اسٹبلیشمنٹ بمقابلہ اپوزیشن


آج کل اپوزیشن کی اے پی سی کا بڑا چرچہ ہے کیونکہ یہ اے پی سی جو ایک عام رسمی کارروائی تھی اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اس اے پی سی سے ویڈیو لنک پر خطاب نا کرتے۔ مگر اب اس اے پی سی کے اعلامیے نے اور اس کے بعد کے واقعات بڑے اہم ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جو اے پی سی ایک سال سے ٹالی جا رہی تھی کہ یہ ممکن کیسے ہوئی اور بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں ایک دم اپوزیشن متحد ہو گئی۔

پچھلے سال آزادی مارچ ہوا۔ مولانا فضل الرحمان تو حکومت گرانے آ گئے مگر تب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اس سے نواز شریف باہر چلے گئے اور آصف علی زرداری رہا ہو گئے۔ مولانا کا ان دونوں جماعتوں سے اعتبار اٹھ گیا۔ اس لئے مولانا نے ان دو پارٹیوں سے رابطے منقطع کر دیے مگر جب بجٹ کے بعد دوبارہ شور اٹھا تو مولانا نے لندن میں نواز شریف سے رابطہ کیا۔ نواز شریف نے یقین دلایا کہ اس بار ہم ساتھ دیں گے۔ پیپلز پارٹی بھی مان گئی۔ اسی لئے تو جولائی کے بعد سے رابطے بڑھنے لگے اور 3 ستمبر کو طے ہوا کہ 20 ستمبر کو اے پی سی ہوگی۔

ستمبر کے آغاز میں کئی واقعات ہوئے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کے نمائندے نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور انہیں کہا گیا کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے جس پر جواب آیا ہے کہ یہی نظام چلے گا اور ہم مال روڈ پر دو بندے اکٹھے نہیں ہونے دیں گے۔ اوپر سے جب سے مریم نواز کی پیشی والا معاملہ ہوا تو حکومت نے نواز شریف کو واپس لانے کا کہا۔ عدالتوں نے کہا کہ نواز شریف سرنڈر کریں مگر ابھی تک وہ واپس نہیں آئے اور مفرور قرار دے دیے گئے۔

ایف اے ٹی ایف بل منظور کروانے کے لئے مشترکہ اجلاس میں جو ہوا اس سے شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو احساس ہوا کہ بار ہا مفاہمت کام نہیں آ رہی۔ اسی لئے اے پی سی میں بلاول نے نواز شریف کو خطاب کرنے کی دعوت دی۔ نواز شریف نے اسے موقع جانا اور انہوں نے اپنی دو سالہ خاموشی توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

ایک دن پہلے نواز شریف نے ٹویٹر پر اکاونٹ بنا لیا۔ نواز شریف کی تقریر میرے نزدیک پاکستان کے سیاسی تاریخ کی ایک اہم تقریر تھی۔ 53 منٹ کی تقریر میں نواز شریف نے ڈائریکٹ اسٹبلیشمنٹ کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا اور نام لے کر کہا کہ عاصم سلیم باجوہ نے بلوچستان حکومت گروائی اور سینیٹ الیکشن مینیج کیا۔ ایک دفعہ پھر کہا ووٹ کو عزت دو اور یعنی معیشت، امن و امان، مہنگائی، موٹروے کیس، خارجہ پالیسی، دفاع و داخلہ پالیسی نیز ہر موضوع پر اپنی تقریر میں بولے۔ مگر سب سے اہم بات تھی کہ انہوں نے عمران خان کو کہا کہ مقابلہ آپ سے ہے ہی نہیں، آپ کے لانے والوں کے ساتھ ہے۔ 2 مئی 2018 کو صادق آباد جلسے میں خلائی مخلوق کہا تھا مگر اس بار نام لے کر انہیں مخاطب کیا اور سب سے بڑی بات میڈیا پر تقریر لائیو دکھائی گئی حالانکہ حکومت نے اسے روکنے کا اعلان کیا۔

اس کے بعد تمام شرکاء نے تقریر کی مگر یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف کی تقریر اے پی سی سے بہت اوپر تھی اور پوری تفصیل سے بات بتائی کہ سویلینز کو کیا مسئلہ 73 سال سے پیش آ رہا ہے اور پھر انہیں مدت پوری کیے بغیر چلتا کیا جاتا ہے۔ بلاول نے اتنی تنقید براہ راست نہیں کی مگر کہا کہ پارلیمان آزاد کروانا ہے۔ زرداری صاحب نے کہا جمہوریت بحال کرنی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی سخت تقریر کی جو نہیں دکھائی گئی جس پر وہ خفا ہوئے۔ نیز 11 جماعتوں کے قائدین نے تقاریر کی۔

اس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں ڈائریکٹ اسٹبلیشمنٹ کو للکارا اور ایجنسیوں کے کردار پر تحفطات کا اظہار کیا۔ 18 ویں ترمیم، بلوچستان پیکج، جبری گمشدگیاں، تعلیم اور مہنگائی۔ یہ بھی کہا کہ اب کسی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے اور ایک نیا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے بنایا گیا اور میثاق جمہوریت کو اب میثاق پاکستان کے نام سے نیا میثاق ہو گا۔ ایکشن پلان بڑا معنی خیز ہے۔ اکتوبر سے احتجاج شروع ہوگا۔ جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔ دسمبر تک یہ چلتا رہے گا اور پھر جنوری میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن مارچ ہوگا۔ اے پی سی کے اعلامیے پر سب حیران اور پریشان ہوئے کہ اپوزیشن نے تو اسٹبلیشمنٹ کو للکار دیا ہے کہ ہماری طرف سے آپ کے خلاف اعلان جنگ۔

اسٹبلیشمنٹ نے اس کا جواب وہ ملاقات لیک کر کے کیا اور بتایا کہ ہمارا سیاست سے براہ راست یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں اور آپ ہمیں بیچ میں نا لائیں۔ حالانکہ میں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ بیان سب سے بڑا مذاق ہے کہ آپ ہمیں سیاست میں بلاتے ہیں۔ اپنے مسئلے خود حل کریں۔ اپوزیشن نے کہا ہے کہ اجلاس تو گلگت بلتستان کے اوپر تھا اور پھر دیگر باتیں بھی ہوئی۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ یہاں اتنی ملاقاتیں ہوتی ہیں مگر آج تک میڈیا میں آئی نہیں مگر یہ میٹینگ اس لئے پبلک کی گئی کیونکہ اپوزیشن اسٹبلیشمنٹ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ نا ہوتی تو یہ پبلک ہی نا ہوتا معاملہ۔

اب اگلے 3 ماہ نہایت اہم ہیں کیونکہ مارچ میں ہونے ہیں سینیٹ الیکشن۔ اور اگر ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے پاس سینیٹ آ جائے گا اور اگر کبھی کبھار اپوزیشن کی مدد چاہیے ہوتی ہے قانون سازی میں تو ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اور جو مرضی ترمیم لا کر صدارتی نطام لانے کی پلاننگ ہے۔ اگر الیکشن ہو گئے تو اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اپوزیشن جانتی ہے کہ حکومت گرانی ہے تو مارچ سے پہلے گراؤ۔ ورنہ ہم آگے ہی دیوار سے لگا دیے گئے ہیں پھر تو دیوار میں چن دیے جائیں گے۔ اس لئے مشن یہ ہے کہ حکومت گراؤ۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اسٹبلیشمنٹ مشن عمران جاری رکھنے پر بضد رہے گی یا اپوزیشن کو کہا جا رہا ہے کہ آپ گرائیں مگر لگ یہی رہا ہے کہ اسٹبلیشمنٹ 10 سالہ پلان پر قائم ہے۔

اسی لئے اب احتجاج روکنے کے لئے گرفتاریاں، پکڑ دھکڑ اور نئے کیس کھولے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے جب تک آپ تک یہ تحریر پہنچے اس وقت تک شہباز شریف گرفتار ہو جائیں۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی نیب نے نوٹس بھیج دیا ہے۔ مگر مولانا آسان ہدف نہیں ہیں۔ اگر ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے۔ اسی لئے اب آپ کو محاذ آرائی بڑھتی نظر آئے گی۔

حکومت نے اپوزیشن کو غدار، بھارتی لابی اورملک دشمن جو جو بنانا تھا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری دکھانے کے لئے وہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ مودی کے جیتنے کی دعا عمران خان نے کی، چور دروازے سے کلبھوشن کے لئے آرڈیننس لایا گیا۔ اور کشمیر والا معاملہ ہمارے سامنے ہے اور بھارت کو سلامتی کونسل کے ممبر کے لئے نامزد بھی کیا تھا۔ نواز شریف کو الطاف حسین سے تشبیہ دی گئی۔

اب عیاں ہے کہ اس پی ڈی ایم میں چاروں صوبوں کی جماعتیں ہیں اور اینٹی اسٹبلیشمنٹ بیانیہ کچھ برسوں سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس لئے اگر واقعی اپوزیشن سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے لئے سنجیدہ جد و جہد کرنا چاہتی ہے تو یہی موقع ہے ورنہ آگے دوبارہ جلدی موقع ملنا مشکل ہے۔ اسٹبلیشمنٹ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ امن و امان کے حالات قابو کرنا مشکل ہو جائیں۔

نواز شریف شاید جنوری میں اپنا علاج مکمل کروا کر واپس آئیں گے اور شاید لانگ مارچ اسی لئے جنوری میں رکھا گیا ہے۔ نواز شریف کی یہ تقریر پنجاب میں خاص طور پر اس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اور یہ اسٹبلیشمنٹ کے لئے باعث تشویش ہوگا۔ عاصم سلیم باجوہ نے اب تک نواز شریف کے الزام پر کوئی رد عمل نہیں دیا اور اپوزیشن نے عاصم سلیم باجوہ کے خلاف جے آئی ٹی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے تحقیقات ہونے تک برطرف کیا جائے اپنے عہدوں سے۔

یہ اس ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر معیشت ناکام کارکردگی کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔ گیس بحران بھی سر اٹھائے گا۔ آگے مہنگائی مزید بڑھے گی اور شاید یہ عوامل ہو سکتے ہیں کہ عوام اپوزیشن کی تحریک کو کامیاب بنا دیں۔ اس ملک کے مسئلے افہام و تفہیم سے حل ہونے چاہیے اور ہر ادارہ کو اپنے آئینی حدود کے تحت چلنا چاہیے ورنہ یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔اس بار اگر عوام اور فوج آمنے سامنے آ گئی تو یہ اچھی بات نہیں ہوگی۔

اس لئے دونوں فریقین کو مسائل بیٹھ کر حل کرنے چاہیے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب کشیدگی کی فضا بڑھے گی اور اب بژا کچھ ہوگا اور شاید مولانا فضل الرحمان آنے والے دنوں میں کوئی دھرنا لیکز کر دیں۔ گل بہت ودھ گئی اے مختاریا تے ہالے اور ودھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).