موٹروے ریپ کیس: پاکستانی خواتین میں حفاظتی آلات کی خریداری کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟


guns

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع ایک دفاعی آلات کی دکان میں جب میں داخل ہوئی تو وہاں ایک خاتون اپنے لیے ’اسٹن گن‘ یعنی کرنٹ لگانے والا آلہ لینے کے لیے پہلے سے ہی موجود تھی۔

میں نے اُن سے سوال کیا کہ وہ یہ آلہ اپنے لیے کیوں خرید رہی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ’موٹروے ریپ کیس کے بعد خواتین کے لیے اسٹن گن جیسے حفاظتی آلات رکھنا اور ان کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔‘

میں نے پوچھا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ اس نوعیت کے آلات رکھنا غیر قانونی ہے؟ تو اُن کا جواب تھا کہ ’قانون کی بالادستی ہوتی تو یہ آلات خریدنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔‘

اسٹن گن کی آواز سے ہی لوگ ڈر جاتے ہیں

پاکستان میں گذشتہ ماہ لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر پیش آئے ریپ واقعے نے بہت سی خواتین کے ذہنوں میں سوالات کو جنم دیا ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ناہید (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کو پہلے ہی کئی مشکلات کا سامنا ہے اور ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات سامنے کے بعد گھر والوں سمیت ہم خود یہ بات ضرور سوچتے ہیں کہ کیا گھر سے باہر نکلنا ہمارے لیے محفوظ ہے بھی یا نہیں؟‘

یہ بھی پڑھیے

ریپ کرنے والوں کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیے: عمران خان

’ہمارے کپڑے نہیں تو ہمارا رویہ، وہ بھی نہیں تو وہ راستہ جو ہم نے لیا۔۔۔‘

پاکستان میں ریپ جیسے جرائم کے لیے کیا مزید قانون سازی کی ضرورت ہے؟

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاشرے کو محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن جو حالات ہمارے سامنے ہیں اگر ان کو نظر میں رکھیں تو عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہماری ریاست ناکام ہو چکی ہے، اس لیے ہمیں خود ہی اپنا دفاع کرنا اور حفاظت کرنی ہو گی۔

ناہید اکیلی نہیں ہیں جو ایسا سوچتی ہیں۔

سارہ (فرضی نام) کئی سالوں سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم ہیں اور وہ ایک پرائیوٹ کمپنی میں نوکری کرتی ہیں۔ انھوں نے بتایا ’میں گذشتہ کافی عرصے سے ہمیشہ اپنے ساتھ اسٹن گن رکھتی ہوں کیونکہ یہ آلہ چھوٹا سا ہے اس لیے میں اسے اپنے موبائل کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے رکھتی ہوں۔‘

سارہ کو آفس سے گھر واپس آتے ہوئے اکثر دیر ہو جاتی ہے اور چونکہ وہ اکیلی سفر کرتی ہیں اس لیے انھوں نے اسٹن گن آن لائن خریدی۔ ان کا ماننا ہے کہ ’اس کی آواز سے ہی آپ کے پاس آنے والا شخص ڈر جاتا ہے۔‘

defence equipment

وہ کہتی ہیں کہ ’شکر ہے کہ آج تک اس کو کسی پر استعمال کرنے کی نوبت تو نہیں آئی ہے لیکن مجھے اتنا حوصلہ ہوتا ہے کہ چند منٹ کا اسٹن گن کے کرنٹ کا جھٹکا اتنی مہلت آپ کو دے دیتا ہے کہ آپ وہاں سے بھاگ سکو یا کسی کو مدد کے لیے پکار سکو۔‘

دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد مختلف گروپس میں اسٹن گنز آن لائن خریدنے کے بعد ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہی ہیں۔ جبکہ کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو دیگر عورتوں کو بھی اپنے دفاع کے لیے ایسے آلات خریدنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔

حفاظتی آلات کی فروخت میں اضافہ

گذشتہ 30 برس سے لاہور میں حفاظتی آلات کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ احمد علی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے عام شہری حفاظتی سامان کی خریداری کرنے زیادہ نہیں آتے تھے اور نہ ہی شہریوں کو ان آلات کے بارے میں زیادہ پتا تھا۔

انھوں نے دعویٰ ہے کہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے ریپ کیس کے بعد سے حفاظتی اشیا کی خرید میں خاظر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

’پہلے ہم پورے ہفتے میں چار سے پانچ اسٹن گنز بیچتے تھے۔ آج کل ایک ہفتے میں تقریباً 30 سے 35 اسٹن گنز بیچ رہے ہیں۔ جبکہ خریدنے والوں میں سب سے بڑی تعداد کالج اور آفس جانے والی خواتین کی ہے۔ بہت سے مرد حضرات بھی اپنی گھر کی خواتین کے لیے اس نوعیت کے حفاظتی آلات خرید کر لے کر جا رہے ہیں۔‘

مارکیٹوں میں دفاعی آلات جن میں اسٹن گن، ٹیزر، چاقو اور لوہے کا ڈنڈوں کی فروخت چند دکانوں کے علاوہ آن لائن بھی جاری ہے۔ ان آلات کی خرید و فروخت سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ یہ آلات زیادہ تر چین سے درآمد کیے جاتے ہیں۔۔

حفاظتی آلات کے برآمد کرنے والے ایک تاجر نے بتایا کہ اس نوعیت کا تمام سامان براستہ افغانستان پاکستان پہنچتا ہے اور اس میں زیادہ تر سامان سمگل شدہ ہوتا ہے۔

مارکیٹ کے علاوہ آن لائن بھی ان آلات کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔

آن لائن اس کاروبار سے منسلک ایک شخص نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اسٹن گن کی قیمت آلے سے نکلنے والے کرنٹ کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔

gun

اسٹن گن اور اس نوعیت کے آلات غیرقانونی ہیں

اسٹن گن کا بٹن دبانے سے اس میں سے ایسا کرنٹ نکلتا ہے جو کسی بھی حملہ آور کو وقتی طور پر حواس باختہ کر دیتا ہے۔ جبکہ اگر اسے زیادہ دیر کے لیے جسم کے حساس حصوں پر استعمال کیا جائے تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے لاہور کی ایس پی عائشہ بٹ کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی ایسے آلے کا استعمال غیر قانونی ہے جس کا لائسنس آپ کے پاس موجود نہ ہو۔‘

انھوں نے بتایا کہ اسٹن گن، ٹیزرز اور چاقو جیسی اشیا رکھنا، ان کی نمائش کرنا اور اس کا استعمال کرنا جرم ہے جس کے تحت مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔ ’ایسے آلات کو غیرقانونی طور پر رکھنے کی سزا تین سال تک قید کی صورت میں ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ معاشرے میں ہر شخص کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس پر ہے جبکہ ہمیں خود بحیثت ایک قوم اس معاشرے کو عورتوں کے لیے محفوظ جگہ بنانا ہے تاکہ انھیں اس نوعیت کے غیرقانونی آلات رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

خواتین حفاظتی آلات کے بغیر اپنا دفاع کیسے کر سکتی ہیں؟

گن

ایس پی عائشہ بٹ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون اپنے پاس کسی نوعیت کا اسلحہ رکھنا بھی چاہتی ہیں تو ان کے پاس اس کا لائسنس ہونا بے حد ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر اسلحے کے حصول میں دشواری ہے تو خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے پاس مرچوں والا سپرے رکھیں اور اگر وہ نہیں ہے تو عام استعمال ہونے والے باڈی سپرے کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا ’اگر آپ گھر سے باہر جا رہی ہیں تو گھر والوں کو اپنی لوکیشن اور جانے کا راستہ بتا کر جائیں۔ موبائل کو چارج کریں اور جس سواری پر سفر کریں پہلے اس کا جائزہ لے لیں کہ وہ ہر لحاظ سے محفوظ اور سفر کرنے کے قابل ہے۔ اگر آپ کو اپنے ارد گرد ذرا سا بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو فورا پولیس سے رابطہ کریں۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ سب خواتین کو یہ مشورہ دیں گی کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مارشل آرٹ ضرور سیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp