کشن چند بیوس: سندھی جدید شاعری کے نقیب کارواں


ہر زبان کے شعری ادب کی طرح سندھی زبان کا ادب بھی لوک، کلاسیکی، روایتی اور جدید ادب کی تقسیم سے مختلف دلپذیر رنگوں بٹا ہے، جن تمام اصناف اور ادوار میں سندھی ادب کا دامن، زرخیز تخلیقات سے بھرنے والے قلمکاروں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سندھی ادب میں جدید ادب، بالخصوص شاعری کا آغاز، تقسیم ہند سے بھی بہت پہلے ہو چکا تھا۔ اگر یوں کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا، کہ بیسویں صدی اپنے آغاز کے ساتھ سندھی ادب میں بھی روایتی شاعری کے رخصت ہونے اور جدید ادب کے طمطراق کے ساتھ آغاز کی نوید لائی اور جدید سندھی شاعری کی داگ بیل ڈالنے کا سہرا، جس حسین اور عظیم شاعر کے سر سجنا تھا، وہ صدیوں سے سندھ کے ادبی، ثقافتی خواہ سیاسی حوالے سے زرخیز شہر ”لاڑکانے“ کے جائے، کشنچند بیوس تھے۔

جدید سندھی شاعری کے بانی مبانی، کشنچند تیرتھ داس کھتری، متخلص ’بیوس‘ نے، 25 فروری 1885 ء کو لاڑکانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد، دیوان تیرتھ داس کھتری پیشے کے لحاظ سے حکیم تھے۔ بیوس کے دو بھائی تھے، ایک کا نام تولا رام تھا، جو انگریزی کے استاد تھے۔ جبکہ دوسرے کا نام موتی رام تھا، جو مقامی عدالت میں کلرک تھے۔ یہ تینوں بھائی ابھی کم سن ہی تھے، اور ابھی ان کا تعلیمی سلسلہ ہی مکمل نہیں ہو پایا تھا، کہ ان کے والد، تھیرتھ داس اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔

اس وجہ سے کشنچند کے لئے انتہائی چھوٹی عمر ہی سے ملازمت کرنا اور اپنے گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنا ناگزیر ہو گیا۔ ساتھ ساتھ کشنچند کی والدہ، بیوہ ہونے کے بعد اپنے شوہر کے بتائے ہوئے نسخوں کو آزماتے ہوئے، گھر ہی میں مطب کھول کر یونانی حکمت کا کام کرنے لگی، اور نہ صرف گھر کے اخراجات چلانے میں اپنے بیٹے کا ہاتھ بٹانے لگی، بلکہ اپنے شوہر کی تربیت کو بروئے کار بھی لانے لگی۔ اس خاتون کو آس پڑوس کے لوگ ”ڈاہی“ کہا کرتے تھے، جس کا مفہوم ہے ”عقلمند“ یا ”ذی شعور“ ۔

بیوس اپنی اس محنت کش ماں کی محنت سے پرائمری ٹیچرس ٹریننگ کالج میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن اس کے ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ (وارڈن) نے رات گئے اپنے معمول کے گشت کے دوران، کشنچند کے کمرے کی لائٹ جلتی دیکھی۔ اور دیکھا کہ 16 برس کا یہ نوجوان کرسی پر بے خبر سو رہا ہے اور اس کے برابر میں کاغذ کے ایک ٹکرے پر سندھی میں اسی کی لکھی ہوئی ایک نظم رکھی ہے، جو نظم پڑھ کر وارڈن بے حد متاثر ہوا۔ اگلے روز بیوس کے کلاس ٹیچر نے اسے مبارکباد دیتے ہوئے کہا: ”تم یقیناً ایک دن عظیم شاعر بنو گے۔“

یہ 1901ء کا سال تھا۔ ۔ ۔ یعنی بیسویں صدی کی دہلیز۔ ۔ ۔ بیوس کے اس استاد کی یہ پیشن گوئی تقریباً 24 برس بعد، صد فیصد درست ثابت ہوئی اور بعد ازاں 1925 ء تا 1940 ء، ”بیوس“ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور قلمی قدرت کے ذریعے سے سندھی زبان و ادب کی جھولی اپنی بیش قدر شعری تخلیقات سے بھرتے رہے اور سندھی زبان کے بہترین شاعر بن کر ابھرے۔

کشنچند ”بیوس“ نے بلا شبہ جدید سندھی شاعری کی بنیاد ڈالی۔ اور روایتی سندھی غزل اور نظم (جو تب تک انداز اظہار سے لے کر تشبیہات و استعارات تک، موضوعات سے لے کر محرکات تک، فارسی و عربی ادبی روایات کے زیر تسلط تھی۔ ) کو خالص سندھی ثقافت و اظہار کا لبادہ پہنایا۔ اس کے اظہار کے ڈھب کو مقامی رنگ دیا۔ موضوعات سے لے کر مسائل اور معاملات کے بیان تک، اس کی چال ڈھال سے لے کر طرز سخن تک، جدید انداز میں مقامی طرز سے مزین کر کے اس کو زیادہ سے زیادہ بے ساختہ اور ”یہیں کا“ بنایا، جس وجہ سے قاری نے اس جدید شعری انداز کو نہ صرف پسند کیا، بلکہ جلد ہی اپنا بھی لیا۔

