شہباز شریف نہیں، مفاہمت اور امن کی گرفتاری‎


جناب شیخ رشید درست ثابت ہوئے اور شہباز شریف، ن سے ش علیحدہ نہ کرنے کی وجہ سے جیل پہنچ چکے ہیں۔ یہ گرفتاری شہباز شریف کی نہیں، مفاہمت کی سوچ اور خیال کی گرفتاری ہے۔ یہ اس آخری امید کی گرفتاری ہے جو معیشت کی بحالی اور امن سے گمان رکھتی تھی۔ مفاہمت محض شہباز شریف ہی کی نہیں، دوسری پارٹیوں میں بھی ایسی سوچ پائی جاتی تھی لیکن آج کے بعد ان سب کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور جو باقی بچا ہے وہ دونوں جانب انتہاؤں کو پہنچی نفرت اور عدم اعتماد ہے جس کا ٹکراؤ سامنے نظر آ رہا ہے۔

یہ ٹکراؤ کہاں ہو گا؟ راستوں، سڑکوں، گلی اور محلوں میں ہو گا۔ اگر بھرے بازار میں دو گولیاں چل جائیں تو کاروبار کتنی ترقی کرے گا ؟ اس گرفتاری اور دونوں جانب کے رویے ایک طرف رکھیں اور سرحد پر نظر ڈالیں۔ ہماری فوج کا کہنا ہے کہ بھارت سے جنگ کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ بھارت کا وفاقی وزیر امیت شاہ کہہ چکا ہے کہ پندرہ نومبر کے بعد بھارت کو دو سرحدوں پر جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے اور یہ کہ پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنا چاہئیے۔ اس کو سیاسی بیان ہی سمجھیں تو بھی یہ سوچ تو کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ چین سے جنگ کے میدان میں شرمندگی اٹھانے کا حساب وہ پاکستان سے برابر کر سکتے ہیں۔

فرض کریں کشمیر پر بھارت سے جھڑپ ہوتی ہے اور جنگ کی صورت حال بن جاتی ہے۔ اب ایک طرف ہماری فوج، بھارتی فوج سے لڑے گی دوسری جانب وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مولانا فضل الرحمان، پی ٹی ایم سے لڑے گی، اور یہی وہ وقت ہو گا جب امریکی طالبان اس لڑائی میں اتریں گے۔ ادھر سندھ میں پیپلز پارٹی سے لڑے گی، باقی رہ گیا پنجاب تو یہاں وہ نواز شریف سے لڑ رہی ہو گی۔ مطلب یہ کہ ایک ہی وقت میں چاروں طرف محاذ کھلا ہو گا، ہماری فوج بیک وقت، بیرونی دشمن اور اندرونی مخالفوں سے جنگ کر رہی ہو گی۔

چاروں جانب جنگ لڑنے کے لئے جذبہ ایمانی کے ساتھ پیسہ اور تیل بھی چائیے۔ سعودی عرب کے بارے ابھی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ تو ظالم ہمارا دوست نہیں رہا کیونکہ اسلامی تاریخ سعودیہ نہیں، ترکی سے شروع ہوتی ہے جس کا ثبوت ترکی ڈرامہ ہے۔ اپنی صنعت فارغ ہے اور ٹیکس کا نظام بھی، اس لئے وہاں ہمیں آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کی ضرورت ہے۔ مگر کیا کریں کہ ہم فاٹف کو مطمئن نہیں کر پا رہے۔ اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے، یہ وہی پیرس ہے جہاں ابھی ہمارا ایک ہم وطن نہتے شہریوں پر خنجر چلا کر، فخریہ اقرار کر چکا ہے کہ اسے یہ سعادت نصیب ہوئی۔ اس نوجوان کے والد کا انٹرویو، یو ٹیوب پر موجود ہے جو فرانسیسی نیوز چینل چلا رہے ہیں، اس انٹرویو میں والد نے اپنے بچے کی بہادری اور جذبہ جہاد کی ستائش کی ہے اور خود کو خوش نصیب بتایا ہے۔

جناب خان شاید ثبوت تلاش کررہے ہوں کہ اس نوجوان کا تعلق، مسلم لیگ ن کے کس ونگ سے تھا۔ جیسے ہی یہ ثبوت سامنے آ گیا تو یورپ میں بسنے والے پاکستانی دوبارہ سر فخر سے اٹھا کر چلیں گے کیونکہ اس نوجوان کی دہشت گردی کے بعد جو بحث کھلی ہے وہ یہ ہے کہ، یورپ میں رہنے والا کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی بھی ایسی بات کہہ دے جو پاکستانی مذہبی فکر کو ناگوار گزرے تو یورپ میں رہنے والا کوئی بھی پاکستانی کسی بھی سویلین پر حملہ کرکے اس کا انتقام لے سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن کے علاوہ کون اس سوچ کو پروان چڑھانے کا ذمہ دار ہو سکتا ہے۔

امید رکھنی چاہئے کہ ہماری حکومت اور سلامتی کے ادارے اس تمام صورتحال کی تیاری کر کے ہی یہ فیصلے کر رہے ہوں گے، ایک باصلاحیت ٹیم جناب خان نے تیار کر لی ہو گی جو ہر طرف جنگ و جدل سے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے گی اور ایک ساتھ ہی، اندرون ملک سمیت پورے خطے اور دنیا سے غداروں کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ یعنی سابقہ قبائلی علاقوں سمیت سارے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے مولانا فضل الرحمان، پی ٹی ایم سمیت امریکی طالبان کا خاتمہ، سندھ سے پیپلز پارٹی اور پنجاب سے نواز شریف کا سیاسی صفایا۔ اور ان سب کے ساتھ بھارت کے دانت کھٹے، گلگت بلتستان میں حیرت انگیز سیاسی کامیابی، فاٹف پیسہ دے نہ دے ہم خود کفیل ہو چکے ہوں گے کہ یہ سارے پنگے لیں اور جیت بھی جائیں۔

مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ جناب خان اس خطرے سے بخوبی واقف ہوں گے کہ سلگتی آگ اور بھڑکتے شعلوں میں اگر نواز شریف نے لندن میں بیٹھے سوشل میڈیا پر کچھ راز ونیاز کھول دیئے تو بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

آخری بات یہ کہ جب یہ ساری فتوحات حاصل ہو جائیں گی تو ایک نیا ڈرامہ ہم ترکی کے ساتھ بنائیں گے جس کا نام عظیم عمران خان رکھیں گے جس کے بعد اقوام متحدہ کا ہیڈ آفس، اسلام آباد شفٹ ہوگا تاکہ عمران خان صرف ہماری ہی نہیں دنیا کی رہنمائی کر سکیں، آخر ایسا قدرتی تحفہ، ذہانت اور مہارت صرف ہم خود تک رکھ کے ساری انسانیت کو کیوں محروم رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).