تمہاری بیٹی کے ساتھ زیادتی کا ذمہ دار معاشرہ نہیں، تم خود ہو


موٹر وے زیادتی کے اندوہناک واقعے کو 7 روز گزر چکے ہیں، ہر طرف بھانت بھانت کے بحث و مباحثے جاری ہیں، کوئی سی سی پی او عمر شیخ کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے، کوئی ریاست مدینہ بنانے کے دعوے داروں سے جواب طلب کر رہا ہے، کوئی مجرمان کے اصل یا نقل ہونے پر بحث کر رہا ہے۔ لیکن ایک طبقہ جو اس ساری تنقید سے محفوظ ہے، الٹا اس کا شمار مظلوم اور کمزور افراد میں کیا جا رہا ہے۔ وہ ہیں ہر بیٹی کے ماں باپ اور گھر والے۔

جی ہاں اصل ذمہ دار تو بیٹیاں اور بہنیں رکھنے والے ماں باپ اور بھائی ہیں جو کڑھتے دل اور نم آنکھوں کے ساتھ فیس بک پر، اگر انہیں استعمال کرنا آتا ہے، اس واقعے کی تفصیلات شیئر کر رہے ہیں اور اپنی بہنوں بیٹیوں کی حفاظت کے لیے دعاگو ہیں، اور اگر فیس بک استعمال نہیں کر سکتے تو چار رشتے داروں کے بیچ بیٹھ کر اس واقعے پر بحث کر رہے ہیں اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا کر کہہ رہے ہیں، ’خدا کسی پر ایسا وقت نہ لائے۔‘

ہاں وہی جو کہہ رہے ہیں، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو۔‘ بالکل وہی، جو مجھ سمیت ہر بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ’خدا سب کی بیٹیوں کومحفوظ رکھے۔‘

گویا ساری ذمہ داری خدا کی ہے، اور تم سب خود کہاں کھڑے ہو؟ تم جنہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلسلہ اپنے ہی گھر سے شروع کیا، تم کس منہ سے اپنی بیٹی پر ظلم و زیادتی کا ذمہ دار حکومت، معاشرے اور سی سی پی او عمر شیخ کو سمجھ اور قرار دے رہے ہو؟ ہاں مجھے یقین ہے کہ میرے اور ہر بیٹی کے ساتھ اس معاشرے میں ہونے والے ہر ظلم کے ذمہ دار تم ہو اور میں روز قیامت ملک کے حکمران یا اپنے ریپسٹ کا نہیں تمہارا گریبان پکڑوں گی۔

تم اگر ماں ہو تو دنیا میں میرا پہلا استقبال یہ کہہ کر کرتی ہو کہ اب تو سب (سسرال والوں ) کا منہ بن جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں بیٹی کے کان میں اذان دینے کے بجائے کہا جاتا ہے، بیٹا ہوتا تو اچھا تھا، خیر جو اللہ کی مرضی۔

اس کے بعد تم اپنی نا اہلی، کوتاہی اور ناتمام خواہشوں کا بار میرے سر پر ڈال دیتی ہو اور اس کے بعد شروع ہوتا ہے نا انصافی اور حق تلفی کا وہ چکر جو میرے قبر میں دفن ہوجانے تک جاری رہتا ہے۔

تم ماں ہو تو گھر میں پکنے والی ہر اچھی چیز اپنے بیٹے اور شوہر کے لیے اٹھا رکھتی ہو اور مجھے ملتا ہے اس میں سے بچا کھچا روکھا سوکھا حصہ۔ حالانکہ تم جانتی ہو کہ اچھی غذا کی ضرورت مجھے ہے کیونکہ مجھے آگے جا کر تمہارے منتخب کردہ شوہر نامی مخلوق کی نسل بھی بڑھانی ہے اور اس کی تربیت بھی کرنی ہے، لیکن تم مجھ پر ترجیح اس بیٹے کو دیتی ہو جو اس وقت تک تمہیں برداشت کرسکے گا جب تک تم اس کے کام کر سکتی ہو، اس کے بعد وہ تمہیں اٹھا کر ایدھی ہوم میں پھینک آئے گا۔ تم اس پر واری صدقے ہوئی جاتی ہو جبکہ میں تمہاری ایک محبت بھری نظر کے لیے ترس جاتی ہوں۔ تم مجھ سے مخاطب ہوتی بھی ہو صرف گھر کا کوئی کام کہنے کے لیے۔

تم اپنے بیٹے کو نکما اور سست الوجود بناتی ہو اور اس کے سارے کام مجھ سے کرواتی ہو، مجھے یہ باور کرواتی ہو کہ چونکہ میں غلطی سے بیٹی پیدا ہوگئی تو گھر کے تمام مردوں کے کام مجھے ہی کرنے ہیں اور لڑکوں کا تو کام کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

تم میرے تعلیم حاصل کرنے کی مصروفیت کو نہایت بیزاری سے دیکھتی ہو اور تمہیں لگتا ہے کہ میں اسکول و کالج جا کر وقت ضائع کر رہی ہوں۔ میرا اور تمہارے بیٹے کا ایگزام ایک ہی دن ہوتا ہے اس کے باجود تمہیں صرف اپنے بیٹے کی پڑھائی دکھائی دیتی ہے اور میرے ایگزام سے ایک دن پہلے بھی مجھ سے کبھی اس کے لیے چائے بنواتی ہو، کبھی جوس۔ اور اس سب کے باجود میں اسی ایگزام میں اچھے نمبر لاؤں تو ایک نگاہ غلط میرے رزلٹ پر ڈال کر کہتی ہو: اچھا ٹھیک ہے لڑکیوں کو اتنا پڑھ لکھ کر کرنا ہی کیا ہے، اور اسی ایگزام میں تمہارا بیٹا چند نمبروں کے فرق سے فیل ہونے سے رہ جاتا ہے تو تم خوشی سے نہال پورے محلے میں بیٹے کے پاس ہونے کی مٹھائی بانٹتی پھرتی ہو۔

تم ’اگلے گھر جا کرنا‘ کے نام پر میرے ہر مشغلے، ہر شوق پر پابندی لگا دیتی ہو، نہ مجھے اچھے کپڑے پہننے کی اجازت ہوتی ہے نہ میک اپ کرنے کی، نہ گھومنے پھرنے کی نہ ہی کھل کر بات کرنے کی اور زوردار ہنسنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تم ان چچاؤں، ماموؤں اور عجیب و غریب مرد رشتے داروں کو ہر وقت گھر میں گھسائے رکھتی ہو جن کے بارے میں، میں نے بارہا کہا کہ مجھے ان کی نظر ٹھیک محسوس نہیں ہوتی اور جب تم نہیں ہوتی تو یہ تنہا پا کر مجھے غلط انداز میں چھوتے ہیں۔ تم اس وقت خاندان میں بری بن جانے کے خوف سے کسی کو اپنے گھر آنے سے منع نہیں کرتیں، الٹا میرے منہ پر ایک تھپڑ رسید کرتی ہو کہ تمہارے یا باپ کے باریش بڑی عمر کے رشتے دار کے بارے میں میں نے ایسا گھناؤنا سوچا ہی کیوں۔

تم اپنی نگرانی میں مجھے ٹی وی دکھاتی ہو، تم مجھے موبائل فون نہیں رکھنے دیتیں اور اگر دیتی ہو تو اس پر کڑی نگرانی رکھتی ہو۔ تم میری سہیلیوں کے آنے پر وہیں بیٹھ جاتی ہو تاکہ ہم کوئی غیر اخلاقی بات نہ کر سکیں، تم میری شادی شدہ دوستوں کے مجھ سے ملنے پر پابندی لگا دیتی ہو کہ کہیں ان کی باتوں سے میرا ذہن خراب نہ ہو جائے۔ تم کبھی بھولے بھٹکے میرے منہ سے سیکس یا کوئی ایسا غیر اخلاقی لفظ سن لو تو جوتوں اور گالیوں سے میری تواضع کرتی ہو۔ پھر جب شادی کی رات ایک خواہشوں کا مارا ہوا، ترسا ہوا شخص مجھ پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو میں اس کی ہر دست درازی، ہر حرکت، ہر زیادتی کو صحیح سمجھتی ہوں، یہ سب کرنے کو اس کا حق جانتی ہوں اور نتیجتاً مجھے اگلی صبح اسپتال روانہ ہونا پڑتا ہے۔ تم پھر بھی مجھے ہی چپ رہنے کی تاکید کرتی ہو۔

