سرگودھا میں غیرت کی عمر: نو برس


نو برس قبل اپنے بھائی کے گھر آنے والے ننھے فرشتے کو گود میں لے کر پیار کرتے ہوئے کیا اس عورت کو علم ہو گا کہ وہ اپنے قاتل کو بوسہ دے رہی ہے ؟

کیا وہ جانتی ہو گی کہ میری مرضی کا خراج اسے دس برس بعد اپنے لہو کی صورت میں بھرنا ہو گا؟

نو برس کا ننھا قاتل اور تیس برس کی مقتولہ!

کیا نو برس کے بچے کو علم تھا کہ مرد کی عزت کس چڑیا کا نام ہے اور اس جھوٹی عزت کو کس طرح اس کے کندھوں پہ لاد دیا گیا ہے ؟

اب سوال یہ ہے کہ نو برس کے بچے کی رگوں میں قطرہ قطرہ نفرتوں کا زہر اتارنے والے ماں باپ کیا انسان کہلانے کےمستحق ہیں؟صاحب، کیا کہیں کہ ہر دوسرے دن ایک خبر آ جاتی ہے جسے پڑھ کے صف ماتم بچھانے کا جی چاہتا ہے۔لیکن کیا کیجئے کہ درد کی شدت سے آنکھ خشک ہی رہتی ہے، بس دل فگار ہوا جاتا ہے اور مایوسی گھیر لیتی ہے۔ اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا ہے، اور عورت کے گرد پھندا تنگ سے تنگ تر۔

اس درد بھری کہانی نے آج سے دس برس پہلے جنم لیا جب سرگودھا کے ایک گاؤں ایک سو چار ایس بی کی رہائشی ایک عورت نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی سے شادی کی۔ وہ حق جس کی اجازت مذہب دیتا ہے، وہ حق جس کے لئے مرد کو ایک لحظے کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اس حق کو اپنا پیدائشی حق سمجھ کے وصول کرتا ہے اور اسی حق کے دروازے اپنے ہی باپ کے گھر میں پیدا ہہونے والی بہن پہ عزت کے نام پہ بند کر دیتا ہے۔

اس مظلوم عورت نے یہ حق استعمال تو کر لیا لیکن اپنے ماں جائیوں کے تن بدن میں ایک ایسی چنگاری سلگا دی جو دس برس گزرنے کے بعد بھی نہ بجھ سکی۔

کہنے کو منہ زبانی بہن کے فیصلے کو قبول کر لیا گیا، میل ملاپ بھی شروع ہو گیا لیکن گھر میں بندھی ہوئی بھیڑ بکری سی بےزبان مخلوق نے اپنی مرضی کا جو نعرہ مستانہ دس برس قبل بلند کیا تھا، وہ کیسے بھلایا جاتا؟ گھر کے مرد کی آنکھ میں ایک عورت کو اپنی مرضی کرتے دیکھ کے جو خون اترا تھا، اس آتش فشاں کو کیسے ٹھنڈا کیا جاتا؟

نہ جانے کتنے موسم گزرے، کتنی رتیں بدلیں، وہ عورت تین ننھے منے بچوں کی ماں بن گئی۔ میکے میں بھائی کے آنگن میں بھی پھول کھلے جن کو اس نے گود میں اٹھا کر محبت کی مہر ثبت کی۔ لیکن زندگی کے دھارے میں بہتے بہتے وہ یہ نہ جان سکی کہ اس کا اپنی ذات کے لئے استعمال کیا گیا حق کسی کے دل کا ناسور ہے اور اس ناسور کا علاج اس کی گردن زنی ہے، وہ بھی گود کے پالے ایک بچے کے ہاتھوں!

بخدا ہم نہیں سمجھ سکتے کہ انتقام کی اندھی آگ میں بہن کو راکھ بنانے کے لئے اپنے بیٹے کا استعمال، نہ جانے سفاکی کی کونسی منزل ہے یہ؟

سات آٹھ برس کی عمر میں گھر کے مردوں نے اس ننھے بچے کی تربیت شروع کی گئی۔ اسے سمجھایا گیا کہ گھر کی اندھیری کوٹھڑیوں میں بندھی ان عورتوں کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی مرضی کا نعرہ لگاتے ہوئے گھر کے مرد کی عزت کا جنازہ نکال دیں اور اپنی خوشیاں اپنے بھائیوں کی ناک نیچی کر کے حاصل کریں۔

“سنو میرے بیٹے! تو مرد ہے اور تجھے وہ آگ بجھانی ہے جو دس برس پہلے تیری پھوپھی نے تیرے باپ اور دادا کا شملہ نیچے کرتے ہوئے لگائی تھی۔ خاندان میں ہماری عزت پھر سے تبھی قائم ہو سکتی ہے جب تک تو اسے بھری محفل میں اس کی اوقات یاد نہیں دلائے گا۔

سن میرے بیٹے، پستول چلانا تجھے میں سکھاؤں گا، روزانہ نشانہ لینے کی پریکٹس ہو گی۔ تجھے صرف یہ یاد رکھنا ہے کہ تو میری عزت کا امین ہے، تو خاندان کی عزت کا رکھوالا ہے۔ عورت اور اپنی مرضی ؟ یہ نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔

اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو کل کو تجھے اپنی بہنوں کی مرضی کی صورت میں زخم چاٹنے ہوں گے۔ جب باپ بنے گا تو آنکھیں نیچی کرنی پڑیں گی جب تیری بیٹیوں کے سامنے گھر کی عورت کی مرضی کی مثال سامنے ہو گی۔

اس سیلاب پہ پل باندھ دے، میرے بیٹے! ورنہ کل کو ہم سب کی پگڑیاں ان عورتوں کے کرتوتوں کے داغوں سے بھری ہوں گی۔

تو کم عمر ہے بیٹا! پکڑا بھی گیا تو لمبی سزا نہیں ہو سکے گی،جلد رہائی مل جائے گی۔ لیکن علاقے میں تو لوگوں کا ہیرو ہو گا جس نے ایک بدکردار عورت کی مرضی کی شادی کے آسیب سے اپنے باپ کو نجات دلوائی۔

تو میرا مرد بچہ ہے، میری غیرت اور آن کا محافظ! اتار دے اس کے جسم میں گولیاں جس نے دس برس سے میرے اندر آگ لگا رکھی ہے”

صاحب، لاہور سے محض دو سو کلومیٹر دور یہ ہیں اصل معاملات زندگی، پاکستانی معاشرت کا بے نقاب چہرہ!

جہالت کی رسوم میں جکڑے، مذہب کی تاویلات کا سہارا لیتے ہوئے یہ ہے اکیسویں صدی کا پاکستان، جہاں عورت سانس بھی مرد کی مرضی سے لیتی ہے اور جہاں تیس برس کی عورت کی عزت کا محافظ نو برس کا بچہ ہے!

جہالت کے اس حنوط شدہ بورے سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے آخر؟

حل ایک ہی ہے، بلا امتیاز وتفریق، تعلیم کے دروازے ہر مرد وزن پہ نہ صرف کھول دیے جائیں بلکہ لازم قرار دیا جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ علم کے دیے روشن کرتے ہوۓ، ان علاقوں تک انسانی حقوق کی آگہی کی رسائی نہ ارباب اختیار کی منشا ہے نہ مذہب کے ٹھیکےداروں کی، کہ تعلیم سوال پوچھنا اور آگہی اپنا حق لینا سکھاتی ہے۔

معاف کیجے گا سوال پوچھنے والی مجھ جیسی کم مایہ عورت فہم ودانش رکھنے والوں سے برداشت نہیں ہوتی تو ایک عام مرد کیسے یہ بھاری پتھر اٹھا سکتا ہے؟ جس کی رگوں میں اول دن یہ خیال لہو بن کے گردش کرتا ہے کہ اس کی عملداری کا دائرہ زن، زر اور زمین ہے۔

آج کی تاریخ میں اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو چلیے ہم سے تھوڑی سی آگ مستعار لے کے اپنے حصے کا احتجاج ہی قلمبند کروا لیجیے بالکل ایسے ہی جیسے کربلا میں علم اٹھا کے کوئی دیوانہ وار باہر نکل آئے ، پھر چاہے تیر آئیں یا تفنگ!

آنے والا زمانہ ضرور گواہی دے گا کہ کربلا کی آگ کبھی بجھی نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).