اقبال اور دانتے


دانتے ( 1265 ء 1321 ء اٹلی ) دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ پوریٹیناری کے گھر گیا وہاں صاحب خانہ کی بیٹی پر نظر پڑی اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ دانتے اس کی نظروں کے تیروں سے ایسا گھائل ہوا کہ وہ نہ پھڑ پھڑا سکا اور نہ ہی اسے اس صیاد کی اسیری سے عمر بھر رہائی ملی۔ اس نے اپنی بائیوگرافی ”New life“ میں لکھا ہے کہ وہ جب اپنے ”سرخ قیمتی لباس میں میری سامنے آئی اور اپنی خوبصورتی کی جھلک دکھائی تو دل کی دھڑکن رک گئی“

دانتے فوج میں ملازم ہوا، سرکاری عہدوں پر کام کیا، بیاترس سے اس کی کئی بار بازار میں ملاقات ہوئی لیکن دانتے اس سے کبھی ہم کلام نہ ہوسکا، ایک بار ایک پارٹی میں آنکھیں چار ہوئیں کچھ کہنا بھی چاہا، لیکن لفظ معنوں سے بغاوت کر گئے اور دل کی دل میں ہی رہ گئی۔ بیاترس کسی اور سے منسوب ہو گئی، پھر 1290 ءمیں اس کا انتقال ہوگیا۔ دانتے کو محسوس ہوا کہ سارے ”فلورنس“ پر ہی موت واقع ہو گئی۔ اس کے لیے ساری دنیا تاریک ہو کر رہ گئی۔

اس واقعہ کے بعد دانتے کی ساری زندگی محبت کے مرکزی نقطے کے گرد گھومتی رہی۔ بیاترس کی محبت کو اپنی طاقت بناکر اس نے اپنے فلسفہ حیات اور شاعری کی بنیاد رکھی۔ اس کا عکس اس کی شاعری بالخصوص نظم ڈیوائن کامیڈی میں ملتا ہے۔ جس میں وہ ودجل کو اپنا رہنما بناتا ہے مگر جس جگہ ورجل کا داخلہ ممکن نہیں وہاں بیاترس دانتے کی رہنمائی کرتی ہے۔ دانتے نے اس نظم میں بیاترس کو تصوف کے رنگ میں رنگ دیا۔ دانتے نے اپنی نظم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

1-Hell
2-purgatory
3-paradise

دانتے کی سیر افلاک کے پہلے دوحصوں میں ورجل اس کا ہمسفر ہے لیکن جنت کی سیر کے دوران اس کی رہنمائی اس کی محبوبہ بیاترس کرتی ہے۔

نظم کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دانتے کی اس نظم کا ماخذ اسلامی تصورات ہیں۔ دانتے فلسفے کا طالب علم رہا اس لیے وہ ابن رشد، ابن، سینا کے افکار سے واقف تھا۔ دانتے کے لیے سیر افلاک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل ابوالعلاء معریٰ کے ”رسالة الغفران“ اور ابن عربی کی ”فتوحات مکیہ“ میں آسمانوں کی سیر کا تصور موجود ہے۔ بطور فلفسے کے طالب علم کے ان دونوں کتابوں تک دانتے کی رسائی تھی اور اس کی نظم کے خاکے کی بنیاد کے تانے بانے ان دونوں تصانیف کے اندر سے تیار کیے گئے ہیں۔

غور کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں جب مشرق صلیبی جنگوں کا شکار تھا اس دوران مغرب میں مسلمانوں کی ثقافت کے چرچے عروج پر تھے کیونکہ اس دور میں مسلمانوں نے علمی میدان میں بھی بے مثال کارنامے سر انجام دیے تھے۔ رازی، فارابی، زریاب، ابن رشد، عمر خیام، ابن الہثیم، ابوالعلا معریٰ، الغزالی، ابن ماجہ، البیرونی، ابن خلدون اور الکندی کا ہر طرف طوطی بولتا تھا۔ دانتے نے جس عہد میں یہ نظم تخلیق کی اس عہد میں عربوں کا فلسفے اور عرب صوفیوں کے شاعرانہ خیالات کے سحر سے اطالیہ بھی نہیں بچ سکا تھا۔ ان صوفیوں کے نظریہ واحدة الوجود نے اطالیہ میں بھی اثر دکھایا چنانچہ اسی وجہ سے دانتے نے اپنی محبوبہ بیاترس کو خدائی صفات سے متصف کیا ہے۔ اس کی اہم وجہ مسلم صوفیانہ شاعری کا اثر ہے۔ اس زمانے میں

ابن رشد اور ابن سینا کے خیالات اطالیہ کی سرحدوں میں داخل ہو چکے تھے۔ ”ڈیوائین کامیڈی“ میں دانتے کے نادر خیالات نہیں ہیں بلکہ اس کا مواد اسلامی ادبیات سے م

مستعار ہے کیونکہ انھوں نے جس تکنیک کا سہارا لیا ہے اس پر آقائے دوعالمﷺ کے معراج کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ہیولہ ”رسالة الغفران“ اور ”فتوحات مکیہ“ سے تیار کیا گیا ہے۔

علامہ اقبال کی تصنیف ”جاوید نامہ“ اور دانتے کی ”ڈیوائن کامیڈی“ پر اگر ایک مختصر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ دونوں تصانیف کا شمار اعلیٰ کلاسیک ادب میں ہوتا ہے۔ دونوں تخلیق کاروں کاتعلق اگرچہ، مختلف تہذیبوں اور مختلف زمانوں سے ہے لیکن اس کے باوجود دونوں کی تخلیقات نے دنیائے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یاد رہے کہ کسی بڑے تخلیق کار کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ اس کی فکر میں احترام آدمیت، مذہبی رواداری اور وطن دوستی کے عناصر موجود ہوں۔

ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ کے کرداروں کو دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ دونوں فنکاروں نے اپنی تخلیقات کے لیے ان عظیم شخصیتوں کو چنا ہے جنہوں نے اپنے زمانے میں اپنے افکار، کردار اور فتوحات سے تاریخ کے دھارے پراہم اثرات مرتب کیے تھے۔ اس تناظر میں اقبالؒ کو دانتے پر فوقیت حاصل ہے۔ شخصیات کے ضمن میں اقبالؒ کا برتاؤ وسعت قلبی اور رواداری سے بھر پور ہے۔ جبکہ غیر عیسائی شخصیات کے سلسلے میں دانتے کا رویہ تنگ نظری تعصب اور کوتاہ ذہنی کی غمازی کرتا یے اس سلسلے میں خاص کر آقائے دوجہاں ﷺ اور حضرت علیؓ کے معاملے میں وہ تنگ نظری کی تمام حدیں عبور کر جاتا ہے۔

ڈیوائن کامیڈی میں دانتے دوزخ کے حصے (Limbo) میں ایسے لوگوں کو دکھاتاہے جو نصرانیت سے پہلے گزر چکے ہیں۔ جن میں جولیس سیزر، سقراط، افلاطون، آرفیوس وغیرہ جبکہ ظہور اسلام کے بعدکی کچھ شخصیات جنھوں نے اپنی قابلیت، ذہانت اور فہم سے علم اور تمدن کی آبیاری کی جن میں ابن سینا، ابن رشد، اقلیدس، جالینوس اور صلاح الدین ایوبی شامل ہیں۔ اس کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ اس نے غیر اسلامی شخصیات کو اس لیے عذاب میں دکھایا ہے کہ وہ مسیح کی آمد سے پہلے پیدا ہوئیں۔ مسلم شخصیات کے ساتھ دانتے کا برتاؤ اس کے اسلام مخالف نظریات اور مذہبی عصبیت کا واضح ثبوت ہے۔ بقول غالب:

شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

دانتے کے برعکس اقبالؒ کے یہاں ”جاوید نامہ“ میں غیر مسلم اشخاص کے سلسلے میں ہر جگہ عزت و احترام کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ گوتم بدھ اور زرتشت کو بھی صالح افراد میں شامل کرکے انہیں اعلیٰ عزت واحترام دیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے مشہور شاعر بھرتری ہری کو بلند مقام سے نوازا ہے۔ نطشے اور طاہرہ بابیہ کو اطراف بہشت دکھایا ہے۔ اقبال نے جاوید نامہ میں وسعت قلبی، وسیع المشربی اور انسانی رواداری کا خوبصورت مظاہرہ کیا ہے۔

اس اعتبار سے وہ دانتے سے زیادہ قد آور نظر آتے ہیں اقبال نے ہر آدم زاد کو بلا تفریق بلند مقام دیا ہے۔ وطن سے بے پناہ محبت کے باعث جعفر و صادق جیسے غداروں کو جہنم میں دکھایا ہے۔ دانتے کو اگر اسی زاویے سے دیکھا جائے تو اس نے ڈیوائن کامیڈی میں تنگ نظری، اورتعصب کو ہر غیر عیسائی کردار کے ساتھ روا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں وہ پیغمبر اسلام صلعم سے بھی تعصب روا رکھتا ہے جو دانتے کے ذہنی فساد کا ثبوت ہے۔ عورتوں کے لیے تحقیر آمیز کلمات، وطن اور اہل وطن سے بیزاری اور کراہت آمیز خیالات اور اپنے نسلی تفاخر کے پرچار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبالؒ کا مرتبہ دانتے سے کئی درجے بلند ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈیوائن کامیڈی کے مقابلے میں جاوید نامہ کا کینوس بہت چھوٹا ہے اس کی وجہ ڈیوائن کامیڈی چودھویں صدی کے تفصل پسند مزاج کی ترجمان ہے جبکہ جاوید نامہ بیسویں صدی کے اختصار پسند دور کی جھلک ہے۔

دانتے کا سفر آسمانی ایک نسوانی محبت کے باعث ہے جبکہ جاوید نامہ اسلام کے معروف موضوعات اسرار مرگ و حیات، خیروشر، فلسفہ زمان و مکاں، صفت توحید، اور حق و صداقت کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس کا محرک کوئی عورت یا محبوبہ نہیں ہے۔ اقبال نے اپنی سیر افلاک کے لیے مولانا رومی کواپنا رہنما بنایا ہے اور وہ پورے سفر میں ان کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ دانتے کے رہنماؤں میں ورجل پہلی دو منازل میں ان کے ساتھ ہے، جنت ارضی کا سفر وہ ایک خوبرو خاتون ”ماٹلڈا“ کے ساتھ کرتا ہے جبکہ جنت کے پورے دورانیہ میں اس کی محبوبہ بیاترس اس کے ساتھ رہتی ہے۔

دانتے کے آخری رہنما ”سنٹ برناڈ“ ہیں۔ دانتے کے یہاں فنی لوازم اور شاعرانہ محاسن کی کمی نہیں لیکن فکری اعتبار سے کئی کمزوریاں موجود ہیں اس کے برعکس جاوید نامہ فکر و فن دونوں اعتبار سے بلند ہے۔ اقبال حیات انسانی کو ابدی بنانے کے خواہش مند ہیں انہیں خودی کے استحکام کی فکر ہے جس کے لیے وہ خیر اور شر کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).