اسی وجہ سے بیوس کا نام اور مقام سندھی شاعری کی تاریخ میں ناقابل فراموش اور سدا جاوداں رہنے والا ہے۔ ان ہی کی جدید شاعرانہ روایات کی راہ تقلید پر چلتے ہوئے، ان ہی کے نقوش قدم پر پاؤں دھرتے ہوئے، سندھی کے ان کے بعد کے ادوار کے معروف شعراء، بشمول: ہوند راج ”دکھایل“ ، ہری ”دلگیر“ دریانی، نارائنڑ شیام اور شیخ ایاز سندھی زبان کے عظیم شاعر بن کر ابھرے۔

کشنچند ”بیوس“ بر صغیر کے عظیم شاعر و مصنف و مصور و ڈرامہ نویس و ڈرامہ اداکار و ہدایتکار رابندرا ناتھ ٹیگور کے کار ہائے سخن سے بے حد متاثر ہوئے اور خاص طور پر صرف اور صرف ان کی انگریزی شاعری کے مطالعے کی غرض سے، انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور لاڑکانے کے ”گیان باغ“ (جو اب بھی موجود ہے، مگر اب اسے ”باغ ذوالفقار“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ) میں 1940 ء تا 1947 ء (تا دم مرگ) ہفتہ وار ادبی کلاسز منعقد کر کے، ٹیگور کی شخصیت اور شاعری پر عام لوگوں، مقامی نؤجوانوں، ادیبوں اور ادب دوستوں کو ادبی لیکچر دینے کا اہم کام انجام دیتے رہے۔

کشنچند بیوس نے بچوں کے لیے تخلیق کیے جانے والے ادب کو انتہائی ضروری گردانتے ہوئے نونہالوں کے لئے سندھی میں انتہائی خوبصورت اور قابل داد شاعری کی، جن میں سے کئی ایک نظموں کو آج تک نصابی کتب میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے ۔ اس زمانے میں دادا شیوک بھوجراج، بیوس کے بچوں کے لئے لکھے ہوئے ڈراموں میں کردار ادا کیا کرتے تھے اور یہ ناٹک، بیوس کے گھر کے سامنے ایک میدان میں منعقد ہوا کرتے تھے، جسے مقامی لوگ اور نونہال بہت اشتیاق سے دیکھنے آیا کرتے تھے۔

اسی جگہ کشنچند، بزم اطفال کے اجتماع بھی منعقد کیا کرتے تھے۔ گویا بیوس کے گھر کے سامنے کا یہ میدان نما حصہ ایک آڈیٹوریم کی حیثیت سے ان صحتمند سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ بیوس ہی نے لاڑکانے میں بچوں کا پہلا بڑا سندھ گیر اجتماع بھی منعقد کیا تھا۔ بیوس نے ”موجی گیت“ کے عنوان سے بچوں کے لیے نظموں کی ایک مکمل کتاب لکھی، جو 1935 ء میں شائع ہوئی۔ بیوس کی شاعری کی دیگر کتب میں ”سامونڈری سپوں“ [سمندر کی سیپیں ] (شائع: 1929 ء) ، ”شیریں شعر“ [شیریں اشعار] (شائع: 1929 ء) ”پھول دانی“ (بیوس اور دیگر شاعروں کا مجموعۂ کلام۔

شائع: 1939 ء) ، ”گرو نانک جیون۔ کوتا“ (بابا گرو نانک کی منظوم سوانح۔ شائع: 1935 ء) ، ”انڈلٹھ“ [دھنک] (ایک فصل پر مشتمل ناٹک/ڈرامے۔ شائع: 1939 ء) ، ”شعر بیوس“ (شائع: 1951 ء) ، ”بیوس گیتا نجلی“ (شائع: 1960 ء) ، سڈ پڑاڈو ساڳیو [صدا و بازگشت ایک] (بیوس کی شاعری کی کلیات۔ شائع: 1984 ء) ، ”کلیات بیوس“ (مرتب: محمود شاہ بخاری۔ شائع: 1991 ء) ، چھ چھ پیسا، بہ بہ پایوں ”(بچوں کی نظمیں۔ مرتب: نصیر مرزا۔

شائع: 2001 ء) ، شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کشنچند بیوس کی شاعرانہ قدرت و ندرت، شخصیت اور فن پر کئی ایک کتب مرتب ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ مثلا:“ کشنچند بیوس ”(از قلم: ہری دریانی دلگیر۔ شائع: 1982 ء) ،“ بیوس جی کوتا جو جائزو ”[جائزۂ سخن بیوس] (مرتب: ہری دلگیر۔ شائع: 1993 ء) ،“ بیوس۔ ہک ابھیاس ”[بیوس۔ ایک مطالعہ] (شائع: 1972 ء) ،“ شاعر تہ بیوس ”[شاعر تو بس“ بیوس ”] (از: بلدیو گاجرا۔ شائع: 1983 ء) ،“ بیوس ہک گلدستو ”[بیوس۔

ایک گلدستہ] (از: ہری دلگیر۔ شائع: 1993 ء) اور ایسی کئی ایک کتب۔ ان میں سے کم و بیش ہر کتاب کے متعدد ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں اور شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی متعدد یونیورسٹیوں کے سندھی ادب پڑھانے والے شعبہ جات میں کشنچند بیوس کی نمایاں و ممتاز ادبی خدمات پر ڈاکٹوریٹ، ایم فل اور ماسٹرس سطح پر قابل شمار مقالے لکھے گئے ہیں۔ جن میں سے کئی ایک شائع بھی ہو چکے ہیں۔

کشنچند بیوس، اب سے 73 برس قبل، تقسیم ہند کے صرف 38 دن بعد، 23 ستمبر 1947 ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا نام سندھی جدید شاعری کو روشناس کرانے والے شاعر اولین کے طور پر سندھی ادب کی ہر تاریخ کا نہ فقط حصہ رہے گا، بلکہ عنوان اولیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).