تقریر کے بعد موثر تدبیر کی ضرورت


اے پی سی میں کی گئی نواز شریف کی تقریر کے حوالے سے مختلف رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ با وثوق ذرائع نے خبر دی تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اے پی سی کی میزبان پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں سے دو مطالبات کیے تھے، جن میں سے کسی ایک پر عمل درامد ضروری تھا۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ اے پی سی کے بعد متحدہ اپوزیشن ایک ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے اور اگر سر دست ایسا ممکن نہیں تو پھر لندن سے نواز شریف اے پی سی سے براہ راست ویڈیو خطاب کریں۔

نواز شریف کی دھواں دار تقریر کے بعد مولانا گویا اپنے پہلے مطالبے سے دست بردار ہو گئے ہیں مگر اب مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن بالعموم اور ن لیگ بالخصوص اس دھماکے دار تقریر کا بوجھ کیسے اٹھائیں؟ ماضی میں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہونے کے باوجود اس کے خلاف اپنے روایتی موقف کی وجہ سے اس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہے ہیں۔ اس بار مگر طاقتور حلقوں نے ایک مقبول لیکن جذباتی، منتقم مزاج، بغض نواز میں ڈوبے اور متلون طبع لیڈر کے ذریعے نواز شریف اور ان کے خاندان کی سیاست کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے کی نہایت بھونڈی کوشش کی۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی خارجی طاقت سیاست دان کی سیاست ختم نہیں کرسکتی۔ ہم شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاست کے خاتمے کی کوشش میں آدھا ملک گنوا چکے ہیں۔ بھٹو خاندان کی سیاست کو ختم کرنے کی کاوشوں اور سازشوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اب جوں جوں نواز شریف کے خلاف حکومت اور اداروں کی طرف سے محاذ گرم کیے جاتے ہیں توں توں ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔

اکثر سیاسی پنڈتوں اور ناقدین کا خیال تھا کہ عمران خان حکومتی اور ریاستی اداروں کو استعمال کر کے نواز شریف، مریم نواز اور ن لیگ کو آخر کار اپنے بیانیے سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیں گے مگر ان کی حالیہ تقریر نے اس تاثر کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ نواز شریف نے اپنی خاموشی کے ساتھ ساتھ ایسے سیاسی پنڈتوں کی امید بھی توڑی ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ خام خیالی بھی پال رکھی ہے کہ نواز شریف سے متنازع تقریر کروائی گئی ہے تاکہ موجودہ حکومت کی نا اہلی کے باعث مقتدر حلقوں کے دل میں ن لیگ کے لیے پیدا ہونے والے نرم گوشے کے اکھوے کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔

نواز شریف کی تقریر کے حوالے سے بہت مضبوط عوامی تاثر یہ بھی ہے کہ جن درپردہ قوتوں نے ان سے یہ تقریر کروائی ہے انہوں نے ہی اسے میڈیا پر براہ راست دکھانے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ اگر عمران خان کے بس میں ہوتا تو وہ ضرور اے پی سی کی کارروائی اور نواز شریف کی تقریر کو آن ایئر ہونے سے روک دیتے کیونکہ ابھی کچھ ماہ پہلے ہی میڈیا کو یہ ہدایت تھی کہ وہ نواز شریف، مریم نواز اور دوسرے ن لیگی رہنماؤں کی تصویریں بھی نہیں دکھا سکتا۔ اب وہی سیاسی انتہا پسند اور فاشسٹ عمران خان اچانک جمہوری رویوں کا خو شگوار مظاہرہ کرتے ہوئے کیسے اپنے بد ترین سیاسی حریف کی متنازع تقریر دکھانے اور سنوانے کا حکم صادر کر سکتے ہیں؟

ایک خیال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی یہ تقریر ان کے اپنے اور ن لیگ کے ووٹ کو عزت دو کے مشہور بیانیے کی غماز تھی اور انہوں نے جان بوجھ کر وہاں وہاں ضرب کاری لگائی ہے جہاں سے ہماری سیاست پر کاری وار ہوتے آئے ہیں۔ یہ تقریر ثابت کر رہی ہے کہ نواز شریف نے بچی کچھی کشتیاں بھی جلا دی ہیں۔ ممکنہ مفاہمت، مروت، لحاظ اور سمجھوتے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ ان کی یہ تقریرپارٹی کے اندر مقتدر قوتوں سے بنا کر رکھنے کا راگ الاپنے والے شہباز شریف اور ان کے ہمنواؤں کی امیدوں پر بھی پانی پھیرنے کے لیے کافی ہے۔

کچھ ناقدین اس تقریر کے رد عمل میں نواز شریف کی سیاسی کتاب کے ماضی کے اوراق کھول کر بیٹھ گئے اور ان کی معمولی اور چھوٹی موٹی سیاسی لغزشوں کی وجہ سے طعنہ زنی کی بوچھاڑ کردی اور ان کی تقریر کو دیوانے کی بڑ قرار دینے کی ناکام کوشش کی۔ نواز شریف کی حقیقت پسند تقریر پر وہ لوگ بھی انگشت نمائی کر رہے ہیں جو کل تک یو این میں کی گئی عمران خان کی تقریر کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے۔

کچھ سادہ لوح اور لکیر کے فقیر ”محب وطن“ یہ عجیب و غریب منطق بگھار رہے ہیں کہ نواز شریف کی تقریر کی سے بھارت پھولے نہیں سما رہا۔ ہم نے پورے الیکشن چوری کر لیے، بھارت خوش نہیں ہوا۔ سقوط کشمیر ہو گیا، بھارت خوش نہیں ہوا۔ جی ڈی پی منفی ہو گیا، بھارت خوش نہیں ہوا۔ سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، بھارت خوش نہیں ہوا۔ سی پیک منصوبہ اٹک گیا، بھارت خوش نہیں ہوا۔ مہنگائی بیس سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی، بھارت خوش نہیں ہوا۔ ہم نے امریکہ کی خاطر ایران، ترکی اور ملائشیا کو ناراض کر لیا، بھارت خوش نہیں ہوا مگر نواز شریف کی تقریر سے بھارت خوش ہو گیا۔

یہ درست ہے کہ تقریر جس قدر بھی حقیقت پسندانہ، مدلل اور منطق و استدلال سے مالا مال ہو تدبیر کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بہت عرصے بعد اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں کچھ جان پڑی ہے اور اس نے ایک بھرپور اے پی سی کے ذریعے حکمران پارٹی اور اس کے سرپرستوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ اب دما دم مست قلندر کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ خاص طور پر نواز شریف کی تقریر نے تو ہر طرف آگ لگا دی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنی بلند آہنگ اور دو ٹوک تقریر کے بعد اپوزیشن کو ملک کی سیاست پر قابض غیر سیاسی قوتوں کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کے لیے ٹھوس، حقیقت پسندانہ اور قابل عمل تدبیر اختیار کرنا پڑے گی۔

حکمرانوں کی تو خیر یہ مجبوری ہے کہ وہ اپوزیشن کی اے پی سی اور نواز شریف کی غیر سیاسی طاقتوں پر تنقید کو حب الوطنی پر حملہ قرار دے مگر اب ہر پاکستانی جانتا ہے کہ پس پردہ رہ کر سیاسی جوڑ توڑ میں ہمہ وقت سر گرم سیاسی طالع آزماؤں کے کردار کو بے نقاب کرنے کا عمل ہرگز جذبۂ حب الوطنی کے منافی نہیں بلکہ سیاسی شعور کی بیداری کا ثبوت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).