موسیقار ایم ارشد سے ایک ملاقات


”استاد صاحب کا اس پر کیا رد عمل آیا؟“ میں نے سوال کیا۔

”پھر تو خاں صاحب ہواؤں میں تھے۔ ان کا مجھ پر بھرپور اعتماد ہو گیا۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ پھر میں نے ان کا اور بھی کام کیا۔ میں جو بات ریکارڈنگ کے لئے کہتا وہ فوراً پوری کروا دی جاتی۔ پھر اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ ایک مہینہ لگا کر ’بینڈٹ کوئین‘ ( 1994 ) کا بیک گراؤنڈ میوزک کیا۔ پھر میڈم کے ساتھ ان کے دوگانے اور دیگر تجرباتی کام کیے“ ۔

”یہ دوگانوں والا کام کیسا رہا؟“

”خاں صاحب بڑے شرماتے اور میڈم نورجہاں کے ساتھ جھجک محسوس کرتے تھے۔ دونوں کی آوازوں کی ’رینج‘ کا بھی فرق تھا۔ یہ ایک مشکل اور مختلف نوعیت کا کام تھا۔ اب اس مسئلہ کا کیا حل ہو؟ یہ حل نکالنا بھی میری ہی ذمہ داری قرار پایا۔ خاں صاحب نے کہا کہ میرے ’سر‘ سے ’تیرے بن روگی میرے نین‘ کا ٹریک بناؤ۔ اس سے پہلے میڈم کہہ چکی تھیں کہ ان کے سر کے حساب سے ٹریک بنا یا جائے۔ میں مشکل میں آ گیا۔ خاں صاحب کہنے لگے کچھ نہیں ہوتا تم میرے سر سے ٹریک بناؤ۔ جب میڈم اسٹوڈیو میں آئیں اور سنا تو کہا: ’اچھو! یہ میرا سر ہی نہیں‘ ۔ اب میڈم نور جہاں کا کہنا کون نہ مانے! انہوں نے جو کہہ دیا وہی ہونا ہے خواہ کچھ ہو جائے“ ۔

”پھر نیا ٹریک بنا۔ خاں صاحب نے بھی میڈم کے حساب سے بنے ہوئے ٹریک پر خوب جم کر گایا۔ میڈم نے بھی کمال گایا۔ یوں اللہ نے دونوں کی عزت رکھ لی۔ لیکن اس کے بیچ جو ٹیکنیکل مشکلات پیش آئیں وہ میں ہی جانتا ہوں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی دو پہلوانوں میں پھنس جائے۔ تھوڑا بہت اپنے تجربے سے بچ گیا اور اللہ تعالیٰ نے میری بھی عزت رکھ لی“ ۔

”میں نے اس میں خاں صاحب کو بڑے بڑے پینترے بھی بتلائے۔ جیسے یہ کہ ان سے کہا کہ اپنی لائنیں میڈم کے سر سے اوپر لے جائیں، اسکیل تو وہی رہے گا۔ یہ ٹیکنیکل بات ہے جو وہی بتائے گا جس نے سیکھا ہو گا“ ۔

”میڈم کے ساتھ دوگانے کا آئیڈیا تھا کس کا؟“ میں نے سوال کیا۔

”یہ خاں صاحب نصرت فتح علی کا ہی تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ نور جہاں کے ساتھ میرا ڈوئیٹ ہو۔ ابھی تو ہم نے لتا اور آشا جی کے ساتھ بھی دوگانے کرنا تھے جن کے ٹریک تیار بھی ہو گئے تھے۔ چھے سات دن بعد انہیں لندن ان ٹریکوں کی مکسنگ کرانے جانا تھا لیکن خاں صاحب بیمار ہو گئے۔ وہ ٹریک ان کی بیگم کے پاس پڑے ہوئے تھے۔ اب تو ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ اللہ دونوں کی مغفرت فرمائے“ ۔

”اب ان کے بعد راحت فتح علی خان کا تم سے کام کروانے کا کوئی رجحان ہے؟“ ۔

”وہ بھی میرا پیارا چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے کبھی ’مسکا پالش‘ والی بات نہیں کی۔ اس نے بھی بہت سخت جدوجہد کی اور دنیا کو دکھا دیا کہ وہ صحیح جاں نشین ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کا کیسا کیسا مذاق نہیں اڑایا جاتا تھا۔ اب اس پر اللہ کا کرم نظر آتا ہے۔ میں نے شروع میں راحت کے قصیدوں کے چار پانچ البم کیے تھے۔ اس کا پہلا البم بھی میں نے کیا: ’کسی روز ملو ہمیں شام ڈھلے۔‘ جو ریاض الرحمن ساغرؔ صاحب کا فلمی گیت تھا۔

ایک وقت میں یہ فلمسازوں نے دو الگ الگ فلموں کے لئے خریدا اور عکس بند بھی کیا۔ اس کا سہرا بھی نصرت فتح علی خاں کے سر جاتا ہے۔ انہی کی بدولت اور ان کی اجازت سے یہ البم ہوا۔ یہ کام ان کی زندگی میں ہوا تھا۔ پھر قصیدوں کے البم بھی بہت چلے۔ اب میں عنقریب ان کی غزلوں کا ایک البم کروں گا۔ ان شا اللہ۔ وہ بھی ایک اچھوتا خیال ہے۔ اس کو بھی سننے میں مزا آئے گا۔ کیوں کہ صحیح معنوں میں راحت کی آواز میں غزلیات کا کوئی کام سامنے نہیں آیا ”۔

”آپ نے خاں صاحب والے البم میں ’سیکسو فون‘ کا خوب استعمال کیا۔ اس کی کوئی خاص وجہ“ ؟ نعیم وزیر نے سوال کیا۔

”میں نے تو ’راک سارنگی‘ بھی بجوائی ہے۔ کہاں ’راک‘ اور کہاں ’سارنگی‘ ۔ سیکسو فون مجھے خود بے حد پسند ہے۔ ہمارے ہاں اس کا استعمال کم ہوا۔ اس کو چھوڑیں! اب آپ ’دلربا‘ ساز کو ڈھونڈیں تو وہ نہیں ملے گا۔ ’تار شہنائی‘ نہیں ملے گی۔ خاں صاحب امجد علی خان کا ’مینڈھ والا سرود‘ نہیں ملے گا۔ اب تو ان چیزوں کا فقدان ہے۔ کوئی میوزک اکیڈمی نہیں“ ۔

”میں ایک اسٹوڈیو میں کام کر رہا تھا۔ چائے کا وقفہ ہوا۔ میں اور ریکارڈسٹ چائے پینے لگے۔ ایک خیال سوجھا۔ میں نے کہا کہ خالی چائے کا کپ جب اکوئسٹک اسپینش گٹار کے تاروں پر پھرا کر دیکھتا ہوں کہ کیسی آواز بنتی ہے۔ تو جناب اس سے جو آواز نکلی وہ ’وچتر وینا‘ جیسی تھی۔ خاں صاحب کا گانا تھا میں نے اسی میں وچتر وینا والا تاثر استعمال کیا۔ ایسا کام بھارتی موسیقار آر ڈی برمن کرتے تھے۔ میں 1983 میں ان کا شاگرد ہوا۔ ہماری اصطلاح میں اس بازیگری کو ’جگلری‘ کہتے ہیں۔

’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو‘ میں گلاس پر چمچ کا استعمال کیا گیا۔ بات جگلری کی ہو رہی تھی۔ ان دنوں اس اسٹوڈیو میں عدنان سمیع آیا کرتے تھے۔ ریکارڈسٹ منیر صاحب نے ایک دن عدنان سمیع سے کہا کہ سنو ارشد بھائی نے ایک ٹون ریکارڈ کی ہے اور میرا گانا چلا کر وہ پیس اس کو سنا دیا۔ وہ حیران ہو گیا کہ وچتر وینا اس نے کیسے بجائی؟ اس پر منیر صاحب نے میری کی گئی جگلری بتلائی۔ عدنان سمیع کہنے لگا کہ میں بھی یہ استعمال کروں گا ”۔

”سیکسوفون پر بات ہو رہی تھی۔ میں نے ’دم مست قلندر مست۔‘ میں اس کو استعمال کیا۔ یہ سیکسوفون میرے بہنوئی بجاتے ہیں جو آج کل راحت فتح علی خان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ میرا چھوٹا بھائی سلمان اشرف بیس گٹارسٹ ہے۔ میرا ایک اور چھوٹا بھائی ندیم ڈرمر تھا۔ وہ ایک ہیرا آدمی تھا۔ اصل میں تو ڈرم میں نے شروع کیا تھا اور اس کی باقاعدہ مشق کرتا تھا۔ وہ بچہ تھا اس نے بھی بجانا شروع کر دیا اور پھر تو وہ ایسا رواں ہوا کہ کچھ نہ پوچھو! پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ہم سب بھائی اپنے والد کے ساتھ میوزشن کی حیثیت سے برطانیہ میں کامیاب شو کر کے آئے“ ۔

”والد صاحب کے انتقال کے بعد کبھی محسوس ہوا کہ گانا پھنس گیا تو ایسے میں والد صاحب خیالوں میں آئے اور کام ہو گیا؟“

”ہر لمحے! کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا جب ان کا احساس نہیں ہوتا۔ پھر کبھی پھنس گئے تو سوچا کہ والد صاحب نے فلانی جگہ پر فلاں راگ استعمال کیا تھا۔ جب اس راگ کو پکڑا تو اللہ نے ایسا کرم کیا کہ کیا بتاؤں! یہ کرم نوازی اور دعاؤں سے ہی ہوتا ہے۔ بندے کا کوئی کمال نہیں“ ۔

