کیا دہشت ناک سزائیں جنسی جرائم کا علاج ہیں؟


ایک نجی نیوز چینل کے مطابق ملک میں جنسی جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔ جہاں یہ خبر ایک المیہ ہے وہیں جنسی جرائم کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں جاری بحث بھی قابل غور ہے۔ عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ایسے مجرموں کو دہشت ناک سزائیں دی جائیں۔ وزیراعظم بھی یہ فرما چکے ہیں کہ جنسی زیادتی کے مجرم کو سرعام پھانسی دی جانی چاہیے یا انہیں کیمائی مواد کے ذریعے بانجھ بنا دیا جانا چاہیے۔

ہمارے ہاں جنسی جرائم کا تانا بانا عورت کے ”نا مناسب“ لباس سے جوڑا جاتا ہے۔ ”وکٹم بلیمنگ“ عام ہے۔ عورتوں کے باہر نکلنے اور جدید لباس کو ریپ کا جواز بتایا جاتا ہے۔ لیکن یہ منطق اس لیے ناقابل اعتبار ہے کہ چھوٹے بچے، لڑکے، خواجہ سرا، برقعہ پوش اور کفن پوش عورتیں حتیٰ کہ جانور بھی ریپ کا شکار ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں کے ”دانشور“ میڈیا، انٹر نیٹ، پورن سائٹس کو بھی جواز بناتے ہیں کہ ان کی وجہ سے بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے جو ایسے جرائم کا پیش خیمہ ہے۔ حالاں کہ ایسی تمام سائٹس بند ہیں، میڈیا بھی اس قدر آزاد نہیں ہے۔ دوسری طرف یہی ”دانشور“ اپنے معاشرے کو اخلاقی لحاظ سے بہترین قرار دیتے ہیں۔ یہاں کے خاندانی نظام کو آئیڈیل کہتے ہیں اور یہاں کے لباس اور پردے پر فخر بھی کرتے ہیں۔

تو پھر کیا وجہ ہے کہ جنسی جرائم بڑھتے جا رہے ہیں؟ اگر واقعی پورن سائٹس، عورت اور مرد کے آزادانہ میل جول اورعورتوں کے مختصر لباس ہی کی وجہ سے ریپ کیسز ہوتے ہیں تو پھر مغرب میں تو صورت حال ناگفتہ بہ ہونی چاہیے تھی۔ جب کہ حالات یکسر مختلف ہیں۔ مغرب میں عورت اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہے۔ نہ اس پر پابندی ہے کہ وہ باپ یا بھائی کو ساتھ لیے بغیر گھر سے نہ نکلے، نہ یہ پابندی ہے کہ برقع یا عبایا پہنے۔ تمام سائٹس کھلی ہیں۔ آزادانہ میل جول بھی ہے اس کے باوجود وہاں عورت زیادہ محفوظ ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا کہ جنسی جرائم اسی جدید دور میں شروع نہیں ہوئے یہ پتھر کے زمانے میں بھی ہوتے تھے۔ نیکی اور بدی کی آویزش ازل سے جاری ہے۔ مہذب معاشروں میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ ہمارے ”دانشور“ اس حوالے سے بھی مغرب کے جاری کردہ اعداد و شمار کا ہی سہارا لے کر کہتے ہیں کہ جی ہمارے ہاں جرائم کم ہیں وہاں تو اتنے منٹ اور اتنے سیکنڈ کے بعد فلاں جرم ہوتا ہے لیکن وہ یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ ان معاشروں میں تقریباً سو فی صد جرائم رپورٹ ہوتے ہیں اور ہمارے شاید ایک فی صد سے بی کم ہوں گے۔ کیوں کہ یہاں پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ عزت کا معاملہ ہے معاملے کو دبا دیا جائے۔

اگر صحیح اندازہ لگانا ہے تو ہمارے ہاں بازار اور رش والی جگہوں پر جائیے اور پھر مغربی معاشروں میں بھی ایسی ہی جگہوں پر جائیے۔ آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ کہاں زیادہ لوگ گھور گھور کر دیکھتے ہیں، خواہ مخواہ عورتوں سے ٹکرا کر گزرتے ہیں۔ کہاں جنسی طور پر زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے اور کہاں آنکھوں میں ہوس دکھائی دیتی ہے۔

جس تسلسل سے یہاں چھوٹی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں جس کے بعد بھیانک طریقوں سے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، جلا دیا جاتا ہے یا لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہے مغرب میں اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ تو کیا مغرب میں جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دہشت ناک قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں؟ وہاں تو اکثر ممالک میں موت کی سزا بھی ختم کر دی گئی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ وہاں صورت حال ایسی ابتر نہیں ہے؟

در اصل وہ مسئلے کی جڑ تک پہنچتے ہیں۔ انہوں نے بہت پہلے ہی سمجھ لیا تھا کہ عورت اور مرد دونوں انسان ہیں اور یکساں عزت و احترام کے قابل ہیں۔ ہماری سوچ یہ ہے کہ مجرم کو اتنی خوف ناک سزا دی جائے کہ اس سے ڈر کر کوئی اور جرم کرنے کی سوچ بھی نہ رکھے۔ مگر یہ نظریہ غلط ہے۔ دہشت ناک سزائیں تو ماضی میں بھی دی جاتی رہی ہیں مگر جرائم بڑھتے جا رہے ہیں کیوں کہ بیماری کا علاج کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ مغربی معاشروں میں سب جانتے ہیں کہ جرم کرنے والا قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ بہت کم ایسا چانس ہے کہ مجرم بچ نکلے۔ اور ہمارے ہاں بھی سب جانتے ہیں کہ جرم کرنے والا شازو نادر ہی پکڑا جاتا ہے۔ پکڑا جانے والا اگر با اثر ہے تو اس کا چھوٹ جانا یقینی ہے۔ البتہ بے گناہ پکڑے جاتے ہیں، ان سے اقبال جرم بھی کروا لیا جاتا ہے۔

جہاں پولیس کو دیکھتے ہی لٹ جانے کا احساس ہو وہاں انصاف کی توقع کون کر سکتا ہے۔ چناں چہ جنسی جرائم کی چاہے کتنی ہی دہشت ناک سزا ہو ایسے جرائم نہیں رکیں گے۔ کیوں کہ با اثر مجرموں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔ تاہم کبھی کبھار کوئی کمزور مجرم شکنجے میں آ بھی گیا تو اس سے جرائم کی رفتار میں کیا کمی ہو گی؟

اگر جرائم اور خاص طور پر جنسی جرائم کو روکنا ہے تو اس کا علاج دہشت ناک سزائیں نہیں بلکہ سزا کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں اپنے اداروں کو معتبر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں یہ معلوم ہو کہ مجرم ہر صورت قانون کے شکنجے میں آئے گا۔ پولیس اور عوام مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ مجرم بچ کر کہیں نہیں جا سکے گا تب ہی جرائم میں نمایاں کمی ہو سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).