میڈیکل کی مخلوط تعلیم اور لڑکا اک شرمیلا سا


اقرار کیے بنا چارہ نہیں سو کیے لیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک مسئلہ ہے اور ہے بھی گمبھیر!

جب بھی ہم کچھ ایسا سنیں جس کا نہ سر ہو نہ پیر، کہنے والا نہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھے نہ اخلاقی قدروں کے تانے بانے کو سمجھے، تو جی چاہتا ہے کہ کہنے والے کا سر کھول دیا جائے۔ ارے نہیں، نہیں، وہ نہیں، جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا مقصد تو محض تجسس کی خاطر سر کے اندر تاک جھانک کر کے بات سمجھنے کی کوشش کرنا ہے جیسے لفظوں سے تصویریں بنانے والے گلزار کہتے ہیں،

اگر ایسا بھی ہو سکتا
تمہاری نیند میں سب خواب اپنے منتقل کر کے
تمہیں وہ سب دکھا سکتا
جو میں خوابوں میں اکثر دیکھا کرتا ہوں

تو جی یہ چاہتا ہے کہ ماضی کا پہیہ گھما کے ذرا اس دور میں چلا جائے جب آج کے مولانا طارق جمیل، میڈیکل کالج کی راہداریوں میں ٹہلتے ہوئے طارق جمیل ہوا کرتے تھے۔ ہمیں کھد بد لگی ہے کہ میڈیکل کالج کے دنوں میں غور و فکر کر کے انہوں نے کیسے وہ دانش پائی جس کا اظہار اب وہ منبر پہ بیٹھ کے کیا کرتے ہیں۔ اور سامنے لاکھوں کا مجمع ان کے اقوال پہ نہ صرف سر دھنتا ہے بلکہ شکر کا سجدہ بجا لاتا ہے کہ وہ آگ اور پٹرول کے ملاپ والے مقامات سے گزرنے کی آزمائش سے محفوظ رہا۔

آگ اور پٹرول کی جو آزمائش میڈیکل کالج میں مولانا طارق جمیل کو جھیلنا پڑی، ان دنوں کی بابت ہی تو انہوں نے فرمایا ہے کہ شکر کا مقام یہ رہا کہ انہوں نے جلد بھانپ لیا کہ وہاں گزارے ہوئے دنوں کا حاصل اعلیٰ تعلیم اور مسیحائی کی بجائے بے راہ روی اور ریپ ہے تو وہ چپکے سے وہاں سے نکل لئے۔

یقین جانیے جب سے یہ بیان سنا ہے ہمارا دل تو پارے کی طرح لرز رہا ہے کہ نہ جانے کون سا منہ لے کے روز حشر کو جائیں گے۔ ہم تو بڑی پامردگی سے انہی راہوں کے نہ صرف راہی رہے بلکہ بے شمار کو ہلا شیری دے کر اس رستے کی دعوت بھی دی۔ ویسے آپس کی بات ہے اگر طارق جمیل ان دنوں میں ہمارے شناسا ٹھہرتے تو شاید ہماری زندگی میڈیکل کالج سے فرار ہو کے تو سنورتی ہی، ہماری آخرت کو بھی آج لالے نہ پڑے ہوتے!

تو چلیے دیکھتے ہیں ماضی کا ایک دن میڈیکل کالج میں طارق جمیل کے ہمراہ!

کلاس شروع ہو چکی ہے۔ ڈیڑھ دو سو طلبا و طالبات لیکچر سننے میں مشغول ہیں۔ پروفیسر صاحب انسانی جسم کی پرتوں پہ روشنی ڈال رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی شرارتی طالب علم کوئی چٹکلا چھوڑ دیتا ہے اور فضا میں مردانہ قہقہوں کے ساتھ مترنم ہنسی بھی شامل ہوتی ہے۔ ایک بینچ کے کونے پہ ایک سمٹا سمٹایا دیہاتی لڑکا بیٹھا ہے۔ لیکچر سننے کی بجائے دماغ میں ایک ہی خیال چل رہا ہے، ہمارے گاؤں میں تو لڑکیاں اس طرح نہیں ہنستیں، نہ ہی اس طرح کے کپڑے پہنتی ہیں۔ معلوم نہیں ان کے ماں باپ نے انہیں لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت کیسے دے دی؟ یہ تو نرا عذاب ہے میرے لئے۔ ان کی ہنسی ایک جبر مسلسل ہے، ان کی آواز ایک صبر و برداشت کا امتحان ہے، کیا کروں؟

یک لخت پروفیسر صاحب کی نظر اس لڑکے پر پڑتی ہے جس کی آنکھ پروجیکٹر پر لگی سلائیڈز کی بجائے کہیں اور اٹکی ہوئی ہے۔ وہ مخاطب ہو کے سوال پوچھتے ہیں،

” تم بتاؤ، معدے میں خوراک پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کون سا تیزابی ہارمون خارج ہوتا ہے؟“
” جی، پٹرول۔“
”کیا کہا۔ برخوردار میں انسانی معدے کی بات کر رہا ہوں، موٹر سائیکل کی ٹنکی کی نہیں“
ساری کلاس ہنس پڑتی ہے!

” جی میرا مطلب تھا، آگ اور پٹرول اکٹھے یوں۔ یعنی خطرناک۔ میرا مطلب ہے۔ غلط نتیجہ۔ یعنی کہ خلاف شرع۔“

کلاس میں بلند آہنگ قہقہوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ پروفیسر صاحب ناک کی پھننگ پہ رکھی عینک کے پیچھے سے گھورتے ہیں،

” اجی مولوی صاحب، ہم انسانی معدے میں خوراک کے ہضم ہونے کے بارے میں پڑھ رہے ہیں، یہ شرع کہاں سے آ گئی؟“

لیکچر ختم ہو جاتا ہے۔ سب لڑکے اور لڑکیاں لیکچر تھیٹر سے باہر آ کر خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ لڑکے کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سب اس قدر نارمل طریقے سے بات کیسے کر رہے ہیں؟ لڑکی اور لڑکے کے درمیان تو اور کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے اسی ایک بات کے۔

”اوہ اچھا، اصل میں تو سب کچھ تنہائی میں ہوتا ہو گا نا جیسے ہمارے گاؤں میں کنویں کے پیچھے یا کھیتوں میں بھری فصلوں کی آڑ میں۔ لیکن یہاں تنہائی کہاں۔ شاید اس باڑ کے پیچھے یا پھر ٹوائلٹ کی طرف۔“ وہ زیر لب بڑبڑاتا ہے۔

اب سب لوگ ڈائسیکشن ہال کی طرف جا رہے ہیں۔ ہر میز پہ ایک مردہ ہے اور اس کے گرد چھ لوگوں کی ٹولی ہے۔ اس لڑکے کے گروپ میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔

” یہ کیسے ممکن ہے یہ لڑکیاں اس مردہ شخص کو کیونکر ہاتھ لگائیں گی؟ اف خدایا، اعضائے مخصوصہ ہی ڈھک دیتے۔ بھلا مردہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ رہیں گے تو اعضاء مخصوصہ، نظر پڑے تو خیال تو وہی آئے گا نا۔ حد ہو گئی بے شرمی کی، آگ لگے ایسی انگریزی تعلیم کو، جہاں لڑکیوں کے سامنے سب کچھ دیکھنا پڑے۔ اب کوئی کہاں تک ضبط کرے“

لڑکا اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔
اب سب ساتھی کینٹین کی طرف جا رہے ہیں، پیٹ پوجا کا وقت ہے۔

کینٹین میں ہر طرف رنگوں کی بہار ہے اور ہنسی مذاق کے ساتھ بلا تھکان قصے کہانیاں چل رہے ہیں۔ لڑکے کی سمجھ سے باہر ہے کہ لڑکیاں اور لڑکے آپس میں روزمرہ کی باتیں کیسے کر سکتے ہیں؟ ان کی آنکھوں میں وہ خاص قسم کی چمک کیوں نہیں اترتی جو ایک خاص وقت میں مرد و عورت کو بے حال کرتی ہے۔

” توبہ، توبہ، یہ نیلے دوپٹے والی کس قدر زور سے ہنستی ہے اور وہ ہری قمیض والی کا لباس کیسا عجیب اور دعوت نظارہ دینے والا ہے، پورا جسم جھلک رہا ہے۔ وہ کونے میں بیٹھی کس قدر تنگ جینز پہنے بیٹھی ہے۔ یا اللہ کس طرح اپنا ایمان بچاؤں؟ یہ سب تو گھر سے نکلی ہی اس لئے ہیں کہ کوئی بھی ہاتھ لگا لے، بلکہ جو مرضی کر لے“

لڑکا سوچ کے سمندر میں ڈوبا ہے

”ویسے فائدہ تو ہے اس انگریزی پڑھائی کا، شام کا وقت سیٹ کرنے میں آسانی رہتی ہو گی۔ دوسرے ماں باپ کی نگرانی کا جھنجھٹ بھی نہیں۔ اب ہمارے گاؤں میں تو ہر کونے کھدرے سے کوئی چاچا یا ماما نکل آتا ہے۔ کتنی دقت پیش آتی ہے وہاں کسی لڑکی سے ملنے میں۔

بے حیائی دیکھو، بالکل مغرب کے معاشروں کی طرح۔ اب یہ جو ہنس ہنس کے ساتھ میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں کیا یہ اپنے آپ کو بہن بھائی سمجھ رہے ہوں گے؟ فحش خیالات تو آ ہی رہے ہوں گے۔ مرد اور عورت کا تعلق محض آگ اور پٹرول ہے، کیسے ممکن ہے، آگ نہ لگے، شعلے نہ بھڑک اٹھیں۔

مجھے تو دیکھ سن کے ہی دھیان بٹانا مشکل لگتا ہے کجا یہ کہ مخاطب کروں۔ لیکن نظر تو ہر ایک پہ اٹھتی ہے اور ایک ہی خیال سوجھتا ہے، کیسے؟ کب؟ کہاں؟

یہ میڈیکل کالج تو نرا فحاشی کا اڈہ ہے۔ میرا تو یہاں گزارا ممکن نہیں۔ میں ابا کو کہہ دوں گا میری راہ اور ہے مجھے صرف جنت کی حوروں کا انتظار کرنا ہے۔ میں اس بے حیائی کے اس ماحول میں ایک دن اور نہیں ٹھہر سکتا ”

بہت برسوں کے بعد اس لڑکے کو میڈیکل کالج میں گزاری وہ مدت یوں فائدہ دیتی ہے کہ حوروں کی پنڈلیوں، آنکھوں، اور دیگر اعضا کی تفصیل بیان کرنے اور سامعین کی آتش شوق بھڑکانے میں دقت پیش نہیں آتی۔ ہاں کچھ معصوم بے زبانوں پہ تعلیم کے دروازے مزید سختی سے بند کر دیے جاتے ہیں جن کے والدین ایک معزز شخص کی اس گواہی پہ اعتبار کرتے ہیں جس میں درس گاہوں کو بے حیائی کے مراکز قرار دیا جاتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).