”کامیابی ملنے پر والدہ کا کیا رد عمل ہوتا تھا؟“

”میں رات کو کام سے واپس آ کر اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر ان کو سہلاتا اور کہتا تھا کہ اتنی محنت کے با وجود میرا نام نہیں ہو رہا۔ کوئی ایسی دعا کر دے کہ نام ہو جائے۔ وہ بستر پر تھیں۔ ان کو فالج ہو گیا تھا۔ وہ کہتیں تیرا عالمی سطح پر بڑا نام ہو گا، جو ہوا۔“

”موسیقار کی حیثیت سے میرا شروع کا زمانہ تھا۔ فلم ’بلندی‘ ( 1990 ) کے لئے گانا ریکارڈ ہونا تھا۔ میں ابا جی کو گاڑی میں لے کر اسٹوڈیو پہنچا اور بسم اللہ ان سے کروائی۔ مہناز آپا اور اے نیر نے وہ دو گانا ریکارڈ کرنا تھا جس پر مجھے نگار ایوارڈ بھی ملا۔ شان اور ریما کی یہ پہلی فلم تھی اور میری بھی فلاپ ہونے کے بعد پہلی فلم تھی۔ (یہ ایم ارشد کا انکسار ہے حالاں کہ اس کی پہلی فلم“ ذرا سی بات ”( 1982 ) نے کراچی میں گولڈن جوبلی کی۔ یہاں مرکزی سنیما ’لیرک‘ تھا) ۔

”کون سا دن تمہاری زندگی کا یادگار ترین دن ہے“ ۔ میں نے سوال کیا۔

”ایک تو فلم ’بلندی‘ میں اپنے ابا جی کے ہاتھوں اپنے گانے کی بسم اللہ۔ اور دوسرا وہ دن جب میں بے حد مصروف تھا اور مجھے نگار ایوارڈ کی تقریب میں اپنا ایوارڈ بھی وصول کرنا تھا۔ اس دن میں نے اپنے ابا جی سے درخواست کی کہ وہ میرا ایوارڈ وصول کر لیں۔ میں اپنی قسمت پر نازاں ہوں۔ اور دوسری جانب وہ کتنے خوش ہو رہے ہوں گے کہ اپنے بیٹے کا نگار ایوارڈ لے رہے ہیں“ ۔

”وجو صاحب (وجاہت عطرے ) کا عروج کا زمانہ تھا۔ ان کی تلے اوپر تین فلمیں ہٹ ہو گئیں۔ ’سالا صاحب ( 1981 )‘ ، ’چن وریام‘ ( 1981 ) اور ’شیر خان‘ ( 1981 ) ۔ جب کہ وہ ہمارا بڑا نازک دور تھا۔ ہم باپ بیٹا فلموں میں جد و جہد کر رہے تھے۔ ہم بھی خواہش کرتے کہ ہماری بھی پنجابی فلمیں کھڑکی توڑ ثابت ہو جائیں۔ ماں بھی بیمار تھیں۔ حالات بھی کچھ تنگ تھے۔ ایسے میں وجاہت صاحب جب بھی ملتے، میں سلام کرتا وہ جواب نہیں دیتے۔

میں نے ابا جی کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم پھر بھی سلام کیا کرو۔ ایک دن تمہارے سلام کا جواب دیں گے۔ پھر میری فلم ’جیوا‘ ( 1995 ) سپر ہٹ ہوئی۔ لاہور میں پلاٹینم اور کراچی میں سلور جوبلی کی۔ ایک دن وجاہت عطرے ایورنیو کے فوارے کے پاس ملے۔ خوش ہو کر گلے لگا کر کہا کہ آج واقعی تو ایم اشرف کا بیٹا لگا ”۔

”فلم، ریڈیو، ٹی وی اور غیر فلمی گانے ملا کر تم نے اب تک کل کتنے گانے بنائے ہوں گے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

”ماشا اللہ میں نے اب تک سب ملا کر 20,000 گانے بنائے ہیں“ ۔
”پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں کے بارے میں تمہاری کیا پیش گوئی ہے؟“
”دیکھیں مجھے تو اچھی امید ہے۔ تاریکی کے بعد سویرا ہی ہوتا ہے“ ۔
”کوئی پیغام پڑھنے والوں کے لئے؟“

”عروج اور زوال، روپیہ پیسہ، منصب اور جاہ و جلال سب آنی جانی چیزیں ہیں۔ ہر حال میں انسان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور کسی حال میں بھی نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ جو بھی کام کرنا ہے، گھبرائیں نہیں۔ نیت اچھی رکھیں اور دعاؤں کا خیال رکھیں“ ۔
باتیں تو اور بھی بہت سی ہوئیں لیکن جگہ کی تنگی کی بنا پر وہ پھر کبھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3