تم مجھے ساری عمر یہ باور کرواتی ہو کہ سسرال گویا ایک میدان جنگ ہے جس کی تیاری تم مجھے میرے پیدا ہوتے ہی کروانا شروع کردیتی ہو، لیکن اس میدان جنگ میں لڑنے کے بجائے تم مجھے برداشت کرنے، سہنے، اور چپ رہنے جیسے دفاعی ہتھیار سکھاتی ہو اور بار بار کہتی ہو کہ جب جہاں ضرورت پڑے بخوشی اپنا سر تلوار کے نیچے رکھ دینا۔

تم مجھے ہمیشہ کمزور باور کرواتی ہو، پیچھے ہٹ جانے اور ہتھیار ڈال دینے کا درس دیتی ہو اور ہمیشہ یہ سبق دیتی ہو کہ چپ چاپ اپنا حق، اپنی خوشی قربان کردو اور چوں بھی نہ کرو خصوصاً جب سامنے کوئی مرد ہو تو اس کے مدمقابل آنا تو گناہ کبیرہ ہے۔

تم مجھے سکھاتی ہو کہ میرے ساتھ کچھ بھی برا ہوگا تو میں اس کے خلاف چاہ کر بھی نہ اٹھ سکوں گی، مجھ پر ہونے والا ہر ظلم، ہر زیادتی میرے نصیب کا لکھا ہے اور مجھے سر جھکا کر چپ چاپ اس ظلم کو سہنا اور برداشت کرنا ہے۔ تم ساری عمر یہ باتیں مجھے گھول کر پلاتی ہو اور مجھے نفسیاتی طور پر اس قدر کمزور بنا دیتی ہو کہ میں اپنے سے کمتر اور کمزور فریق کے سامنے بھی لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیتی ہوں۔

تم ساری عمر کولہو کے بیل کی طرح جت کر اپنے سسرال کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہو، اس کے باوجود وہ تمہیں تیسرے درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں تو تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری خدمت گزاری میں ہی کہیں کوئی کمی رہ گئی، چنانچہ اب اس کمی کو تم میرے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہو اور چاہتی ہو کہ تابعداری میں، میں تم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جاؤں، با الفاظ دیگر اپنا استحصال کروانے، ظلم سہنے اور اپنی حق تلفی کروانے میں تمہیں بھی پیچھے چھوڑ دوں۔

پھر جب ایسے ہی کسی رات میں سسرال والوں کے خوف سے تمہارے گھر نہیں رکتی، اور آدھی رات کو واپس جانے کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہوں اور کسی درندے کی وحشت کا شکار بن جاتی ہوں، یا پھر سسرال میں چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہوں، یا شوہر کے ہاتھوں پٹ پٹ کر ہلاک ہوجاتی ہوں تو پھر سینہ پیٹ پیٹ کر یہ کیوں کہتی ہو کہ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو۔ یہ کیوں نہیں مانتیں کہ تم بیٹی کے لائق ہی نہیں تھی۔

تم نے میرے لاشعور میں بٹھا دیا کہ میں کمزور ہوں چنانچہ ظلم ہوتا دیکھ کر میں پہلے ہی چپ سادھ لیتی ہوں اور اپنی آنکھوں سے کبھی موٹر وے پر اپنی عزت لٹتے دیکھتی ہوں، کبھی سسرال میں خود پر ظلم ہوتا دیکھتی ہوں اور کبھی یونیورسٹی اور دفتر میں اپنے ساتھیوں کی غلیظ بکواس چپ چاپ سر جھکائے سنتی ہوں، اور میں چپ رہتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہی نہیں کہ اپنے حق کے لیے کھڑے ہونا ہے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھانی ہے۔

تم اگر باپ ہو تو چاہتے ہو کہ مجھ پر تعلیم کے دروازے بند رکھ کر اپنے پیسے بچا سکو۔ گھر آتے ہو اور میں پانی کا گلاس لے کر نظر نہ آؤں تو غضبناک ہو جاتے ہو کہ شام کے وقت میں گھر میں کیوں نہیں، یا سوئی ہوئی کیوں ہوں، جبکہ تمہارا بیٹا گلی میں ہی آوارہ لڑکوں کے ساتھ موبائل فون پر پورن دیکھ رہا ہوتا ہے اور تم جان کر بھی آنکھیں بند رکھتے ہو۔ تم بیٹے کو سگریٹ پی کر دیکھتا نظر انداز کردیتے ہو لیکن میری ذرا سی بلند آواز یا ہنسی سن کر تمہارا بس نہیں چلتا کہ مجھے زندہ گاڑ دو۔

تم بیٹے کو جم بھیجنے کے لیے بخوشی پیسے دیتے ہو لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ مجھے بھی کراٹے سیکھنے چاہئیں کیونکہ اصل حفاظت کی ضرورت تو مجھے ہے، تمہارے بیٹے کو نہیں جو پہلے ہی طاقت اور دلیری کے نفسیاتی خمار میں مبتلا ہے اور صرف جذبات کے زور پر ہی لڑائی میں دو چار لوگوں کو ڈھیر کردے گا، لیکن بیٹی کیا کرے گی؟ وہ تو اپنے سے کم عمر کسی لونڈے کو بھی اپنی طرف سیٹی بجاتا دیکھے گی تو سہم جائے گی۔

تم بیٹے کی پسند سے اس کی بیوی بیاہ لاتے ہو لیکن اگر میری زبان سے غلطی سے کسی لڑکے کا نام بھی سن لو تو غیرت کے نام پر قتل کرنے پر اتر آتے ہو۔ تم کبھی بھولے بھٹکے مجھے لینے کے لیے کالج پہنچ جاؤ (جس کا مقصد بھی مجھے چیک کرنا ہی ہوتا ہے ) تو کونے پر کھڑے بدمعاش اور آوارہ لڑکوں کی ہنسی کو بھی میرا ہی قصور جانتے ہو اور اگلے دن سے میرا ہی کالج بند کروا دیتے ہو۔

تم مجھے تعلیم اورشعور سے محروم رکھتے ہو اور پھر مجھے اور میری ماں کو ہی طعنے دیتے ہو کہ عورت جاہل ہوتی ہے لہٰذا اس کی بات نہیں سننی چاہیے۔ تم جائیداد میں میرا حق مارتے ہو اور بیٹے کو نواز دیتے ہو۔ تم مجھے بوجھ سمجھ کر کسی بھی نتھو خیرے کے ہاتھ میں میرا ہاتھ تھما دیتے ہو اور اس کے بعد جب میں ماریں کھا کر روتی پیٹتی واپس تمہارے گھر آتی ہوں، تو مظلوم بن کر خدا سے شکوہ کرتے ہو کہ اے خدا بیٹی دی تھی تو اچھے نصیب بھی دیتا ورنہ بیٹی ہی نہ دیتا۔

تم اگر بھائی ہو تو گھر میں میرے سامنے اپنا بستہ، جوتے اور ٹائی پھینک کر انہیں جگہ پر رکھنے کا حکم دیتے ہو۔ جب تمہیں ذرا سی عقل آتی ہے تو گلی محلے کی لڑکیوں سے ہی شروعات کرتے ہو، انہیں گھورتے ہو، آوازیں کستے ہو، بائیک پر ہوتے ہو تو چھیڑ کر فراٹے سے آگے نکل جاتے ہو، وہ گالیاں دیتے ہو جن میں ماں کا اور میرا ذکر ہو۔ کالج اور یونیورسٹی جا کر اپنی کلاس فیلوز کو ہراساں کرتے ہو، دفتر میں ساتھی لڑکیوں کے نام پر گندے مذاق کرتے ہو اور دوسروں کے ایسے ہی مذاق پر بلند و بانگ شیطانی قہقہے لگاتے ہو۔ گرل فرینڈ بناتے ہو اور ہر طرح سے اس کا جذباتی و جسمانی استحصال کرتے ہو، اور پھر ’گھر والے نہیں مان رہے‘ کہہ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔

یہ سب کام کرنے کے بعد جب تم گھر آتے ہو تو مجھے کہتے ہو کہ مغرب کے بعد باہر نہ نکلنا، بھری دھوپ میں بھی باہر نکلو تو برقع، چادر، نقاب، جو جو کپڑا گھر میں موجود ہے اسے پہن کر باہر نکلنا، کیونکہ تم جانتے ہو کہ تم خود کیا ہو اور تمہارے ہم صنف کیسے ہیں، سو تم خود کو اور اپنے ہم صنفوں کو بدلنے کے بجائے مجھے قید کرنے کی سعی کرتے ہو۔ جب میں تم سے کہتی ہوں کہ مجھے ضروری کام سے باہر لے چلو تو تم اپنی کاہلی چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے سو تمہارے لیے آسان یہ ہوتا ہے کہ مجھے ہی باہر جانے سے منع کردو۔

پھر جب تمہارا ہی کوئی دوست میرے ساتھ وہ سلوک کر جاتا ہے جو تم اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ کرتے رہے، محلے سے کچھ دور میرے ساتھ کوئی ایسا حادثہ ہوجاتا ہے جس کی شروعات تم نے اپنے محلے میں کی تو غصے سے پاگل ہو کر کبھی مجھے، کبھی دوسرے فریق کو قتل کرنے دوڑتے ہو اور اس وقت غصے اور طیش کے کسی لمحے میں تم سوچتے ہو کہ ’میرے ساتھ ہی کیوں، میری بہن کے ساتھ ہی کیوں؟ حالانکہ وہ تو کبھی بے پردہ باہر بھی نہیں نکلی‘ ، تو پیارے بھائی جان لو، کہ میری عزت کسی لٹیرے نے نہیں تمہاری منافقت نے لوٹی۔

تم اگر بھابھی، پھوپھی، چچی، تائی ہو تو آتے جاتے میرے رنگ اور وزن کو ٹوکتی ہو، میرے ہاتھ کا بنایا کھانا کھا کر مجھے پھوہڑ قرار دیتی ہو جس کا اظہار باآواز بلند کرنے سے تم کبھی نہیں ہچکچاتی، میری قابلیت، تعلیم اور ڈگری کو میرا جرم بنا کر کہتی ہو کہ ’ہائے لڑکیوں کو زیادہ پڑھنا لکھنا نہیں چاہیے‘ ، پھر جب تمہاری بیٹی بھری دوپہر یا نصف رات کو کسی وحشی کی درندگی کا شکار ہوتی ہے، شوہر کے تشدد سے مر جاتی ہے یا طلاق کا دھبہ لگائے واپس تمہاری دہلیز پر آ بیٹھتی ہے تو تم چیخ چیخ کر کیوں دہائیاں دیتی ہو کہ ’ہائے میں نے تو کبھی کسی کی بیٹی کا برا نہیں چاہا، تو پھر میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔‘

تم سب کس منہ سے اپنی بیٹی کے ساتھ ظلم کا ذمہ دار بے حس حکومت، نا اہل پولیس اور بیمار معاشرے کو ٹھہراتے ہو، اس ظلم کی شروعات تو تم خود اپنے گھر میں کرتے ہو۔ تم نے تو وہ معاشرہ بنا رکھا ہے کہ خدا بھی تمہاری بیٹیوں کا نصیب نہیں لکھتا بلکہ تم خود ہی اپنی بیٹی کا نصیب اس لمحے سے لکھنا شروع کردیتے ہو جب تمہارے گھر میں وہ پیدا ہوتی ہے۔

ریاست مدینہ کا مطالبہ کرنے سے قبل، پہلے اپنے گھر میں تو عدل اور انصاف قائم کرو۔ بیٹی کی حق تلفی کر کے، اور پھر اگلے ہی لمحے جائے نماز بچھا کر اس کے اچھے نصیب کی دعا مانگنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکو، اپنا قبلہ سیدھا کرو اور اپنے آپ کو سدھارو، تمہاری بیٹی کا نصیب خودبخود سنور جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).