پڑوسی کے چولہے سے آگ لئی لے


(امریکہ میں بھارت نژاد باشندوں کی کامیابیاں)

ماتھا ہمارا اسی وقت تین سال پہلے ٹھنکا تھا۔ جس بس کو نیویارک میں دیکھتے، جس دیوار پر نگاہ ڈالتے۔ ہر طرف تیرا جلوہ کا منظر، پریانکا چوپڑا کی تصویر، ایف بی آئی کے جعلی بیج اور اصلی بھرے بھرے تکیے جیسے ہونٹ۔ بس کو آنے میں دیر بھی ہو تو ان تصاویر کی وجہ سے بس اسٹاپ خمار بارہ بنکوی کے اس شعر کی تصویر شیشہ و سنگ بن جاتا تھا کہ

اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے

وہ آ بھی جائیں تو، آئے نہ اعتبار مجھے

بس آتی ہے تو وہ بھی اے بی سی چینل کے ٹی وی تھرلرسے لدی پھندی Quantico کے اشتہارات سے لدی۔

ہم نے عبید قنچے سے پوچھا۔ وہ کوئینز -نیو یارک کے علاقے میں ہوتا ہے۔ یہ امریکہ کا سب سے کثیر الاقوام علاقہ اور ان دنوں ہم جنس پرست افراد کا مرکز تجلیات ہے۔ کوئینز کی اس برو (امریکہ میں ضلع کو برو کہتے ہیں) میں عبید قنچہ حلال گوشت کی سپلائی کا کام کرتا ہے۔ نہاری کھانے گئے تھے تو مل گیا۔ ہمیں ٹالتا ہے کہ اس کی آنکھیں بھلے بلوری ہوں مگر پارٹی میں اس کا نام قنچہ نہیں تھا۔ ہم چھیڑتے ہیں کہ وہاں سیکٹر والوں کے حکم پر بندے حلال کرتا تھا یہاں ایمان والوں کے لیے گائے بکرے مرغیاں۔ طنز سن کر ہنستا ہے۔ کہتا ہے آپ نے کامران مادھوری بھائی کو نہیں دیکھا۔ ان کو مادھوری کا لقب ملا تھا۔ بندے کا سر کاٹ کے بوری میں بند کر شرفا کمیٹی کی فرمائش پر چولی کے پیچھے کیا ہے اور انجام کے گانے اٹھارہ برس کی کنواری کلی تھی پر بالکل مادھوری ڈکشٹ کی طرح ناچتے تھے۔ قسم سے کیا چکاس ناچتے تھے بندہ بوری کے اندر کٹے ہوئے سر سمیت کونا کھول کر جھانک جھانک کے داد دے رہا ہوتا تھا۔ ہم بہت سمجھاتے ہیں کہ تیری شکل ہسپانوی اداکار اور ماڈل جان کورٹ ہرینا سے بہت ملتی ہے۔ اب چھری بغدے سے آگے کا سوچ۔ کہتا ہے کہ فاروق بھائی کو بہت کہا تھا وہاں کسی ڈرامہ سیریل میں کام دلا دیں۔ کہتے تھے ابے میرے ہوتے ہوئے تیری جرات کیسے ہوئی کہ تو کسی سیرئیل میں ہیرو کے روپ میں آئے۔

عبید قنچے نے مسالہ چائے کا گھونٹ بھر کے بتایا کہ سر جی پانی سر سے اونچا ہو گیا۔ پریانکا کو چھوڑیں نکی ہیلی سائوتھ کیرولینا کی پہلی گورنر ہے۔ سب سے کم عمر گورنر بنی تھی۔ اس سے پہلے بھارت نژاد بوبی جندل لوئیزیانا کے گورنر تھے۔ نمرتا نکی رندھاوا جو ایک سکھ فیملی میں پیدا ہوئیں اپنے چار بھائی بہنوں میں سب سے کم سن ہونے کی وجہ سے نکی کہلاتی ہیں۔ امریکیوں کو بھی یہی نام اچھا لگتا ہے۔

ہمیں لگا کہ عبید کے دل میں حب الوطنی موجیں ماررہی ہے۔ اسے اپنی پاکستان کی زندگی پر پچھتاوا بھی ہے۔ بھارتی باشندوں کی ترقی و کامرانی پر اپنے مہاجر دل کی دلدل میں ان کے حسد کا اینا کونڈا پال کر بیٹھا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ بھارت کے لوگ جو یہاں پیدا ہوئے یا پھر وہاں سے امریکہ آئے وہ پاکستانیوں کی نسبت بہت آگے ہیں۔ ہم نے سوچا یہ اسٹریٹ اسمارٹ انسان جس کا لوگوں میں آنا جانا ہے اس کی رائے جان لیں کہہ وہ اس عمل کو کیسے دیکھتا ہے۔

کہنے لگا ان میں چار پانچ کمال کے اوصاف ہیں جو صرف یہودیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے بھارت سے آئے ہوئے باشندے یہودیوں کے بعد سب سے کامیاب اقلیت ہیں۔ خدا لگتی یہ ہے کہ یہودی امریکہ میں خود کو اقلیت نہیں، باپ سمجھتے ہیں۔ ان کی بھارت سے لائی ہوئی ڈگری بھی یہاں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ فطرت میں اپنے آپ کو پھونک پھونک کر آگے بڑھانے کی ایک چالاکی ہوتی ہے جسے یہ عاجزی کی ساڑھی میں پیٹی کوٹ کی طرح چھپا کر باندھے رکھتے ہیں۔

یہاں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ تو امریکہ کے پبلک پرائیویٹ اسکولوں میں وظائف کی بھرمار کی وجہ سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ عبید کا کہنا تھا کہ اس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارتی مہاجرین کے بچے اگر کسی طور اچھی اسکول کالج میں نہ بھی جا پائیں تو وہ آخری ڈگری کلاس میں بہترین یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے اتنی محنت کرتے ہیں کہ انہیں وہ اعزاز، تعارف اور نیٹ ورک مل جاتا ہے جو امریکہ میں بہترین ملازمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ امریکہ کی دنیا نیٹ ورک کی دنیا ہے۔

ہم نے اپنے طور پر چھوٹی موٹی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ گوگل کے سرپرست ادارے” الفا بیٹ” کے سربراہ سندر پچائی جو بھارت کی ایک نامور ادارے انڈین انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھرگ پور۔ بنگال سےmetallurgical engineering  میں ڈگری لے کر آئے تھے۔ وہ پہلے امریکہ میں بعد دوسرے نمبر کی جامعہ اسٹین فورڈ میں materials science کے شعبے میں گئے۔ یہاں ان داخلے کے لیے ان کو کھرگ پور کے نتائج کی بنیاد پر وظیفہ ملا تھا۔ یہ سب تعلیم ایک طرف مگر اصل کمال یہ ہوا جب وہ امریکہ کے نمبر ون بزنس اسکول Wharton  میں ایم بی اے کرنے پہنچے اور یہاں انہیں دو بڑے اعزازات بہ یک وقت ملے۔ یہ ان کے کئیریر کا بینچ مارک ہے۔ عبید کی بات پر غور کریں تو چنائی بھارت کے پچائی سندراجن جنہیں نمبر یاد رکھنے میں ملکہ ہے اور جن کے پاس کمپیوٹر کے مضمون حوالے سے کوئی ڈگری نہیں۔ وہ اپنے ہارورڈ اور اسٹین فورڈ میں اپنی نیٹ ورکنگ اور ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر گوگل کی آنکھ کا تارہ بنے۔

عبید قنچے کو علم تھا کہ بھارت کی جنوبی ریاستوں کے لوگ امریکہ میں انتظامی عہدوں پر زیادہ کامیاب ہیں۔ ہم نے چھوٹی موٹی تحقیق کی تو علم ہوا کہ قنچے کی بات میں سچائی ہے۔

 گوگل کے پچائی جی اور پیپسی کولا کمپنی کی سابق سربراہ اندرا نوئی دونوں کا تعلق جی تامل ناڈو سے ہے۔ سٹی گروپ کے سابق چیئرمین وکرم پنڈت گجرات کے ہیں۔ اسی طرح گو انشومان جین کی شہریت تو برطانوی ہے مگر انہوں نے امریکہ میں  hedge fund)سرمائے کا وہ ذخیرہ جو مختلف افراد یا کمپنیوں سے اکھٹا کرکے جارحانہ انداز میں تیز تر منافع کمانےکے لیے لگایا جائے) .بہت نام کمایا اور وہ جرمنی کے بینک ڈویشے بینک کے سربراہ تھے۔ سندیپ مہترانی جن کا رئیل اسٹیٹ میں بڑا نام ہے وہ بھی گجراتی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔

فلیش، پی ڈی ایف، فوٹو شاپ اور الیسٹریٹر جیسے مشہور تخلیقی سافٹ ویر بنانے والی کمپنی کے چیف شن تانو نرائین اور نا ڈیلا جو مائیکروسوفٹ جیسی بلین ڈالر ملٹی نیشنل کمپنی کے چیف ہیں دونوں ہی کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے۔ راجیو سوری جو نوکیا کمپنی کے چیف رہ چکے ہیں ان کا تعلق دہلی جنوبی بھارت سے ہے اسی طرح سامسنگ کی ایک بڑی کمپنی ہرمن انٹرنیشنل جو ان کی بے شمار پراڈکٹس بناتی ہے اس کے سربراہ دنیش پالی وال کا تعلق اآگرہ سے ہے۔ فرانسیسکو ڈی سوزا گو ایسے شدھ بھارتی تو نہیں کیوں کہ نیروبی میں پیدا ہوئے مگر والدین چونکہ بھارتی فارن سروس میں تھے لہذا جوانی تک گیارہ ممالک میں پلے بڑھے مگر Cognizant نامی کمپنی کے سربراہ کے طور پر بڑا نام کمایا۔

اجے پال سنگھ بنگا جو ماسٹر کارڈ کے چیف تھے دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ کس کس کا نام لیں۔ ایک دور یہ آیا کہ ہم افغانوں کو سنبھال کر غزوہ ہند کی تیاریاں کررہے تھے۔ محمود غزنوی کے نقش قدم پر چل کر تعلیم اور ٹیکنالوجی، معاشیات اور جدت پسندی سے منھ موڑے اپنی تلواریں اسلامی آئیڈیالوجی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی کی مدد سے سونت رہے تھے۔ مشرقی  سرحد پار پڑوس میں من موہن سنگھ کی متعارف کردہ اکنامک پالیسیوں اور ملک بھر کے 23 انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے گریجویٹس کی وجہ سے ایک غیر محسوس دائرہ اثر تیزی سے پھیل رہا تھا۔

امریکی جامعات میں Right men at Right Time in Right Place اس کے ثمرات لوٹنے کے لیے موجود تھے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان میں کوئی ایک بھی یعنی نوئی، پچائی، نڈیلا، سوری، سنتانو نرائین دنیش پالی وال یا اجے پال سنگھ بنگا ہی ست سری اکال کا نعرہ مار کر جنرل مشرف یا صدر زرداری کو جھوٹے سے ہی فون کردیتے تو وہ دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے۔ اب کون انہیں سمجھائے کہ سرمایہ فیصلہ خرید سکتا ہے۔ ترقی ہتھیاروں کی محتاج نہیں۔ ہتھیار ترقی کے محتاج ہیں۔ ملک میں کئی ایسے ٹھیکیدار اور تاجر ہیں جن کے پاس جج، جرنیل اور افسر، حاضریاں لگا رہے ہوتے ہیں کہ سائیں کوئی پٹزا، کوئی کمپلکس، کوئی بیٹا بہو کے لیے موغا دیشو یا عدیس ابابا میں کپڑے کی فیکٹری، لندن میں میں کوئی فش اینڈ چپس کا پراجیکٹ لگوا دو۔ سیاست دانوں پر مٹی ڈالیں ان کی ٹکٹ اور وزارت کا کام نکلتا ہو تو انہیں جنرل رانی، ایان علی، دلشاد اور اداکارہ ریما گوری اور نور کے ہاں بھی سجدہ ریز ہونے میں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ یہ آکسفورڈ کے پڑھے ڈنڈا مار پیر فقیروں کے ہاں ایک منت پوری کرنے جا پہنچتے ہیں۔

بھارت سے ہجرت کرکے آنے والوں میں سب سے ترقی یافتہ گروپ ہمارے گجراتیوں کا ہے۔

سن 1947 میں ہمارے چھوٹے چچا نے بھی ممبئی کی بندرگاہ پر دادا سے سہمے ہوئے ابا جی کو کہا یہاں سے ہزار فیٹ پر جو جہاز لگا ہے وہ سنگاپور ملایا اور برونائی جا رہا ہے ٹکٹ تھوڑی سی زیادہ ہے وہاں چلتے ہیں۔ دادا کی سر شاہ نواز بھٹو سے نواب آف جوناگڑھ کی مشترکہ ملازمت کی وجہ سے بہت دوستی تھی۔ اڑ گئے کہ نہیں سندھ میں چلنا ہے ان کے ساتھ ہی لاڑکانہ میں رہنا ہے۔ نہ مانے۔ اس وقت تو گجرات کے لوگوں نے کئی ممالک کا رخ کیا۔ نیویارک سے جڑی ریاست نیوجرسی اور نیویارک میں مل ملا کے سوا لاکھ کے قریب گجراتی آباد ہیں۔ ہم آپ کو امریکی گجراتیوں کے بارے میں بتا دیں۔

1965 میں جب پاک بھارت جنگ ہوئی تو گجراتیوں کو بہت Rude -Shock ہوا۔

ان کا خیال تھا کہ دونوں ملکوں کے گجراتی لیڈروں گاندھی، ولبھ بھائی پٹیل، مرارجی ڈیسائی اور جناح صاحب نے انگریز سے مل ملا کر اپنا اپنا دھندہ علیحدہ کر لیا ہے۔ اب مزید کوئی دنگا فساد نہیں ہوگا۔ دونوں اپنا اپنا کھائیں گے، کمائیں گے۔ جنگ ہوئی تو ان لوگ نے کہا۔ اب ہندوستان میں بھی نہیں رہنا۔ سیدھا امریکہ چلو۔ بیچ میں کہیں نہیں رکنا۔ یہ بدمعاس لوگ کو چین نہیں آنے کا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ‘‘chain migration’’کا ایک سلسلہ چلا۔ گجراتی بڑی تعداد میں نیویارک میں ویسے ہی پہنچ گئے جیسے مسلمان گجراتی اور میمن کراچی آئے تھے۔ امریکہ کی hospitality industry جس میں سستے مہنگے سبھی طرح کے ہوٹل شامل ہیں ان پر گجراتی پٹیل خاندانوں کی تجارتی اجارہ داری ہے۔ دیسی شاپنگ سٹوروں۔ امریکہ کے آدھے موٹلز ان ہی گجراتیوں کی ملکیت ہیں جس میں جیانتی بھائی پٹیل کے بارہ موٹلز ہیں اسی وجہ سے ان سستے ہوٹلوں کو مذاق میں Patel Motel Cartel.  کہا جاتا ہے۔

عبید قنچہ چونکہ گلیوں کا راجہ ہے جسے انگریزی میں اسٹریٹ اسمارٹ کہتے ہیں تو ہم نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ چینی میکسیکو عرب دوسرے اتنی ترقی نہیں کرتے۔ اس کی بات نے ہمیں حیران کیا۔ کہہ رہا تھا جیسے تیسے پڑھ کر گریجویشن کرلیتے ہیں۔ بھارت میں تعلیم اور انگریزی بہت اچھی ہے۔ سوارا بھاسکر اور رعنا ایوب انگریزی بولتی ہیں تو امریکن کا دماغ چل پڑتا ہے۔ جب تعلیم کو کرائون کرنا ہو تو جان لڑا دیتے ہیں۔ بہترین یونی ورسٹی میں گھس کر پروفیسرز کی آنکھ کا تارہ بن جاتے ہیں۔ چینی دھوبی کی دکان کھول کر خوش ہوجاتے ہیں۔ عرب حلال کھانے کے ٹھیلے اور میکسیکن نان اور ڈبل روٹی بیک کر رہے ہوتے ہیں۔ وکیل، ڈاکٹر، انجئنیرز آپ کو بھارتی ملیں گے۔

ہمیں پہلے حیرت تو اس وقت ہوئی جب ممبئی والے فرید ذکریا نے نیوزویک کی ادارت سنبھالی۔ یہ متاثر کن ضرور تھا مگر چونکا دینے کی بات نہ تھی۔ ہم پر حیرت کا پہاڑ اس وقت ٹوٹا جب مشہور مصنفہ نلینی جونز کی ہمشیرہ رادھیکا جونز کا نام ہمارے پسندیدہ رسالے the Vanity Fair کی چیف ایڈیٹر کے طور پر شائع ہونے لگا۔ انگریزی ادیب ہونا ایک اور بات ہے۔ ایسے بہت ہیں مگر امریکی اشرافیہ کے نمائندے رسالے کی ایڈیٹر ان چیف ہونے کا مطلب ہے ان کی رائے سازی میں حصہ داری ٹرمپ، پومپیو، سی آئی اے چیف جینا ہیسپل، نکی ہیلی، شہزادی ولید بن طلال، نیتا امبانی اور نیتن یاہو سے صرف ایک فون کی دوری پر ہیں۔ ہم اپنے والوں کو کیا سمجھائیں کہ راہ بھولے ہیں کہاں سے وہ۔ دفاع بھی بہت ضروری ہے مگر دفاع کے بعد اچھی معیاری تعلیم لازم ہے۔ آپ کا ہسپتال اور دفتر بھلے قبرستان کا منظر پیش کرے۔ راول ڈیم کے کنارے کوئی نیا کلب بنے نہ بنے لیکن گکھڑ منڈی، کنڈیارو، گولیمار کراچی، قلعہ سیف اللہ اور مرغوز میں آپ کی توجہ سے ایک سرکاری اسکول ایسا بن جائے جس کا ہر فارغ التحصیل طالب علم ایلان مسک کی کمپنی ایکس میں نمایاں عہدے پر فائز ہو۔ ہم یہ مضمون دکھی دل سے مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی کے اس ٹکڑے پر ختم کرتے ہیں کہ

میرے وطن، میرے مجبور، تن فگار وطن

میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے

میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو

کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن

کبھی کبھی تجھے، تنہائیوں میں سوچا ہے

تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 95 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan