قابل اعتراض رشتے میں مت باندھو کہ میرا جسم اور روح دونوں تھک جائیں


ساون کا موسم ہے دن بھر خوب گرمی کے بعد ابر کرم کھل کر برسا۔ اب میں چائے اور موسم کے مزے لینے اپنی چھت کے اک کونے میں آ بیٹھی ہوں۔ اک سہانی شام ہو ہاتھ میں چائے ہو اور یادیں یلغار نہ کریں، ایسا کم ہی ممکن ہے۔ میرا دھیان بھی کچھ عرصہ پہلے شاپنگ مال کے اک منظر میں اٹکا ہوا ہے۔ میں خوشی خوشی لاک ڈاؤن کے بعد پہلی دفعہ شاپنگ کرنے گئی تھی، اک تو نئی چیزیں خریدنے کی خوشی تھی اور ساتھ ہی اتنے دنوں بعد باہر کی آب و ہوا کھانے کا جوش بھی تھا۔

میں نے سب سے پہلے اک خوبصورت سا جوڑا لیا پھر جوتے اور آخر میں جھمکے پسند کرنے ایک شاپ میں چلی گئی۔ جیسے ہی اپنے من پسند جھمکے لے کر خوش خوش میں نے باہر کا رخ کیا، میرے قدم زمیں سے ہلنے سے انکاری ہو گئے۔ آنکھیں اک ہی منظر پر ٹک گئی۔ منظر کچھ ہوں تھا کہ وہ دشمن جاں اپنی خوبصورت شریک حیات اور دو پیاری بیٹیوں کو الگ الگ پرام میں بٹھائے اک کڈز سٹور پر بڑے انہماک سے ان دو ننھی پریوں کے کپڑے پسند کر رہا تھا۔

دونوں پریاں جڑواں لگتی تھیں اور ان کی شکل ماں سے ملتی جلتی تھی نا جانے کتنی گھڑیاں گزری، منظر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا وہ آگے بڑھ گئے اور میں وہیں کھڑی رہ گئی اور یہ حالات میرے ماضی کی عین نقل تھے وہاں بھی وہ آگے بڑھ گیا تھا لیکن میرے قدم میری آواز سننے سے انکاری ہو گئے تھے۔ اور پھر ماضی کے اس دن کی طرح اب بھی میں بوجھل دل اور شکستہ قدموں سے گھر پہنچی تھی۔ یادوں کا اک دروازہ بند ہوا تو دوسرے نے اپنی چٹخنی گرا دی۔

میں تین سال پیچھے چلی گئی جب وہ میرا اور میں اس کا سب کچھ تھی، وہ جھوٹا یا مکار نہیں تھا۔ مجھے عزت دیتا تھا، میری حدود کا خیال کرتا تھا، میری پروا کرتا تھا۔ وہ بے وفا بھی نہیں تھا۔ میں بھی اپنا مسکن اس کے ساتھ بنانے کا سوچتی تھی۔ ہماری آنکھیں اک دوسرے سے آشنا تھیں اور پھر اک دن انہی آنکھوں نے مجھے کسی انہونی کا احساس دلایا میں نے اپنی چھٹی حس کو جھٹک دیا، اپنی نظریں موڑ لیں۔ لیکن کاش ایسا کرنے سے میں اس انہونی کو روک پاتی۔

اس نے مجھے اپنی طرف رخ کرنے کا کہا! میں نے دیکھا اس نے اک دفعہ پھر آنکھیں بند کر کے کھولیں اور بات شروع کی۔ الفاظ تھے یا میرے کانوں میں صور پھونکا تھا میں سمجھ نہیں سکی تھی۔ اس نے کہا ”میں نے اپنے گھر والوں کو اپنی اور تمہاری پسندیدگی کے بارے میں بتایا ہے اور ان کا جواب اتنا مثبت نہیں ہے“ اس نے اک گہری سانس لے کر اپنی اٹکی ہوئی سانس بحال کرنے کی کوشش کی اور دوبارہ بات شروع کی۔ میں ابھی بھی مثبت سوچ لیے ہمہ تن گوش تھی ”میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی۔

بہت منایا، ہزار دلائل دیے لیکن ان کی نا کو ہاں میں بدل نہیں پایا ہوں۔ میں نے منصوبہ بنایا کہ ہم تمھارے گھر والوں اور اپنے بڑے بھائی کو اعتماد میں لے کر نکاح کر لیتے ہیں، شادی ہو جانے کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ تمہارے لیے شاید مشکلات کافی بڑھ جائیں تو بتاؤ تمھاری کیا رائے ہے؟ ”

میں دم سادھے اس کی بات سنتی رہی اور حلق خشک ہو گیا، زبان پر کانٹے آگ آئے اپنے ہونٹوں پر بہ مشکل زبان پھیرتے ہوئے میں نے اس سے کہا ”کیا کوئی اور راستہ نہیں ہے جس سے تمھارے سب گھر والے اس رشتے کو قبول کرسکیں؟“ اس نے کہا ”میں اپنی تمام کوششیں کر چکا ہوں، جتنی پر خلوص تم ہو اس کھیل میں، میں بھی اتنا ہی ہوں میں آخری حد تک سوچ کر یہ حل لایا ہوں!

میں نے کہا ”اگر میں اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی حامی بھر بھی لوں تو تمہیں کیا لگتا ہے میں کبھی بھی اس قابل اعتراض رشتے کے چنگل سے نکل پاؤں گی؟ کیا یہ عمل تمھارے گھر والوں کی نظر میں میری نا پسندیدگی کو اور نہیں بڑھائے گا؟ میں تمھارے خاندان سے تعلق نہیں رکھتی جو میری جنگ میں سپاہ کی تعداد بڑھ جائے گی! میں باہر کی ہوں مجھے خود ہی لڑنا ہو گا اور بے شک لڑنے کے لیے تعداد نہیں حوصلے دیکھے جاتے ہیں لیکن ماں باپ کی دعا اور پسندیدگی نہ ہونے کی صورت میں ہم ڈھیروں کالے سائے بھی اپنے ساتھ باندھ لیں گے۔

میں جوش میں آ کر ڈینگیں نہیں ماروں گی کہ میں تمھارے لیے ہر کسی کا ناروا سلوک بھی برداشت کر لوں گی۔ شاید کچھ عرصے کے لیے کر بھی لوں اور پھر میری ہمت ٹوٹ گئی تو کیا ہو گا دل کے ساتھ ساتھ گھر ٹوٹنے کا بھی خدشہ لگ جائے گا! میری دنیا اجڑ جائے گی۔ میں معذرت کے ساتھ کہتی ہوں مجھے ایسے قابل اعتراض رشتے میں مت باندھو کہ اسی کا اعتراف کرواتے کرواتے میرا جسم اور روح دونوں تھکنے لگ جائیں ”وہ گنگ تھا میری بات سن کر اور کہنے لگا“ تم میری محبت ہو اور میں جانتا تھا میری محبت عام نہیں ہے اور آج یقین بھی ہو گیا۔

تمھارے سارے خدشات درست ہیں، دل و دماغ کو کسی کی چڑ چڑھ جائے اسے اتارنا بہت مشکل ہے میں نے جذبات میں آ کر شاید ٹین ایجرز کی طرح سوچا! بس ملن کی چاہ کی اور باقی پہلو نظر انداز کر دیے، بھول گیا ہر محبت کو ملن کا سہارا نہیں چاہیے۔ میں تم سے شرمندہ ہوں، خود سے زیادہ تمھارے جذبات کے مجروح ہونے پر غمگین ہوں! تم سے محبت کرتا ہوں اور اب اس میں عقیدت کا جذبہ بھی شامل ہو گیا ہے تمہیں کوئی جھوٹی امیدیں نہیں دلاتا اور آج پوری کائنات کو گواہ بنا کر اپنی محبت کی قید سے آزاد کرتا ہوں!

اور التجا کروں گا کہ تم بھی مجھے آزاد کر دو! دل میں جو خانہ تمھارا ہے شاید کسی کو دے نہ پاؤں لیکن اگر کوئی زبردستی گھسنے کی کوشش کرے گا تو زندگی کی بقا کے لیے شاید منع بھی نہ کر پاؤں۔ میں ہمیشہ تمہیں عزت اور عقیدت سے یاد کروں گا کیونکہ دل سے کوئی نکل بھی جائے دماغ اتنا بے وفا نہیں ہے۔ اللہ حافظ!

ماضی سے حال کا در کھلا اس وقت وہ اپنی کہہ کر چلا گیا تھا لیکن میں آج بھی اس منظر میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جتنی بہادری کا مظاہرہ میں نے اس وقت کیا تھا اب مجھے لگتا ہے اس کے بعد مجھ میں بہادری ناپید ہو چکی ہے۔ میں تین سال سے اس کا خیال جھٹکنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن کبھی جو وہ دل میں پھانس اٹکی تھی نکلتی ہی نہیں! شاپنگ مال میں اسے دیکھنے کے بعد میں عجیب کشمکش میں پڑ گئی ہوں وہ مجھے سچ میں خوش نظر آتا تھا!

تو کیا وہ ہماری محبت بھول گیا؟ کیا اس کی بیوی نے اس خانے تک رسائی حاصل کر لی ہوگی؟ کیا سچ میں محبت کو زوال آ جاتا ہے؟ یا اس کی زندگی میں میرے متبادل نے میرا نقش اس کے دل سے مٹا دیا ہے؟ تو کیا میں بھی اس کا متبادل پا کر اس کی یاد اور محبت سے چھٹکارا حاصل کر لوں گی؟ دل کی پھانس شاید آج بس نکلنے پر تھی اور پھر مجھ پر انکشاف ہوا کہ مجھ میں بہادری ناپید نہیں ہوئی تھی۔ مجھے بھی اپنے دل سے پھانس نکالنی ہے، مجھے بھی اپنی زندگی کی بقا کے لیے بہادری کا مظاہرہ کر نا ہے!

اور یہ فیصلہ کرتے ہی دل کا غبار آنسوؤں میں بہہ گیا اور پھانس بھی بہا لے گیا۔
مجھے اب کچھ باتیں سمجھ آ گئی ہیں!
ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا! وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتا ہے یا نہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے!
کچھ کہانیوں کے انجام اچھے ہوتے ہوئے بھی ادھورے رہتے ہیں!
اور ان نامکمل جگہوں کو کبھی پر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، وقت انہیں خود پر کرتا ہے۔
خوشی سے زیادہ مطمئن ہونا معنی رکھتا ہے۔
تو آپ بھی اپنے دل کے ایسی پھانس کو نکال پھینکیں۔
دل کو بوجھ سے آزاد کر دیں۔
نصیب کی ٹوکری میں صرف نعمتیں ہی نہیں لذت بھری زحمتیں بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).