’’بڑا کھانا‘‘ اور نوازشریف کی کشتیاں جلاتی تقریر


جس ’’بڑے کھانے‘‘ کا پیر کے دن سے بہت شوروغوغا کے ساتھ ذکر ہورہا ہے اس کا اہتمام بدھ کی شام ہوا تھا۔ یہ وہی دن تھا جب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ایک دو نہیں دس کے قریب قوانین عمران حکومت نے یک مشت منظور کروائے تھے۔ ان تمام قوانین کو قومی اسمبلی سے منظوری کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے بھاری بھر کم اکثریت کے بل بوتے پرسینٹ کے ذریعے ’’مسترد‘‘ کردیا تھا۔

ایوانِ بالا سے ’’مسترد‘‘ ہوئے قانون کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے روبرو رکھنا ہوتا ہے۔ گنتی کی منطق بروئے کار لائیں تو ان دنوں کی حکومت کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اپنی ترجیح کے قوانین کی منظوری کو یقینی بنانے والی اکثریت میسر نہیں۔ اپوزیشن کے آٹھ ووٹ زیادہ ہیں۔ ’’زمینی حقائق‘‘ نظرانداز کرتے ہوئے لیکن حکومت نے مذکورہ قوانین مشترکہ اجلاس کے روبرو رکھنے کا ’’رسک‘‘ لیا۔ ایسے ’’رسک‘‘ مناسب ہوم ورک کے بعد ہی لئے جاتے ہیں اور ہوم ورک کا کرشمہ ہمیں مذکورہ قوانین کی منظوری کے دوران 36 اپوزیشن اراکین کی عدم موجودگی کی صورت نظر آگیا۔

حزب مخالف کے رہ نما یقینا دُکھی دل اور شکست خوردہ ذہن کے ساتھ ’’اس کھانے‘‘ میں شریک ہوئے ہوں گے۔ ہمارا ’’ہر لمحہ باخبر‘‘ ہونے کا دعوے دار میڈیا اس کھانے کی بابت قطعاََ غافل رہا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصرکی ’’صحافت‘‘ کو لیکن سلام۔ موصوف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ مشترکہ اجلاس سے حکومتی ترجیح کے مطابق تیار ہوئے قوانین کی منظوری کے بعد ان کی شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے ان دونوں رہ نمائوں کے ’’ذمہ دار اور بردبار ‘‘ رویے کو سراہا۔ یہ ملاقات کب اور کہاں ہوئی۔ اس کے بارے میں لیکن خاموش رہے۔

ہم صحافیوں کی اکثریت اگر مذکورہ کھانے کی بابت لاعلم رہی تو انہیں دوش کیوں دیں۔ یہ بات تو عرصہ ہوا طے ہو چکی ہے مجھ جیسے رپورٹروں کی اکثریت ’’لفافوں‘‘ پر مشتمل ہے۔ میڈیا اجتماعی طورپر بلکہ ’’بکائو‘‘ ٹھہرا دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی اسمبلی اور سینٹ مگر انتہائی ’’معزز‘‘ افراد پر مشتمل ہیں۔ یہ سوال اٹھانا لہذا لازمی ہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے ’’اس کھانے‘‘ میں جانے سے قبل یا اس کے بعد اپنی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس بلائے؟۔ اپنے ’’معزز‘‘ ساتھیوں کو اس کھانے میں ہوئی گفتگو کی بابت اعتماد میں لیا۔

ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے پورے اعتماد سے آپ کو آگاہ کررہا ہوں کہ ہرگز نہیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے اگر اپنے ہی جماعتوں کے ’’معزز اراکین پارلیمان‘‘ کو اعتماد کے قابل نہ سمجھا تو وہ تحریک انصاف کے جناب ڈاکٹر وسیم شہزاد اور فیصل جاوید صاحب کی تقاریر سے چراغ پا کیوں ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں سینٹ میں کھڑے ہوکر ان اراکین کو شریف خاندان اور آصف علی زرداری کے ’’ذہنی غلام‘‘ قرار دیتے ہیں تو مصطفیٰ نواز کھوکھر جیسے مہذب اور خاموش طبع افراد بھی طیش میں کیوں آجاتے ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کے سینیٹر مصدق ملک اپنی قیادت کے بہت ’’قریب‘‘تصور ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس کھانے کی بابت لاعلم رہے۔ پرویز رشید کا عالم بھی ایسا ہی رہا۔

پیپلز پارٹی کے ازلی جیالے اور ہر حوالے سے باکردار اور اصولی میرے بھائیوں جیسے دوست رضا ربانی بھی اس کھانے میں ہوئی گفتگو سے بے خبر تھے۔ ’’ذہنی غلاموں‘‘ کے لئے مگر ان کی قیادت کی جانب سے اپنائی رعونت اب ناقابل برداشت ہورہی ہے۔ اتوار کے روز ہوئی اے پی سی نے میری دانست میں ان ’’غلاموں‘‘ کو تھوڑا حوصلہ بخشا ہوگا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت اگر’’ملاقاتیں جو ہوتی ہیں‘‘کے بارے میں اپنے عام کارکن ہی نہیں بلکہ ’’معزز اراکین پارلیمان‘‘ کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں تو عمران حکومت ان کے نازنخرے کیوں اٹھائے۔

اسی رویے کی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں تقریباََ ایک سال گزرجانے کے باوجود اپنی جماعتوں میں سے ان 14 افراد کی نشان دہی نہیں کرپائیں جن کے ضمیر سینٹ چیئرمین کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے دوران پولنگ بوتھ کی تنہائی میں انگڑائی لے کر جاگ اُٹھے تھے۔

اس تناظر میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے دانستہ طورپر غیر حاضر رہنے والے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ سے بھی کوئی بازپرس نہیں ہوگی۔ نیب سے ان بے چاروں کو خوف آتا ہے۔ انہیں بھی اپنی اولاد سے پیار ہے۔ سچے یا جھوٹے کیسوں کی بنیادوں پر وہ ان کی میڈیا میں رسوائی کا خطرہ کیوں مول لیں۔ عدالتوں میں پیشیاں کیوں بھگتیں۔ ’’قومی مفاد‘‘ میں اگر کوئی قانون پاس کرنا ضروری ہے تو اس کی منظوری میں روڑے کیوں اٹکائیں۔ سینٹ یا پارلیمان کے مشترکہ اجلاسوں سے غائب رہ کر اپنا ’’دین ودل‘‘ کیوں نہ بچائیں۔

شہبازشریف صاحب کی شہرہ آفاق Deal Making صلاحتیں تو ان کی اپنی ذات اور بچوں کو سکھ کے لمحات فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے کسی اور کارکن یا رہ نما کی مدد کے قابل ہی نہیں رہے۔ قیادت جب خود دیوار سے لگی نظر آئے تو ان کی جماعتوں میں عدم تحفظ کا خوف جاگزیں ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کو ’’اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ‘‘ لاحق ہوجاتی ہے۔ میرے چند بہت ہی پیارے اور خبروں کی تلاش میں ہمہ وقت متحرک ساتھیوں کو گماں ہے کہ اتوار کے روز نواز شریف صاحب نے اے پی سی سے جو دھواں دھار خطاب فرمایا ہے اس کی بنیادی وجہ ’’اسی کھانے‘‘ میں ہوئی گفتگو تھی۔

چند حقائق سے آگہی کی بنیاد پر میں اس رائے سے اختلاف کرنے کو مجبور ہوں۔ ’’اس کھانے‘‘ سے کئی ہفتے قبل نواز شریف صاحب نے یہ طے کرلیا تھا کہ شہباز صاحب کی اختیار کردہ حکمت عملی بارآور ثابت نہیں ہو رہی۔ طویل المدتی تناظر میں مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک کو بلکہ ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچائے گی۔ دریں اثناء نیب کے لاہور آفس نے محترمہ مریم نواز کو چند زمینوں کی خریداری کے حوالے سے اٹھائے سوالات کا جواب دینے کو طلب کرلیا۔

شہباز صاحب کے ’’معاملہ فہم‘‘ مصاحبین نے وکلا سے طویل مشاورت کے بعد رائے بنائی کہ مریم نواز صاحبہ کو فی الحال ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔ وکلا ء کے تیار کردہ دلائل پر مبنی چٹھی کے ذریعے ’’مہلت‘‘ حاصل کی جاسکتی ہے۔ نواز شریف صاحب نے مگر اس رائے کو سختی سے ویٹو کردیا۔ اپنی دُختر کو حکم دیا کہ وہ ہر صورت نیب کے روبروپیش ہوں۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ اس پیشی کے لئے گھر سے روانہ ہوئیں تو لاہور کی سڑکوں پر پُلس مقابلہ ہوگیا۔ ٹھوس معلومات کی بنیاد پر آپ کو آگاہ کرچکا ہوںکہ اے پی سی خطاب کا فیصلہ بھی نواز شریف صاحب نے اپنے تئیں کیا تھا۔ یہ فیصلہ ’’اس کھانے‘‘ سے کم از کم دو دن قبل مسلم لیگ (نون) کے ان رہ نمائوں کو Convey کردیا گیا تھا جو پیپلز پارٹی کے ان رہ نمائوں سے رابطے میں رہتے ہیں جنہیں بلاول بھٹو زرداری کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین سے ’’فرمائش‘‘ ہوئی کہ وہ نواز شریف صاحب کو فون کرکے انہیں اے پی سی میں شرکت کے لئے مدعو کریں۔ اس تناظر میں انہیں حسن نواز کے زیر استعمال فون کا نمبر بھی دیا گیا۔ عینی شاہدوں کی زبانی سنا ہے کہ نواز شریف صاحب بلاول بھٹو زرداری سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بہت خوش اور گرم جوش رہے۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین کو جہاں دیدہ اور تجربہ کار نواز شریف نے یقین دلایا کہ اے پی سی کی “Timing”بہت “Perfect”ہے۔ یاد رہے کہ Timing کا لفظ میری اختراع نہیں۔ یہ نواز شریف صاحب نے استعمال کیا تھا۔

اسی باعث میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کو بے چین ہوں کہ نواز شریف نے طویل خاموشی کے بعد ستمبر2020 ہی میں ’’کشتیاں اور پل‘‘ جلاتی تقریر کا فیصلہ کیوں کیا۔ ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب مگر ڈھونڈ نہیں پایا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).