میں نے تین عورتوں کی عزت کیسے بچائی؟


آج بازار سے گھر واپس آ رہا تھا، تو راستے میں ایک منظر نے توجہ کھینچ لی۔ بازار سے ہمارے علاقے کی جانب ایک وسیع ڈبل روڈ آتی ہے، جس کے بیچوں بیچ گھاس پر مشتمل قطعوں کا ساٹھ فٹ چوڑا فٹ پاتھ ہے اور سڑک کے اطراف گھر بنے ہوئے ہیں۔ اسی ڈبل روڈ کے بائیں ٹکڑے پر تین چادر پوش خواتین مجھ سے کچھ فاصلے پر خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں۔ میرا اور ان کا فاصلہ پچاس گز کا رہا ہو گا۔

کچھ ہی دیر میں ایک سست رفتار موٹر سائیکل پر سوار دو مرد میرے عقب سے نمودار ہوئے اور ان خواتین کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ موٹر سائیکل کی سست رفتار اور موٹر سائیکل پر سوار مردوں کے انداز نے مجھے شک میں مبتلا کر دیا۔ ویسے بھی آج کل ملک میں زیادتی اور ہراسانی کے یکے بعد دیگرے واقعات ہو رہے ہیں، جن کی وجہ سے مجھے اب ہر راہ چلتی عورت زیادتی کا متوقع شکار اور ہر راہ چلتا مرد جنسی درندہ لگنے لگا ہے۔

انہی کیفیات کے زیراثر میں نے دیکھا کہ موٹر سائیکل ان خواتین کے پاس جا کر رک گئی اور خواتین چونک کر موٹر سائیکل کی طرف متوجہ ہوئیں۔ میں نے اپنی رفتار بڑھائی اور لمبے لمبے ڈگ بھرنے شروع کیے، تا کہ موقع واردات پر پہنچ کر ان مظلوم عورتوں کی مدد کر سکوں۔

میرے دماغ میں متوقع جھگڑے کی صورت میں حفاظتی داؤ پیچ کی فلم چل رہی تھی اور دوران میں خون تیز ہوتا جا رہا تھا۔ خود کو ثنا خوان تقدیس مشرق تصور کرتا ہوا۔ جوں ہی میں زیادتی کی متوقع شکار خواتین اور جنسی درندوں کے قریب پہنچا، میں نے اپنی طرف سے زوردار آواز میں کہا۔
”یہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟“ اب یہ اور بات کہ ازلی شرافت اور بزدلی کا شکار ہونے کی وجہ سے حلق سے قریب قریب منمناتی ہوئی آواز ہی برآمد ہوئی۔

وہ پانچوں آپس میں اس قدر انہماک سے محو گفتگو تھے کہ بری طرح چونک کر میری طرف مڑے۔
ایک بھاری جسم والے مرد نے قدرے ترش اور کھردرے لہجے میں استفسار کیا:
”کیوں باؤ۔ خیریت ہے؟“
باؤ بے چارے کا رنگ اس کھردری آواز کے کانوں میں پڑتے ہی اڑ چکا تھا۔
گھبراتے ہوئے کہا، ”حالات خراب ہیں تو احتیاطاً پوچھ لیا تھا۔“
کھردری آواز والے نے کہا، ”اؤ باؤ یہ میری ماں، بہن اور بیوی ہیں۔ چل اب اپنا راستہ ناپ۔“
کھردری آواز کے ساتھ تینوں عورتوں نے بھی ہنستے ہوئے سر ہلا دیے۔
اور یوں میں خوش خوش تین عورتوں کی عزت بچا کر اپنی چھاتی چوڑی کرتا ہوا گھر لوٹ آیا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad