ڈاکٹر ظفر الطاف کے بغیر پاکستان کے پانچ سال


حالیہ مہینوں میں جب پنجاب سے دو بھائیوں اور ایک باپ بیٹے کو جیل ہوئی تو ڈاکٹر صاحب یاد آئے۔ ہمارے دوست محسن، مربی, ڈاکٹر ظفر الطاف۔

وہ سن 1965 کے سی ایس پی تھے۔ کرکٹ ٹیم کے سیلکٹر تھے۔ پی سی بی کے چیئرمین تھے۔ چئیرمن پاکستان زراعت کونسل تھے اور کئی دفعہ کے سیکرٹری وزارت زراعت۔ ان دنوں معتوب ان دو سیاسی جوڑیوں کا منصوبہ تھا کہ کسانوں کی تنظیم ہلہ۔ پنجاب کی زمین پر بھائی قبضہ کر لیں کیوں کہ وہ شہر کے وسط میں آ گئی تھی۔ بیٹے کو جس کے نام میں “ککڑی” گھس گئی ہے اس نے سوچا کہ اتنی عمدہ ملک پروسیسنگ مشنری ہے۔ کیوں نہ اسی (80) کروڑ کی اس امداد باہمی کے تحت خریدی گئی مشینری پر مفت میں قبضہ کر کے اسے اپنے دودھ کے کاروبار میں شامل کر لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کو بہت دھمکیاں ملیں۔ بڑھاپے میں بے چاروں پر اینٹی کرپشن نے جھوٹا مقدمہ بھی بنایا کہ سب کچھ ان چار بدمعاشوں کے حوالے کردیں۔ اس سے پہلے احتساب بیورو کے سیف الرحمن کی جانب سے گھر پر گمنام کالیں آیا کرتی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسی ہی ایک کال کے دوران عصمہ بھابی کو دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہوپائیں۔ ان کی موت پر ہم سے ڈاکٹر صاحب کے اشک بھلائے نہیں بھولتے۔ اس مقدمے میں گزشتہ ہفتے انہیں بری کر دیا گیا کہ یہ بدنیتی اور حقائق سے روگردانی کر کے بنایا گیا ہے۔ انتہائی قابل اور مرحوم افسر کے بارے میں بدعنوانی کا کوئی معمولی سا شبہ نہیں۔ وہ تو ماہانہ اس ادارے سے ایک روپیہ تنخواہ لیتے تھے۔ لاکھوں کسانوں کی زندگی میں انمول انڈیا کی طرز کا انقلاب لائے۔ لیجئے، خود سے دیکھ لیجئے کہ لاہور کی اینٹی کرپشن عدالت کے خصوصی جج راجہ محمد ارشد نے فیصلے میں کیا لکھا ہے:

ظفر الطاف ڈپٹی کمشنر ساہیوال تھے۔ سن تھا 1977۔ چیف سیکرٹری مسعود نبی نور ان سے ناراض ہوئے۔ بڑے صاحب ان سے کچھ ایسے کام لینا چاہتے تھے جو ڈاکٹر کرنے پر کبھی بھی رضامند نہ ہوتے۔ ان میں سے ایک کام بے نظیر صاحبہ کو ساہیوال آمد پر گرفتار کر کے آزار پہنچانا تھا۔ ہم سے پوچھا کیا کروں؟ ہم نے کہا اسے اپنے ضلع میں آنے نہ دیں۔ ذہین عورت ہے۔ اچھی انگریزی کی شیدائی، کتاب کی شوقین۔ شبدھ شبھ باتیں کر کے باہر سے پھیر دیں۔ پوچھنے لگے ’مان جائے گی؟ ہم نے کہا ہماری اماں جان کہتی تھیں ”مرد کی باتیں نمک ہوتی ہیں اور عورت کچا دودھ۔ دودھ میں نمک گر جائے تو دودھ پھٹ جاتا ہے“۔ داخلے سے روکے جانے پر بے نظیر نے ہلکا پھلکا شور شرابا کیا۔ خاموشی سے اس مرد بے نیاز کے اوصاف نوٹ کیے اور لوٹ گئیں۔ جان رکھیئے کہ عورتیں ہمہ وقت یادوں کی بستی میں خیمہ زن رہتی ہیں۔ اسی لیے وہ آپ سے بار بار مختلف اوقات میں ایک سے سوال پوچھتی رہتی ہیں تاکہ آپ کے سچ جھوٹ کی پکڑ کرسکیں۔ آپ کا بیانیہ کتنا تبدیل ہوا ہے، وہ اس تکرار سے جانچتی ہیں۔ بے نظیر صاحبہ کے یوں بچ کے نکل جانے پر مسعود نبی نور کی کھنچائی ہوئی۔ پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹنٹ جنرل محمد اقبال خان تک بھی خسروئے خود ساختہ کی تنک مزاجی کی تپش پہنچی۔

