موسیقار ایم ارشد سے ایک ملاقات


اس مرتبہ میرا لاہور آنا نامور شخصیات سے ملاقات کا وسیلی رہا۔ ان ملاقاتوں کے لئے میں حضرت تنویرؔ نقوی کے صاحبزادے شہباز تنویر نقوی اور نعیم وزیر کا مشکور ہوں۔ شہباز کا گزشتہ تحریر میں تعارف ہو چکا۔ نعیم وزیر کا تعارف یہ ہے کہ وہ پاکستانی فلمی دنیا کی نامور موسیقار جوڑی بخشی وزیر کے وزیر صاحب کے بیٹے ہیں۔ اور خود بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ان کے ساتھ نگار ایوارڈ یافتہ مشہور فلمی موسیقار ایم اشرف کے موسیقار بیٹے ایم ارشد سے میری ایک دلچسپ ملاقات ہوئی جو پڑھنے والوں کے لئے پیش خد مت ہیں۔

” کچھ اپنے والد صاحب کے بارے میں بتائیے“ ۔

” اپنے ابا جی، ایم اشرف صاحب کا میں بھلا کیا تعارف کرا سکتا ہوں۔ وہ بڑے خوش مزاج، مزے دار آدمی اور میرے دوست تھے۔ شروع میں وہ میرے دوست نہیں بلکہ باپ ہی تھے“ ۔

” ان کو فلمی دنیا میں کس نے متعارف کروایا؟“ ۔

” میرے والد صاحب کو ان کے ماموں، اختر حسین اکھیاں صاحب نے فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔ وہ بڑے جابر قسم کے ماموں اور استاد آدمی تھے۔ میری دادی جان کے تین بھائی تھے۔ ماسٹر عاشق حسین، اختر حسین اکھیاں اور ذاکر حسین جو فن موسیقی سے متعلق نہیں تھے۔ پہلے دو بھائی موسیقی میں نامور تھے۔ اختر صاحب کو میری دادی نے پالا تھا اور ان پر بڑا مان تھا۔ جب میرے والد صاحب کچھ سمجھ دار ہوئے تو ایک دن دادی نے اختر حسین اکھیاں سے کہا کہ میرے اشرف کو موسیقی سکھاؤ۔ اس پر ماموں نے دادی جان سے کہا:

’ آپا اس کو کچھ بھی نہیں آنے والا۔ یہ محنت فضول جائے گی۔ اس کی کتنی موٹی موٹی انگلیاں ہیں۔ یہ ہارمونیم کیسے بجائے گا۔‘ یہ وہ ٹیکنیکل باتیں ہیں جو میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو پتا چلیں کہ ہم لوگ سڑک سے اٹھ کر نہیں آ گئے۔ ایسی باتیں بتانے سے انٹرویو کا مزہ بھی ہے۔ دیکھ لیں کہ ہماری فیملی کی کتنی خدمات ہیں۔ الحمدللہ ہم خاندانی لوگ ہیں ”۔

” و والد صاحب کے ماموں اختر حسین اکھیاں نے میری دادی سے کہا کہ اشرف کو ویلڈنگ کے کام میں ڈالو۔ دادی بضد رہیں کہ مجھے پکا یقین ہے کہ تم اس کو سکھاؤ گے تو یہ بچہ اشرف سیکھ جائے گا۔ اس طرح وہ کچھ نیم رضا مند ہو گئے۔ اس کے بعد پھر والد کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ رات گئے اور کبھی چار بجے صبح اختر صاحب نے گھر آنا۔ وہ بھی دسمبر کا مہینہ۔ ان دنوں لاہور میں کیا غضب کی ٹھنڈ پڑتی تھی۔ میرے والد بھی اس وقت بچے ہی تھے۔

ان سے کہا جاتا کہ چلو گرم لحاف اور بستر سے نکلو اور باہر مٹکی میں سے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کے آؤ۔ میرے والد صاحب گرم بستر سے نکل کر چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ڈال کر ہارمونیم کے سبق سیکھنے بیٹھ جاتے۔ اس پس منظر میں ان کی موسیقی کی کلاسیں شروع ہوئیں۔ یہی نہیں بلکہ معمولی سی بھی غلطی پر مارنا کہ کسی طرح یہ بچہ کمال کا ہو جائے! میرے والد نے یہ کٹھن دور اپنے ماموں کے زیر تربیت رہتے ہوئے گزارا ”۔

”پھر رفتہ رفتہ والد صاحب نے ان ماموں کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ کافی فلموں میں ان کی معاونت کی۔ تب ماموں نے پہلی مرتبہ میرے والد صاحب کو ایک فلم دلوا دی۔ اختر حسین اکھیاں شباب پروڈکشنز میں ہوتے تھے اور شبابؔ صاحب کی بہت سی فلمیں کی تھیں۔ والد صاحب کی پہلی فلم“ مہتاب ”( 1962 ) تھی جو سپر ہٹ رہی۔ والد صاحب کا پہلا فلمی گانا“ گول گپے والا آیا گول گپے لایا۔ ”تھا، جو واقعی گلی گلی مشہور ہو گیا۔

وہاں سے والد کا باقاعدہ فلمی سفر شروع ہوا۔ ان کا فلمی دنیا میں موسیقاروں اور خود گھر والوں سے بہت سخت مقابلہ تھا۔ جیسے ایک طرف میری دادو کے کزن ماسٹر عنایت حسین صاحب، دوسری طرف ماسٹر عبد اللہ صاحب، آپ دیکھیں جب اتنے بڑے بڑے موسیقار پہلے ہی موجود تھے تو کتنا سخت مقابلہ ہوتا ہو گا۔ اب ان کے بیچ میں بیٹھ کر اپنا کام دکھانا۔ مولا کا کیا خاص کرم ہو گا اور کیا ماں باپ کی دعائیں ہوں گی کہ ایک بچہ اس سخت مقابلے کے ماحول میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔

اس پر بھی ہمارے خاندان نے والد صاحب کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ابا جی نے منظور اشرف کے نام سے فلمی موسیقار کا کام شروع کیا۔ منظور صاحب (ماسٹر منظور نہیں ) ان کے دوست بھی تھے۔ پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ والد صاحب نے 26 فلمیں کیں تب کہیں جا کر خاندان میں ان کو مانا گیا کہ یہ بھی موسیقار ہیں۔ والد صاحب کو پیار سے گھر میں ’اچھیاں‘ کہا جاتا تھا۔ اس وقت میری والدہ، فلمسازوں اور والد کے دوستوں نے کہا کہ اچھیاں! سارا کام تو تم کرتے ہو منظور کا نام ویسے ہی ساتھ لگا رکھا ہے ایسے کام نہیں چلے گا۔ 26 فلمیں کرنے کے بعد شبابؔ صاحب نے کہا کہ اب تم اس نام سے علیحدگی اختیار کر لو۔ اور انہوں نے ابا جی کو نیا نام ایم اشرف دے دیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی پہلی مشترکہ سپر ہٹ فلم ”سنگدل“ ( 1968 ) ابا جی کی ایم اشرف کے نام سے پہلی فلم تھی۔ اس طرح وہ 26 فلمیں تو پیچھے رہ گئیں یوں اب ایم اشرف کے نام سے ابا جی کا نیا دور شروع ہوا۔ ان کی تعلقات عامہ بہت مضبوط تھی۔ شخصیت بھی بہت اچھی تھی۔ کام پر گرفت تھی ”۔

”ابا جی نے کئی فنکاروں کو فلموں میں متعارف کروایا۔ جیسے : نیرہ نور۔ (تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں پلکیں بچھا دوں۔ فلم ’گھرانا‘ 1973 گیت نگار کلیمؔ عثمانی) ، مہناز، ناہید اختر، رجب علی، شوکت علی، اے نیر، انور رفیع، اسد امانت علی وغیرہ“ ۔

”موسیقار ایم اشرف بحیثیت باپ کیسے تھے“ ۔ میں نے سوال کیا۔

”شروع میں تو بہت سخت تھے۔ جو ان کے ساتھ ہوا تھا وہی میرے ساتھ کیا گیا (ڈنڈا) ۔ ویسے میں سیکھنے کے معاملے میں کوڑھ مغز بھی تھا۔ کوئی سبق ایک دم دماغ میں نہیں پڑتا تھا۔ ایمان داری کی بات ہے کہ میرا رجحان موسیقی کی طرف نہیں تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں کیوں کہ والدہ میرے پیچھے پڑ گئیں کہ تم کو اپنے والد کا سہارا بننا ہے۔ کیوں کہ ہمارا شریکا بہت ہے اس لئے ابا جی کو ایک ایسے بچے کی ضرورت تھی جو ان کا بازو بن جائے۔

اس وقت اپنے ہی خاندان کے جن لوگوں کو ابا جی نے متعارف کروایا تھا وہی اب والد کی دشمنی اور مخالفت میں پیش پیش تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن کو آپ گود میں لے کر سکھلاتے پڑھاتے ہیں، وہی آگے چل کر تلوار پکڑے آپ کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔ منافقت اور بغض اگر دلوں سے نکل جائے تو موسیقی سے زیادہ لطیف اور پیاری چیز تو اس دنیا میں اور ہے ہی کوئی نہیں ”۔

”بہرحال بات والد صاحب کی سختی کی ہو رہی تھی۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ بات یاد آئی۔ میرے ابا جی مجھے سبق دے کر جاتے کہ اس کی اچھی طرح مشق کرنا۔ بچہ تھا لہٰذا اکثر سوچتا کہ کافی ہو گئی اب بس۔ پھر اپنی والدہ کو کہتا کہ شام کو ابا جی گھر آئیں تو بتا دیں کہ میں نے سبق میں محنت کی تھی۔ ابا جی شام کو آ کر سب سے پہلے کہتے : ’ارشد کی ماں! کیا اس نے مشق کی تھی؟‘ تو والدہ سچ بولتیں کہ نہیں کی۔ وہ بات کو گھما پھرا بھی سکتی تھیں لیکن میری ماں نے کبھی مجھ پر جھوٹ کا پردہ نہیں ڈالا۔ دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر مائیں اس طرح کا سچ کم بولتی ہیں“ ۔

”پھر کیا ہوتا تھا؟“ میں نے سوال کیا۔
”ہا ہا ہا۔ بس پھر میں ہوتا تھا اور ابا جی کا ڈنڈا“ ۔
”کیا تمہارے بھائیوں کو بھی ایسے ہی سبق اور ڈنڈے ملتے تھے؟“

”بھائیوں میں سب سے زیادہ ڈنڈے بھی میں نے کھائے اور سب سے زیادہ پیار بھی مجھے ہی ملا۔ میرے تین بھائی تھے۔ ہمیں بچپن میں والد کی طرف سے ہر قسم کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ کیا سائیکلیں اور کیا چھوٹی چھوٹی خوشیاں۔ والدین نے ہمیں بہت اچھی طرح سے پالا۔ انہوں نے کھانے پینے، کھیل کود میں زندگی کی ہر آسائش اور خواہش پوری کی۔ اللہ کل بچوں کو ایسے والدین عطا فرمائے۔ لیکن کام کے معاملے میں ہمارے لئے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تھا!“

ایک سوال کے جواب میں ایم ارشد نے کہا: ”میں نے ابا جی کے ساتھ سپر ہٹ فلم“ میرا نام ہے محبت ”( 1975 ) سے کام شروع کر دیا تھا۔ ان کے ساتھ رہ کر بہت سے فنکاروں، گیت نگاروں اور تنویر ؔ نقوی جیسے نفیس لوگوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ بھی کیا لوگ تھے!“

”مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ایورنیو فلم اسٹوڈیوز میں ایک گانا ارینج کیا۔ اس میں ’لے‘ کا استعمال تھوڑا غلط ہو گیا۔ آپ یقین کریں اس وقت میڈم نورجہاں اور 40 میوزیشن بیٹھے ہوئے تھے۔ وہیں ابا جی نے باہر سے آئے لوگوں اور ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے سامنے مجھے ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ ابا جی کے ہاں بحیثیت ٹیچر معافی نہیں تھی۔ اس وقت ریکارڈنگ میں طافو برادرز سمیت ’اے‘ اور ’بی‘ بیچ کے میوزیشن بیٹھے ہوئے تھے۔ میری بس یہی سوچ تھی کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں۔ لیکن اس تھپڑ کی گونج نے مجھے بہتر انسان اور ارینجر بنا دیا۔ وہ جو لے پھنستی تھی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابا جی کے سر عام تھپڑ سے پھر ایسی ٹھیک ہوئی کہ کچھ نہ پوچھیں۔“

”اس تھپڑ کے بعد تم نے والد صاحب سے کیسے اظہار کیا کہ میں نے بھی اب فلموں کی موسیقی ترتیب دینا ہے۔ بتائیں میں کیا کروں؟“ میں نے سوال کیا۔

”والد صاحب نے شباب پروڈکشنز میں نذر شباب کی ایک فلم“ ذرا سی بات ”( 1982 ) دلا دی۔ گویا ابا جی نے کہہ دیا کہ اب تم اپنے طور پر خود بھی فلم کر سکتے ہو۔ گانے تو ٹھیک بنے لیکن پنجاب میں یہ فلم اچھی نہیں گئی (کراچی میں گولڈن جوبلی کی۔ یہاں کا مرکزی سنیما ’لیرک‘ تھا) ، لہٰذا ابا جی کے ساتھ مل کر دوبارہ جدوجہد شروع کر دی۔ میں ان کا میوزک ارینج کرتا رہا۔ جیسے مشہور گانا“ کالا سیاہ کالا میرا کالا اے دلدار گوریاں نوں پراں کرو۔ ”،“ لایاں میں لایاں وے میں تیرے نال وے ”اور بہت سے اپنے وقت کے مشہور گانے۔ پھر میں ارینجمنٹ میں ابا جی کے ساتھ ہو گیا۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں، میں صبح آٹھ بجے ہارمونیم لے کر ’اے ایم اسٹوڈیو‘ ، ’ایور نیو اسٹوڈیو‘ اور ’باری اسٹوڈیو‘ جاتا تھا اور ابا جی کے آنے سے پہلے سارا آرکسٹرا تیار کروا لیا کرتا تھا۔ وہ دن کے 2 بجے اسٹوڈیو آتے تھے۔ اور مجھ سے پوچھتے : ’ہاں بھئی! کیا سب کچھ تیار ہو گیا؟‘ ۔ میں جواباً کہتا: ’سن لیں‘ ۔ پھر وہ کہتے کہ ذرا سا اس کو ایسے کر لو۔ اور ساتھ ہی کہتے : ’بیٹا بہت اچھے۔ شاباش!‘ تو صحیح معنوں میں یہاں سے میرے اندر کے موسیقار کا آغاز ہوا۔ مجھ میں خود اعتمادی پہلے سے زیادہ آ گئی۔ اللہ نے کرم کیا۔ اس زمانے کے میوزیشن بھی زبردست اور منجھے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنا اور کروانا بچوں کا کھیل نہیں تھا“ ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3