وارث میر اور روشن خیالی


مضامین کے اس سلسلے کے پہلے حصوں میں ہم نے عبدالسلام خورشید اور مسکین حجازی کے سرکاری صحافت کے مطالعہ پاکستانی مکتب فکر سے لے کر سرکاری بیانیوں کو للکارنے والے ضمیر نیازی اور ڈاکٹر مہدی حسن کی کتابوں اور مضامین کا ذکر کیا۔ اس مضمون میں ہم پاکستانی صحافت کے ایک اور بڑے نام پروفیسر وارث میر کا ذکر کریں گے جن کی تحریروں کو پڑھنا آج کے پاکستانی صحافیوں کے لیے ضروری ہے تاکہ ان کے ذہن روشن ہوں۔

وارث میر 1938 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 1962 میں پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد روزنامہ نوائے وقت میں میگزین ایڈیٹر اور کالم نویس رہے اور پھر مشرق میں بھی کالم لکھتے رہے۔ وہ شعبہ صحافت جامعہ پنجاب کے سربراہ بھی رہے اور سینکڑوں طلبا و طالبات کو صحافت کی تعلیم دی۔ ان کا اصل کارنامہ ایک تو 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی مخالفت اور پھر جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کے خلاف مسلسل کالم نگاری کرنا تھا جس کی پاداش میں انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑے اور پچاس سے بھی کم عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے 1987 میں انتقال کر گئے مگر اس سے قبل ہی وہ اتنا بڑا تحریری اثاثہ چھوڑ گئے جو آج کے پاکستان میں بھی اتنا ہی کار آمد ہے جتنا کہ 1980 کے عشرے کے تاریک برسوں میں تھا۔ یہاں ہم مختصراً ان کے کالموں کے دو مجموعوں پر بات کریں گے یعنی ”حریت فکر کے مجاہد“ اور ”کیا عورت آدھی ہے“۔

 پروفیسر وارث میر پاکستانی صحافت میں خرد افروزی کے بڑے علم بردار تھے وہ کئی موضوعات پر بہت کچھ جانتے تھے اور ان کا علم ان کی تحریروں سے جھلکتا تھا۔ یہاں وارث میر کے لیے حبیب جالب کی ایک نظم برمحل معلوم ہوتی ہے:

 حق پرستو صاحب کردار وارث میر تھا

آمروں سے برسرپیکار وارث میر تھا

اس کی تحریروں کے رہتے تھے ہم منتظر

سچ تو یہ ہے حاصل اخبار وارث میر تھا

وقف تھا اس کا قلم انسانیت کے واسطے

اہل غم کا مونس و غم خوار وارث میر تھا

فکر اس کی اصل میں ملائیت کی تھی شکست

ذی نگاہ واقف اسرار وارث میر تھا

لفظ اس کا تیر تھا باطل کے سینے کے لیے

اہل حق کا قافلہ سالار وارث میر تھا

ظلم سہتا تھا نہیں کہتا تھا ظلمت کو ضیا

آنسوﺅں کو پی کے نغمہ بار وارث میر تھا

دوست تھا وہ بے مثال اور آدمی تھا بے نظیر

سربسر جالب محبت پیار وارث میر تھا

 پروفیسر وارث میر نے 1985 سے 1987 تک دو سال روزنامہ جنگ میں جو کالم لکھے وہ ان کی موت کے بعد ”حریت فکر کے مجاہد“ کے عنوان سے جنگ پبلشرز نے 1989 میں شائع کیے۔ یہ مضمون ان کی خرد پسندی اور علم کا نمونہ ہیں۔

وارث میر نے جنرل ضیا الحق کے تاریک دور میں اپنے قارئین کو جذباتیت، جہالت اور رومانیت سے بچانے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے اپنے کالموں میں تاریخ اسلام کے ان مجاہدوں کا ذکر کیا جو مختلف ادوار میں اظہار حق کرتے رہے اور اس کے پاداش میں سزائیں بھگتے رہے۔ ان کے کالموں میں الکندی اور ابن رشد سے لے کر معتزلہ اور اخوان الصفا تک سب کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ کس طرح اشاعرہ نے روشن خیالی کے خلاف معرکہ آرائی کی جس کے نتیجے میں معتزلہ اور اخوان الصفا کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

 وارث میر اپنے کالموں میں جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کا بھی جائزہ لیتے ہیں اور ترکی کے آخری خلیفہ کے آزادی مخالف کردار کا بھی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر کرار حسین نے لکھا ہے۔

”وارث میر ایک باشعور اور باضمیر دانش ور، شہری، استاداور صحافی تھے۔ وہ اپنے قلم کو عوام کی امانت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ترقی پسندی کسی فرقے کا نام نہیں ہے نہ کسی عقیدے کا نام ہے بل کہ توانا اور زندہ فکر، زمانے کا صحیح شعور اور عوام میں خود آگہی، اپنے حقوق و آزادی کا تحفظ، غربت و افلاس، جہل اور توہم پرستی کا استیلا، ہر قسم کی استعماریت اور استبداد سے آزادی اور تخلیقی جوہر کے فروغ اور وسیع تر کلچر کا نام ہے“

غالباً ترقی پسندی کی اس سے بہتر اور جامع تعریف ممکن نہیں ہے اور وارث میر اس تعریف پر پورا اترتے تھے۔

وارث میر اپنے مضمون ”ہاتھ ہمارے قلم ہوئے“ میں لکھتے ہیں۔ ” غلام اور زوال پذیر قوم کی سیاست و حکومت کے ساتھ اس کے افکار بھی گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ وہ آگے بڑھنے کے بجائے ماضی کی طرف بھاگتے ہیں۔ “ (صفحہ 18) وارث میر یہ واضح کرتے ہیں کہ مسلمان معاشروں کو عروج اسی وقت حاصل ہوا جب وہاں معاشرے نے علم پرور ماحول مہیا کیا تھا جس کی گود میں بڑے تخلیقی مفکرین اور روایت شکن دانش ور پروان چڑھے، ایسے دانش ور جنہوں نے وقت کے حاکموں کے نظریات اور خیالات کو للکارا، ان سے اختلاف کیا اور معاشرے کو سرکاری منصوبے کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔

 پھر ایک اور مقالے ”تحریک خرد افروزی“ کے زیر عنوان ہمیں بتاتے ہیں کہ عقلیت کی تحریک کے زیر اثر مسلمانوں میں کئی تخلیقی ہستیاں، فلسفی اور سائنس دان پیدا ہوئے۔ وارث میر کا مطالعہ وسیع تھا اسی لیے وہ امام غزالی سے متاثر نہیں بل کہ غزالی کے مخالفین میں اس کے پایہ کے شخص ابوالولید طرطوشی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آخر میں غزالی سب چھوڑ چھاڑ کر صوفیوں سے جا ملے اور فلاسفہ کے خیالات اور منصور حلاج کے معمے مذہب میں مخلوط کر دیے فقہا اور متکلمین کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ احیاءالعلوم لکھی تو چونکہ تصوف میں پوری مہارت نہیں تھی، اسی لیے منہ کے بل گرے اور تمام کتاب میں موضوعی حدیثیں بھر دیں۔

 س طرح وارث میر ہمیں غزالی کے مقابلے میں رازی، فارابی اور ابن سینا کے مکتب فکر کے نظر آتے ہیں جو عقل کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔ وارث میر اپنی تحریروں میں ابن سینا جیسے مفکرین کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

”ابن سینا نے منطقی انداز فکر کے اصول متعین کرتے وقت عقل کے ساتھ تجربے کی اہمیت کو بھی واضح کیا اور یوں سائنس اور دیگر عقلی علوم میں تحقیق کے نئے دروازے کھولے۔ فارابی کا مذہبی فلسفہ قریب قریب یونانی فلسفے کی بازگشت ہے اس کے بعد ابن سینا تنہا شخص ہیں جن کے یہاں یونانی فلسفے کا پورا پورا اثر ہونے کے ساتھ ایک تدبر، تفہیم اور فکری نظام موجود ہے“ (صفحہ 27)

 وارث میر نے مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں میں اخوان الصفا کا بھی ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں

”ہمارے علما کی تحریروں اور تقریروں میں اخوان الصفا کا ذکر بہت کم آتا ہے حالانکہ خرد افروزی کی یہی تحریک انقلاب فرانس کا باعث ہوئی اسی خفیہ جماعت نے دسویں صدی کے آخر میں عقلی علوم کی انسائیکلو پیڈیا مرتب کی۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومتیں اور مذہبی حلقوں کے نمائندے مسلمان معاشروں میں جنم لینے والے فلسفیوں اور سائنس دانوں کے خلاف تحریکیں چلانے کے عادی ہوچکے تھے چنانچہ اخوان الصفا کے ارکان زیر زمین خفیہ طور پر کام کرتے رہے۔“

وارث میر ہمیں بتاتے ہیں کہ اخوان الصفا کوئی فرقہ وارانہ تحریک نہیں تھی اس تحریک کے ارکان چاہتے تھے کہ مسلمان عقلی علوم کو اپنائیں جنہیں الکندی، فارابی اور ابن سینا وغیرہ نے پروان چڑھایا تھا۔

 وارث میر نے بار بار اپنی تحریروں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ عقل کا استعمال جب تک اسلامی تاریخ میں رہا مسلمان سرخرو رہے اور جہاں انہوں نے بے عقلی کے کام شروع کیے ان کا زوال ہوا اور جب مسلمان حکم ران اور مذہبی طبقے اپنے مفادات کے تحت خرد افروزی کے خلاف ہوئے تو انہوں نے نئے خیالات کے اظہار کی اجازت نہیں دی چناں چہ مسلمانوں کے علمی کارناموں کو اہل یورپ نے سینے سے لگایا۔

”بارہویں صدی کے لگ بھگ عقلیت پسندوں پر عرصہ حیات تنگ ہوچکا تھا چنانچہ انہوں نے مشرق سے ہجرت کی اور مغرب یعنی اسپین میں پناہ لی جہاں بنو امیہ کی خلافت قائم ہو چکی تھی لیکن اموی خلیفہ بھی خرد افروزی کی تحریک کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکے۔ مایوسی کے اس دور میں ابن باجہ پیدا ہوئے۔ انہوں نے بھی عقل کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ مادہ آزاد نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح عقل کے حوالے سے کی جا سکتی ہے۔ “ (صفحہ 29)

”ابن باجہ کے بعد ابن طفیل کی ذہنی کیفیت بھی ان سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ اپنے فلسفے کو سمجھانے کے لیے ابن طفیل نے اپنی ایک کتاب میں حی بن یقطان کی کہانی بھی بیان کی ہے۔ اس زمانے میں فلسفے و سائنس کی تعلیم کو ممنوع قرار دیا جارہا تھا لہٰذا ابن طفیل نے استعاروں اور تشبیہوں میں بات سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن خرد افروزی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں ابن رشد کی بھرپور کوششوں کا ذکر ضرور کرنا پڑتا ہے۔“

واضح رہے کہ یہ سارے مضامین وارث میر نے روزنامہ جنگ کے لیے لکھے جو 1985 سے 1987 کے دوران جنگ میں شائع ہوئے ان کا ایک اور بہت اچھا مضمون ”تحریک تجدید و احیائے دین“ ہے جس میں وہ جمال الدین افغان کے ذکر سے آغاز کرتے ہیں اور محمد عبدہ پر بھی تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ وارث میر مصری مفکر قاسم امین سے بھی بہت متاثر نظر آتے ہیں جو 1865 میں پیدا ہوئے اور صرف بیالیس سال کی عمر میں 1908 میں فوت ہوئے۔ قاسم امین نے مسلمان عورت کے بارے میں دو کتابیں تحریر کیں جو ”تحریر المراة“ اور المراة الجدیدہ“ کے نام سے شائع ہوئیں۔

قاسم امین اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان معاشروں کی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ عورتوں کی پس ماندگی ہے البتہ مسلمان ملکوں کے رسم و رواج اور معاشرتی رجحانات نے ان پر ترقی اور آزادی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ان کی سفارش تھی کہ عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).