وظائف برائے رد بھوک اور مہنگائی


حکومتیں، ان کے وزرا اور سپورٹرز جہاں اپنے مخالفین پر ہلکا پھلکا طنز یا ان کے ماضی و حال کی کمزوریوں کو نمایاں کرکے پیش کرتے رہتے ہیں وہیں کچھ باتیں وہ بھی ہوا کرتی ہیں جن کو اگر مد نظر نہ رکھاجائے تو یہ محسوس کرنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے کہ ہمارا تعلق ملک کے کس طبقے اور تہذیب سے ہے۔

کہتے ہیں خاموشی عالم کے علم کا زیور اور جاہل کے جہل کا پردہ ہوا کرتی ہے۔ جب تک ایک جاہل، خواہ وہ فرد ہو یا قوم، خاموش رہے، اندازہ نہیں ہو پاتا کہ مد مقابل ڈھول ہے یا ڈھول کا پول۔ ادبا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی ان سے کوئی فرد ملاقات کے لئے آتا تو صرف اتنا ہی کہا کرتے تھے کہ ”فرمائیں“ ۔

پاکستان میں سیاسی مخالفانہ نوک جھوک کوئی نئی بات نہیں لیکن آج سے دس پندہ برس پہلے تک نہ صرف لب و لہجہ بلکہ الفاظ کا چناؤ تک ایک مہذب قوم کی غمازی کرتا نظر آتا تھا لیکن نہ جانے ہم اب ہم کس مقام پر جا پہنچے ہیں جہاں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ ہم اخلاقی زوال کی کس تھاہ تک جا پہنچے ہیں۔

ایک جانب ہمارے لب و لہجے بگڑ کر رہ گئے ہیں تو دوسری جانب جو مغلظات بھی ہم اپنے منھ سے ادا کر سکتے ہیں، ادا کرنے سے نہیں چوکتے۔ نہ صرف الفاظ کا غیر شائستہ انداز سوہان روح بنا ہوا ہے بلکہ جس قسم کی زبان کا استعمال دیکھنے میں آ رہا ہے وہ اتنا عامیانہ ہے جس کو پڑھنے اور سننے کے باوجود بھی ضبط تحریر نہیں کیا جا سکتا۔

حکومتوں اور ان کے سپورٹرز کا ہر دور میں اپنے مخالفین کے خلاف انداز ہمیشہ ہی جا رہا نہ رہا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قوم کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی ایک بھی ایسی بات نہ ہو جس سے عوام کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ وہ جن جن وعدوں اور دعوں کے ساتھ میدان سیاست میں کودے تھے اس پر کہاں تک عمل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں صرف پی ٹی آئی کی حکومت ایسی نہیں جس نے مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا ہو۔ ایوب خان نے جب ایک غریب پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو چند کارخانوں کے علاوہ کچھ بھی موجود نہ تھا لیکن جب اقتدار چھوڑا تو لاتعداد کارخانے، ائرپورٹس اور ڈیم تعمیر ہو چکے تھے۔ بھٹو کو ایک ٹوٹا، بکھرا اور دستور سے ناآشنا پاکستان ملا تھا لیکن ٹوٹے پاکستان اور دل ٹوٹے پاکستانیوں کو نہ صرف یک جا و یک جان کیا بلکہ پاکستانی قوم کو آئین کا تحفہ بھی دیا۔

غرض جو حکومت بھی آئی اس کو مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان سب کے پاس قوم کے سامنے رکھنے کے لئے بہت کچھ رہا۔ عمران خان کو بھی شاید بہت اچھا پاکستان نہیں ملا ہوگا لیکن جہاں تک ملا تھا وہاں سے آگے جانے کی بجائے پیچھے کی جانب جانے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نہ تو حکمرانوں اور نہ ہی ان کے سپورٹروں کے پاس اپنے سے پچھلوں کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کچھ اور کبھی سامنے نہیں آ سکا۔

ہر وہ دعویٰ اور وعدہ جو عوام سے کیا گیا، ایک قدم بھی اس کے لئے نہیں اٹھایا جا سکا بلکہ اس کے برعکس مخالفین پر الزامات یا رکیک حملے تا حال جاری ہیں۔

مہنگائی اور بے روز گاری کا عوام کو ہر دور میں ہی سامنا رہا ہے لیکن حکومتوں نے کبھی سبسڈی اور کبھی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کرکے کسی حد تک ان میں توازن بر قرار رکھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ فی زمانہ ایک جانب بے روزگار کیے جانے کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ ہے تو دوسری جانب مہنگائی کے دریا کے سارے بند اتنی بری طرح ٹوٹ کر رہ گئے ہیں کہ وہ ایک خوفناک سیلاب کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی، بھوک کی شدت اور بے روز گاری کی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لئے موجودہ حکومت اور اس کے سپورٹروں کی جانب سے بے شک کوئی عملی قدم دیکھنے میں تو نہیں آ سکا البتہ سوشل میڈیا، نیوز چینلوں اور اخبارات میں کچھ وظائف برائے رد بھوک اور بے روزگاری، ضرور سامنے آتے رہیں ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ جب جب ان کو مذکورہ بلائیں پریشان کریں اور ان کی آنتیں کڑوم کڑوم کرنے اور بیوی بچے بھوک سے نڈھال ہونے لگیں تو ہر قسم کے میڈیا میں شائع ہونے والے ان وظائف کا ورد کریں تو امید ہے کہ بہت افاقہ ہوگا۔

عمران خان کو وقت تو لگے گا ایسے لوگوں کو انسان بنانے میں جو ڈیزل کو عالم، گدھے کو شیر اور بلاول کو بھٹو سمجھتے ہیں۔ شیر ہوتا تو میدان میں دھاڑتا۔ جب سے خان آیا ہے نواز کے 2 کام رہ گئے ہیں، علیل ہونا اور ذلیل ہونا۔ ملکی تاریخ کا پہلا ایسا وزیر اعظم جس کے ہاتھوں پروموشن بیج لگنے پر فوجی افسران فخر محسوس کرتے ہیں۔ جب بندہ ایماندار ہو تو محافظ بھی پیار سے دیکھتے ہیں۔

پاکستان کو 70 سال بعد قائد اعظم کا جانشین ملا جس کی نہ زمین، نہ دولت اور نہ کاروبار باہر۔ وہ نہ وڈیرہ، نہ سرمایہ دار، نہ فرقے باز، نہ اقربا پرور اور نہ لسانیت پسند۔ وہ چاہتا تو جیل میں رہ کر ہیرو بن سکتا تھا مگر خاندانی چور تھا بھاگ گیا۔ (نور علی شاہ)۔ اپوزیشن کی سارے دن کی بک بک کے بعد وزیر اعظم کا ایک ہی جواب، این آر او نہیں دوں گا۔ دین فروش ملا (فضل الرحمن) اپنی دال نہ گلنے پر ایک بار پھر چوروں کو اکٹھا کرنے نکل پڑا۔

یہ اور نہ جانے کتنے ہزار ایسے وظائف روز کی بنیاد پر اخبارات اور فیس بک میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مہنگائی اور بھوک سے ستائے عوام سے عرض ہے کہ اگر ان سب سے بھی افاقہ نہ ہو سکے تو پھر آخری دو وظائف آپ کی مشکلات لازماً دور کر دیں گے۔ اقوام متحدہ کی تقریر اور 1992 کے ورلڑ کپ کی ریکارڈنگ۔ رہا کارکردگی کا ذکر، ہوتی تو کوئی نہ کوئی ضرور بیان کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).