رائٹ ٹو انفارمیشن: قانون ہونے کے باوجود پاکستان میں سرکاری محکمے معلومات تک رسائی کے عمل کو مشکل کیوں بناتے ہیں؟


’اسلام آباد پولیس کو پٹرول اور گاڑی سمیت تحقیقات اور تفتیش کے لیے کیا سہولیات میسر ہیں، میں نے یہ معلومات حاصل کرنے کی درخواست دی تھی۔ درخواست میں یہ بھی پوچھا تھا کہ پولیس کو اس ضمن میں بجٹ کتنا ملتا ہے۔ مگر میری درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے مطابق یہ سرکاری راز ہے اس لیے تفصیلات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔‘

یہ کہنا ہے کہ صحافی اعزاز سید کا جو اسلام آباد میں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل ’جیو نیوز‘ سے منسلک ہیں۔

مذکورہ واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کی یہ درخواست ’معلومات تک رسائی کے قانون‘ کے تحت دی گئی تھی اور وہ یہ معلومات ایک تقابلی رپورٹ بنانے کے لیے حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے ’ہر واردات کے بعد پولیس کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس محکمے کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے مناسب سہولیات میسر ہیں یا نہیں؟‘

تاہم ان کے مطابق یہ درخواست انسپیکٹر جنرل اسلام آباد پولیس کی جانب سے ’خفیہ معلومات‘ کی فراہمی کا کیس کہہ کر رد کر دی گئی۔

اعزاز سید نے اسی قانون کے تحت اب پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اسلام آباد پولیس کے اس فیصلے کے خلاف اپیل جمع کروائی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں معلومات تک رسائی میں افسر شاہی رکاوٹ؟

سینیٹ کی اہمیت اور اہم قانون سازی

’انٹیلیجنس کی دنیا میں اچھے اور برے کا تصور نہیں‘

پاکستان رائٹ ٹو انفارمیشن

سرکاری معلومات حاصل کرنا شہریوں کا حق

پاکستان میں آئینی تحفظ رکھنے والے چند اداروں کے علاوہ ہر قسم کی سرکاری معلومات حاصل کرنا شہریوں کا حق ہے۔

مثال کے طور پر یہ جاننا آپ کا حق ہے کہ آپ کے ادا کردہ ٹیکس سے ملک میں کتنے اور کون کون سے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔

یا اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کسی ادارے میں نوکری کیوں نہیں دی گئی اور آپ کی جگہ یہ نوکری کسے ملی تو ایسا ممکن ہے کہ آپ میرٹ لسٹ طلب کر سکتے ہیں۔

آپ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ آپ کے علاقے کے افسران کی کارکردگی کیسی ہے یا آپ کی شکایت پر کیا کارروائی ہوئی ہے، یا آپ کے علاقے کے رکن اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لیے کتنی رقم ملی اور وہ کہاں خرچ ہوئی، یا یہ کہ وزیراعظم کے ہمراہ کسی بیرون ملک دورے پر کون کون ان کے ہمراہ گیا تھا، کتنے اخراجات ہوئے، ہوٹلز اور کھانے کے بل کتنے تھے، اور ہاں یہ بھی کہ بنی گالہ سے وزیراعظم ہاوس تک ہیلی کاپٹر کے فیول کا خرچہ کتنا آتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

یعنی سادہ الفاظ میں آپ ہر اس سرکاری عہدے، ادارے اور اس کے اخراجات کے بارے میں جاننے کا قانونی حق رکھتے ہیں جہاں آپ کے ٹیکس کا پیسہ لگ رہا ہے۔

مگر قوانین ہوتے ہوئے بھی یہ معلومات حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ معلومات کے حصول میں یہ مشکلات صرف اعزاز سید کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ کئی دیگر صحافیوں، تنظیموں اور عام شہریوں حتیٰ کہ اسمبلی ممبران کو بھی پیش ہیں۔

پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی کہ انھیں ’صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کے دن شہر میں موجود سیف سٹی پراجیکٹ کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج دی جائے مگر انھیں کوئی جواب نہ دیا گیا۔‘

فرحت اللہ بابر کے مطابق اب انھوں نے متعلقہ انفارمیشن کمیشن میں شکایت جمع کرا رکھی ہے اور انھیں اس پر کارروائی کا انتظار ہے۔

اسی طرح گذشتہ ہفتے پاکستان میں صحافیوں کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انھیں ایک سوال کا جواب حاصل کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔

بیان کے متن کے مطابق تنظیم نے وفاقی کابینہ کے متعلقہ دفتر سے پوچھا تھا کہ موجودہ حکومت کے دو سالوں میں کتنی بار صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کی شکایات کا معاملہ کابینہ اجلاسوں کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔

بیان کے مطابق معلومات کے لیے یہ درخواست رواں برس فروری میں جمع کرائی گئی تھی مگر اس کا جواب پاکستان انفارمیشن کمیشن میں شکایت کے بعد اگست میں ملا۔

معلومات تک رسائی کے حق کا قانون کیا ہے؟

شہریوں کو قانون موجود ہونے کے باوجود سرکار سے معلومات کے حصول میں مشکلات کیوں درپیش ہیں، یہ جاننے سے پہلے اس قانون سے متعلق آگاہی ضروری ہے۔

پاکستان میں پہلی بار معلومات تک رسائی کا قانون سنہ 2002 میں نافذ کیا گیا جبکہ سنہ 2004 میں حکومت نے اس قانون کو موثر بنانے کے لیے قواعد بنائے۔

سنہ 2004 میں متعارف ہونے والا یہ قانون معلومات تک انتہائی محدود رسائی دیتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری رازداری کے ایکٹ کی موجودگی تھی۔ جبکہ اس کا دائرہ کار بھی صرف وفاقی حکومت اور اس کے اداروں تک محدود تھا۔

اس پرانے قانون کے تحت سرکاری اداروں سے معلومات کی فراہمی کے لیے 21 دن کا عرصہ درکار تھا جو ماہرین کے مطابق ایک طویل وقت تھا، اور اس مقصد کے لیے مقرر کردہ فیس بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر تھی۔

اس قانون کے تحت معلومات کے حصول کا عمل اس قدر پیچیدہ تھا کہ سنہ 2005 سے سنہ 2010 تک صرف 51 لوگوں نے اس قانون کے تحت معلومات تک رسائی کے لیے حکومت سے رجوع کیا۔

تبدیلی کا عمل سنہ 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد شروع ہوا جس کے مطابق پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے کو شامل کیا گیا۔ اس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002‘ کو تبدیل کرتے ہوئے ’دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017‘ پاس کیا تھا۔ اس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

اسی طرح خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نافد العمل ہوا، سندھ انفارمیشن کمیشن اور شکایات سننے کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن کا قیام سنہ 2018 میں قانونی چارہ جوئی کے بعد عمل میں آیا۔

بلوچستان میں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2005 نافذ ہے۔ دیگر صوبوں کے برعکس بلوچستان میں تاحال انفارمیشن کمیشن قائم نہیں ہوا۔ صوبے میں اب بھی سرکاری اداروں سے معلومات کے لیے درخواست کے ساتھ 50 روپے فیس دی جاتی ہے جبکہ 21 دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس وقت وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے پر تعینات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ ’حکومت نے اپنے پہلے 100 دنوں میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کو تشکیل دے کر یہ ثابت کردیا کہ تحریک انصاف عوام کو معلومات تک رسائی کے حق کی فراہمی میں سنجیدہ ہے۔ گذشتہ حکومت نے صرف قانون پاس کیا تھا جبکہ موجودہ حکومت اس قانون پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات کررہی ہے۔‘

معلومات کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟

اصول سادہ ہے۔ کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن بعض پابندیاں موجود ہیں۔

جیسے قومی سلامتی سے متعلق حساس معلومات، کسی شہری کی ذاتی معلومات یا کوئی بھی ایسی معلومات جس سے کسی معصوم شہری کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

وفاق میں اس قانون کا اطلاق، سوائے محکمہ دفاع کے، تمام شعبوں پر ہوتا ہے۔

کوئی بھی شہری متعلقہ محکمے میں ایک تحریری درخواست جمع کراتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ انھیں کس قسم کی معلومات درکار ہے۔

متعلقہ افسر دس دن میں شہری کو جواب دینے کا پابند ہے اور اگر معلومات جمع کرنے میں وقت لگ رہا ہے تو محکمہ درخواست گزار کو 10 دن میں آگاہ کر کے مزید 10 دن کا وقت لے سکتا ہے۔

پہلے 10 دن تک جواب نہ ملنے کی صورت میں یہ شخص 14ویں دن شہری شکایات کے لیے قائم کمیشن میں درخواست دے سکتا ہے، اور 20 دن بعد بھی متعلقہ محکمے کی جانب سے جواب نہ ملنے یا معلومات دینے سے انکار پر انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا جاتا ہے۔

اس تمام عمل میں درخواست گزار معلومات کے حصول کا غرض و مقصد بتانے کا پابند نہیں مگر متعلقہ محکمہ کمیشن کے سامنے جوابدہ ہے کہ وہ معلومات کیوں نہیں دینا چاہتا۔

پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے سیکشن 15 میں لکھا ہے کہ کمیشن پبلک انفارمیشن آفیسر کو اپنے دفاع کے مواقع فراہم کرنے کے بعد معلومات فراہم نہ کرنے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کر سکتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا سیکشن (3) 26 بھی کمیشن کو سرکاری محکموں پر معلومات کی عدم فراہمی کی صورت میں جرمانے کا اختیار دیتا ہے۔

پاکستانی محکمے معلومات فراہم کرنے سے نالاں کیوں؟

صحافیوں اور سول سوسائٹی کا دعویٰ ہے کہ معلومات تک رسائی سے متعلق قانون سازی کے باوجود سرکاری ادارے شہریوں کو معلومات کی فراہمی سے گریزاں ہیں جبکہ حکومت ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ انفارمیشن کمیشن کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ نہیں۔

اعزاز سید تسلیم کرتے ہیں کہ اس قانون اور پھر کمیشن کے قیام سے آسانی بھی ہوئی اور انھیں عام طور پر معلومات مقررہ وقت میں اور بعض اوقات اپیل کے بعد مل ہی جاتی ہیں۔ مگر وہاں مشکلات پیش آتی ہیں جہاں عملے میں اس قانون کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کے سربرہ اقبال خٹک کہتے ہیں کہ معلومات فراہم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ’سرکاری محکمے اب بھی بڑی حد تک اسی ’مائنڈ سیٹ‘ میں ہیں جو معلومات خفیہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے کہا کہ انھیں کمیشن کے قیام یعنی نومبر 2018 کے بعد سے اب تک 600 سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں۔ جن میں سے 310 شکایات حل کر دی گئی ہیں اور درخواست گزاروں کو ان کی مطلوبہ معلومات کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

انھوں نے اقبال خٹک کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر میں جب بھی معلومات تک رسائی کا قانون نافذ ہوا، اس کو مکمل طور پر نافذ ہونے میں وقت لگا ہے۔‘

’پاکستان میں بھی ابھی تک وہی سرکاری معلومات چھپانے کی روایتی سوچ موجود ہے، اس کی ایک وجہ ماضی میں دہائیوں سے نافذ سیکرٹ ایکٹ جیسے قوانین ہیں، مگر رائٹ ٹو انفارمیشن جیسے قوانین کے بعد اب آہستہ آہستہ سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔‘

محمد اعظم نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سلسلے میں متعدد بار ان کا کمیشن قانون کے تحت معلومات درخواست گزار کو فراہم نہ کرنے پر متعلقہ محکمے کے افسران کو جرمانہ بھی عائد کر چکا ہے۔

محمد اعظم کہتے ہیں کہ ’عموماً شہری اپنے علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں یا سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتے ہیں جبکہ سماجی تنظیموں میں سرکاری محکموں کو ملنے والے بجٹ اور اس کے استعمال سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرنے کا رحجان زیادہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’صحافی بھی اس قانون سے مستفید ہو رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp