھ احباب، کتے کو حسب سابق بد تہذیب گردانتے ہیں، اک شاعر کہتے ہیں،

سکھائے کون کتے کو کسے بھونکے کہاں بھونکے
یہ اس کی اپنی مرضی ہے جسے بھونکے جہاں بھونکے
مزید براں راتوں کو جاگ کر بازی لے جانے والے کتوں کے تو کیا ہی کہنے۔

کتوں کی طرح کوؤں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔ مگر ہمارا کوا پہلے سے بھی زیادہ پیاسا ہے۔ سب سے خوف ناک جانور ڈینگی ہے جو صوبوں اور وفاق کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

مچھر اور ڈینگی

مچھر بھی انسان سے کافی قربت رکھتا ہے بلکہ اب تو انسان سے جدائی برداشت نہیں کر پاتا۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ مچھر صرف کانوں کے قریب ہی نغمہ سرائی کیوں کرتا ہے؟ حالانکہ وہ تو پورے انسانی جسم کو برابر وقت دیتا ہے۔ مگر کسی اور جگہ کان موجود نہیں ہوتے جن سے راگ سنائی دیں۔ کچھ رجائیت پسند احباب اسے اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمیشہ شب بیداری کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ مجبور بھی کرتا ہے۔ اور بزور ڈنگ سوئی ہوئی قوموں کو بیدار کرتا ہے تاکہ سب اللہ کے حضور عبادت کے لئے حاضر ہوں۔ فحاشی و عریانی کے خلاف جہاد میں مصروف عمل رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ خوبصورت گورے جسموں پہ کم لباسی کی حامل دوشیزائیں مچھر کی کارروائیوں کے خوف سے اپنے جسم کو ڈھانپنے پہ مجبور ہو جاتی ہیں۔

زاہد مزے میں ہے نہ قلندر مزے میں ہے
کپڑا فروش اور نہ ٹیلر مزے میں ہے
جب سے کیا ہے سیم تنوں نے لباس کم
تب سے ہمارے شہر کا مچھر مزے میں ہے
شہد کی مکھی :

سلطنت سیاست میں شہد کی مکھی کو ستار العیوب ہونے کے ناتے بڑا مقام حاصل ہے۔ یہ بڑوں بڑوں کی بڑی بڑی باتوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بدل کر نجات دہند ہ ثابت ہوتی ہے، جیسے وسکی شراب کو بدل کر اپنا مقدس روپ دیتی ہے اور کوئی عدالت یا لیبارٹری اسے چیلنج نہیں کر پاتی۔ اس کے علاوہ شہد کی مکھی ملاوٹ نہیں کرتی، آلودگی نہیں پھیلاتی، خالص نیکٹرتیار کرتی ہے اور انسانوں کے لئے چھوڑ کر اگلی منزل کو روانہ ہو جاتی ہے۔

ا س میں اشرف المخلوقات کے لئے سبق ہے کہ وہ صاف رستوں پہ چلیں۔ کرپشن اور گناہوں سے بچیں اور مخلوق کو نفع پہنچائیں۔ ہر کام میں اعتدال کا دامن نہ چھوڑیں جس طرح شہد کی مکھی کے پاس اپنی حفاظت کے لئے ڈنگ بھی ہوتا ہے اسی طرح انسان کے پاس زبان، ہاتھ اور قلم ہوتے ہیں جنھیں اپنی حفاظت اور ذمہ داریوں کے لئے استعمال کر سکتا ہے

ملت بیضا کا مطلب لکھ دیا انڈے کی قوم

ادھر سوشل میڈیا پہ بھینسوں، کٹوں، مرغیوں اور خصوصاً انڈوں کی بابت واویلے اور غوغائے رقیباں عروج پر رہے۔ سادگی و کفایت شعاری کا سراب بھی زد زبان ہے۔ انڈوں کو تو کمال کی شہرت نصیب ہوئی ہے۔ اس سے پہلے تاریخ میں انڈے کو ا اتنی عزت حاصل نہ تھی۔ دیکھا جائے تو انڈے کی بحث کوئی نئی چیز نہیں۔ ہندو ازم میں کائنات کی ابتدا ایک انڈے سے ہی ہوئی۔ لہٰذا انڈے ماترم کہنا بھی غلط نہ ہوگا۔ انڈہ پہلے آیا یا مرغی، یہ معمہ تا حال حل طلب ہے۔

تاہم مشاعروں میں شاعروں پر اور سیاسی جلسوں میں حریفوں پہ گندے انڈے پھینکنے کی روایات قدرے قابل فہم ہیں۔ کہتے ہیں کہ مشہور سائنسدان ایڈیسن بچپن میں یہ دیکھنے کے واسطے انڈوں پہ بیٹھ گیا کہ انڈوں سے بچے کیسے نکلتے ہیں۔ برصغیر کی ثقافت میں سرما میں گرم انڈے کی مسحور کن صدائیں بھی قابل ذکر ہیں۔ مستزاد یہ مغنی مرغوں پہ فلمی گانے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اب توپوری دنیا میں بھی انڈے کا عالمی دن منایا جاتا ہے نہ جانے اپنے ہاں حکومت کی انڈا پالیسی کا مذاق کیوں اڑایا گیا۔

یا پھر پولٹری مافیا کو کوئی انجان سا خوف لاحق ہوا۔ نقاد کہتے ہیں کہ اقبال نے تو نئی تہذیب کے انڈوں کو گلی میں پھینکنے کا مشورہ دیا تھا لیکن یاد رہے وہ محض گندے انڈوں کے بارے میں تھا جبکہ ہماری سرکار تو تازہ اور دیسی انڈوں کی بات کررہی ہے۔ ویسے غریب طبقات کے لئے مرغبانی کا پلان برا نہیں کیونکہ مشہور ہے کہ غریب صرف دو صورتوں میں مرغا کھانے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ خود بیمار ہو یا پھرمرغا۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے ذریعے بہت سے لوگوں نے مضبوط مستقبل حاصل کیا۔

کچھ تو انڈوں کے کاروبار سے ترقی کرتے ایوان اقتدار تک بھی پہنچے۔ بل گیٹس کی پسماندہ ممالک کے لئے سکیمیں سود مند رہیں۔ تاہم ہمارے ہاں گھروں میں ایسا کرنے سے پہلے یوسفی کا ”آنا گھر میں مرغیوں کا، پڑھنا مفید ہوگا، دوسری طرف اقبال ؒ امت مسلمہ کو“ ملت بیضا، بھی کہا کرتے تھے۔ عربی میں بیضا کے معنی سفید کے ہیں۔ گویا ملت بیضا سے مراد روشن قوم ہے۔ شاید اقبال کے افکار کے مطابق حکومت کا انڈے کو عزت اور اہمیت دینے کا مقصداسلامی معاشرے کا قیام بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اپنی قوم کا ہر فرد اسے اپنی اپنی نظر سے دیکھ ر ہا ہے۔ کچھ اسے ترقی کا پیش خیمہ تو کچھ حکومت کے ڈنگ ٹپاؤ پروگرام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اکبر آلہٰ آبادی کا یہ شعر ہمارے ان رویوں کی خوب عکاسی کرتا ہے۔

عد ن کو پڑھتے عدن ہیں روم کو کہتے ہیں روم
ملت بیضا کا مطلب لکھ دیا انڈے کی قوم
کھیل

سلطنت سیاست میں امپائر کو ملائے بغیر کھیلنا کٹھن جانا جاتا ہے۔ شطرنج اور سانپ سیڑھی کے کھیل خاصے مقبول ہیں۔ شطرنج میں بادشاہ وزیر اور پیادے سب ایک دوسرے کی گھات میں لگے نظر آتے ہیں۔ اہم کھیل ”blame game“ ہے مہذب زبان میں شکوہ جواب شکوہ اور مکدر زبان میں اینٹ کا جواب پتھر بھی کہا جاتا ہے۔ رواج ہے کہ کھیل جیتنے پہ انہیں پالینے اور ہارنے پہ ان کے ہو جانے کی خواہش رہتی ہے۔ قوم کرکٹ سے اس قدر عقیدت رکھتی ہے کہ ما ہر کھلاڑی ہی حکمران ٹھہرے۔

یہی وجہ ہے سیاسی بیانوں میں بھی باؤنسر، گگلی، ایل بی ڈبلیو، وکٹ، اور ریلو کٹوں کی اصطلاحیں مستعمل ہیں۔ سیاست نگر میں گاہے بگاہے کھیلوں کے جوڑ پڑتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ، ڈی چوک، پی ٹی وی، اور تقریباً ہر شہر میں ایسے مقابلے چلتے رہتے ہیں۔ مظاہرین اور پولیس کی آنکھ مچولی کے کھیل بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔ حال ہی میں زندہ دلان کے شہر میں دلوں کے ہسپتال میں بہت بڑا ٹورنامنٹ دیکھنے کو ملا جسے

LLB vs MBBS کانام دیا گیاہے۔
سیا سی و سماجی روایات

زمانے میں تغیرات کو ثبات ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ہمارے گذشتگان موجودگان تک روایات منتقل کرتے ہیں اور موجودگان انہیں آئندگان تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ ماضی کی اکثر مروجہ روایات و حکایات روپ بدل کر مختلف اشکال میں ڈھلتی رہتی ہیں۔ کبھی چراغ تلے اندھیرا ہوا کرتا تھامگر اب چراغ تلے تو کیا اس کے چاروں طرف بھی اجالاہوتاہے۔ پہلے اتفاق میں برکت تھی تو اب انتشار واختلاف کے موجب یہ روایت بھی جاں بہ لب ہے۔ محبت ناموں کی پیام بری میں کبو تر کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے۔

کبھی گوریاں مٹکے اٹھائے پانی لینے پنگھٹ پہ جاتی تھیں، آج اسی کام کے لئے غیر رومانوی مرد ہاتھوں میں پلاسٹک کے کین تھامے فلٹر پہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ پہلے عوام پولیس اور حکومتوں سے ڈ را کرتی تھی اور اب حکمران عوام کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ کبھی مذہب سلامتی، امن اور بھائی چارے کاعلمبردار تھا جبکہ آج مذاہب کے پیرو کار اپنی اناکی تسکین کی خاطر معاشرے میں نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ پہلے مذہبی راہ نمائی علماء و مشائخ کرتے تھے اب یہ فریضہ ٹی وی چینلز کے اینکرز انجام دیتے ہیں۔

ماضی میں میڈیا اتحاد اور اخلاق سکھاتاتھا اب انتشار و بد اخلاقی کا سر چشمہ ہے۔ پہلے ٹی وی پور ی فیملی مل بیٹھ کر، ضمیر، سمیت دیکھ سکتی تھی پر آج ضمیر کا گلا گھونٹے بغیر ممکن نہیں۔ اموات پہ سوگ ہوتے تھے اب دیگوں کی کھڑکھڑاہٹ اور بسیار خوری کے اہتمام کے سوا کچھ نہیں۔ کبھی لوگوں کے لباس اور خوراک سادہ، مکان کچے اور وسائل محدود تھے اور اب متمول طرز حیات کے باوجو د اجلے چہرے لئے اندر سے میلے لوگ ملتے ہیں۔

کبھی کام کرنے کا معاوضۃ ملتا تھا پر اب کام نا کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت ملا کرتی ہے۔ پہلے سرکاری ملازمین میں کاہلی آپشنل تھی اب بائی ڈیفالٹ ہے۔ کبھی پر امن لوگ شرفاء میں شمار ہوتے تھے آج میڈیا انہیں بزدل، منافق اور ابن الوقت ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ ماضی کا دہشت گرد آج کا مجاہد ہے جبکہ منہ پھٹ اور زبان دراز دانش ور صحافی ٹھہرا ہے۔ ماضی بعید میں پیر مرید کا رشتہ مقدس جانا جاتا تھا۔ ذرا وقت بیتا تو چند پیران کا دل عقیدت مند مستورات کی زلف ہائے سیاہ پر منڈلانے لگا۔ کچھ مریدنیاں تو اپنے مرشدوں سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ فرط عقیدت سے انہیں کے ساتھ ہی ہو لیں۔ مگر تاریخ میں پہلی بار کوئی مریداپنی مرشد کا مجازی خدا ٹھہرا۔ غرض زندگی کے میلے یونہی آباد رہیں گے مگر وقت کے ساتھ ساتھ کام، نام اور مقاصد بدلتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).