پاکستان میں بہتے دریائے نیل اور عمر بن خطاب کی منتظر عوام۔


ہم اکثر فلموں میں دیکھتے ہیں اور تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں لوگ کس طرح اپنے عقائد کے مطابق اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیوتاؤں کو کنواری لڑکیوں کی یا چھوٹے بچوں کی بلی چڑھاتے اور گمان کرتے کہ ان کے اس عمل سے دیوتا خوش ہو کر ان کی منت و مراد پوری کر دیں گے۔ ان دیوتاؤں میں شامل یا تو کوئی ان دیکھی قوتیں ہوتی یا فرعونوں کی شکل میں وقت کے حکمران و بادشاہ ہوتے۔

کچھ اسی طرح کا عقیدہ مصری لوگوں کا دریائے نیل کے بارے میں بھی تھا۔ دریائے نیل کی بہت پرانی تاریخ ہے یہ آج بھی شمال مشرقی افریقہ میں شمال کا ایک بڑا دریا ہے۔ جو 6650 کلو میٹر لمبائی کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اور اس کے نکاسی آب میں گیارہ ممالک شامل ہیں جن میں تنزانیہ، یوگنڈا، روانڈا، برونڈی، جمہوریہ کانگو، کینیا، ایتھوپیا، اریٹیریا، جنوبی سوڈان، جمہوریہ سوڈان، اور مصر شامل ہیں۔ اور یہ دریائے نیل ہی خاص طور پر مصر اور سوڈان کا بنیادی آبی وسیلہ ہے۔

مصری تہذیب اور سوڈانی ریاستیں قدیم زمانے سے ہی دریا پر منحصر ہیں۔ مصر کی بیشتر آبادی اور شہر اسوان کے شمال میں وادی نیل کے ان حصوں کے ساتھ آباد ہیں اور قدیم مصر کے قریب تمام ثقافتی اور تاریخی مقامات دریا کے کنارے پائے جاتے ہیں۔

بعض کتابوں میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ قدیم مصری لوگوں میں اک عجیب رسم تھی وہ دریائے نیل کو اپنا دیوتا تصور کرتے اور اور یہ عقیدہ رکھتے کے یہ دیوتا بھی انسانی قربانی کے بغیر خوش نہیں ہوگا اور پانی نہیں دے گا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کو دلہن کی طرح تیار کرتے اور دریائے نیل میں اس کی قربانی دے دیتے اور ان کے اس عمل سے دریائے نیل بہنے لگتا اور مصری لوگ اس کے پانی سے سیراب ہوتے۔

پھر جب اسلام کا بول بالا ہوا اور مسلمانوں نے مصر فتح کیا تو مصری لوگ خلیفہ وقت عمر ابن خطاب سے کہنے لگے کے دریائے نیل ہر سال انسانی قربانی کے بغیر نہیں چلتا لہذا ہمیں ایک خوبرو لڑکی کی قربانی دینی ہوگی اس وقت خلیفہ ثانی عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے خط لکھا دریا نیل کے نام اور کہا کہ یہ خط دریا میں ڈال دو دریا بہنے لگے گا۔ خط میں لکھا تھا کہ اے دریائے نیل اگر تو اللہ کے حکم سے چلتا ہے تو اس ذات کے حکم سے چل اگر اس کے حکم سے نہیں چلتا تو ہمیں تیرے پانی کی کوئی ضرورت نہیں، مورخین لکھتے ہیں کے اس کے بعد دریائے نیل ٹھاٹھیں مارتے ہوئے کناروں تک بہنے لگا اور تا حال بہتا ہی چلا جا رہا ہے۔

جب ہم یہ مصر کے دریائے نیل کی داستان پڑھتے ہیں تو ہمیں پاکستان میں بہتے کئی دریائے نیل نظر آ تے ہیں جن کی مشابہت بالکل مصر کے دریائے نیل سے ملتی ہے، جن میں دریائے پولیس، دریائے سی۔ ٹی۔ ڈی، دریائے ایجوکیشن، دریائے صحت، دریائے امن و امان، دریائے بلدیہ، دریائے واپڈا، دریائے ملائیت الغرض پاکستان کے تمام ادارے اور با اثر طبقہ سوائے چند ایک کے اب یہ پاکستانی دریائے نیل بن چکے ہیں۔ ہر سال جب تک ان کو کوئی انسانی قربانی نہیں دی جاتی یہ نہیں چلتے یہ قربانی سانحہ سیالکوٹ موٹروے پہ بچوں کے سامنے لٹتی ماں کی ہو یا درندگی کا نشانہ بنی ننی زینب کی یا پھر سانحہ ساہیوال میں بچوں کے سامنے محافظوں کے ہاتھوں قربانی چڑھتے ماں باپ، یا ان دریاؤں کی بے حسی سے قربانی چڑھتا پاکستان الغرض یہ پاکستانی دریائے نیل جب تک کسی کی قربانی نہ لے لیں یہ چلنا تو درکنار یہ ذمہ داری کا ایک قطرہ آب تک عوام تک نہیں آنے دیتے۔ ہر بار کوئی نیا شعبدہ باز آتا ہے ان دریاؤں کو چلانے کے دعوے کرتا ہے اور پھر سالہا سال اقتدار کے مزے لوٹ کر چلتا بنتا ہے لیکن یہ دریا آج بھی انسانی قربانی کے بغیر نہیں چلتے۔ ایسے میں یہ عوام اب منتظر تو پھر سے کسی ابن خطاب کی جو ان دریاؤں کو لگام ڈالے اور یہ انسانی قربانی کے بغیر چلنا شروع کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).