فیصلے کی گھڑی آئی کہ لاہور کے کوئے دار سے نکلے ہیں تو سوئے یار کہاں ڈھونڈیں۔ انہیں پنجاب چھوڑنے پر قلق تھا ہم نے دوبارہ گجراتی اماں جی کے Folk –Wisdom کے حوالے سے یہ بات سمجھائی کہ ”درزی کا بیٹا ہے جب تک جیئے گا، تب تک سئیے گا“

پینتیس سال کی نوکری میں پینتیس پوسٹنگز ہوں گی۔ جیوے میرا بھائی تے گلی گلی بھرجائی۔ غم کاہے کا؟ مشورہ دیا اسلام آباد چلے جائیں کیوں کہ اب آپ کا پنجاب میں رہنا قرین مصلحت نہیں۔ ان کے سب سے محترم رفیق، پاکستان کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار کی بے حد نستعلیق اور زیرک، طاقتور مگر کنوارے کیبنٹ سیکرٹری اعجاز نائیک سے بہت گہری دوستی تھی۔ انہوں نے خاموشی سے ظفر صاحب کو اپنے پاس ڈپٹی سیکرٹری کیبنیٹ لگا دیا۔ ہم ان کے سیکشن افسر تھے۔ ڈاکٹر صاحب چند دنوں بعد وہاں سے پی ایچ ڈی کرنے برمنگھم یونی ورسٹی چلے گئے۔ ان کی تعلیم کا گراف دیکھیں تو ان کی گریجویشن فزکس، ماسٹر نفسیات میں اور ڈاکٹریٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس میں تھی۔

برمنگھم سے واپسی پر ہم نے نوٹ کیا کہ کمر جھک گئی ہے۔ مزاج میں تلخی بڑھ گئی۔ اب ان کی آواز بھی بلند ہو جاتی تھی۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ کراچی میں سیٹھ احمد داؤد مرحوم اور ایسے بڑے بڑے سیٹھوں سے ریسرچ کی خاطر بالمشافہ ملاقاتیں رہیں۔ ہم اور جاوید لطیف ان کے ساتھ ہوتے۔ احمد داؤد کی سادگی لباس و گفتار سے بہت متاثر ہوئے۔ اس سوال پر بہت شائستہ سی گرما گرمی ہو گئی کہ ان کی دولت اور آمدنی کا کتنا حصہ کار خیر اور رفاہی سرگرمیوں میں جاتا ہے۔ سیٹھ صاحب کا جواب آمدنی کے تناظر میں ڈاکٹر صاحب کو کم لگا تو وہ کہنے لگے کہ کماتے پاؤنڈز میں ہیں، غریبوں پر خرچ کوڑیوں کے حساب سے کرتے ہیں۔ سیٹھ صاحب کہنے لگے کہ یہ سوال جب آپ پنجاب، سندھ اور فرنٹیئر کے جاگیرداروں اور رؤسا سے کریں گے تو آپ کو لگے گا کہ ہم سات لاکھ کی کل آبادی والے میمن جو راہ اللہ خرچ کرتے ہیں اس کا ایک چوتھائی بھی باقی پاکستان کے وڈیرے اور جاگیردار نہیں کرتے۔ میٹنگ سے باہر نکلے تو ڈاکٹر صاحب کچھ رنجور تھے۔ کہنے لگے تمہاری طرف کے لوگ ایسے Ethnic ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا سر آپ جان لیں کہ دھندے کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، کوئی زبان نہیں ہوتی۔ جب تیل کی آمدنی سے پیٹرو ڈالر کے بوجھ کی وجہ سے عربوں کے ثوب کی جیبیں پھٹنے لگیں تو لندن کے پلے بوائے کلب کی ہر ویٹریس (Bunny) ہمارے اکثر سیاسی مذہبی رہنماؤں سے اچھی عربی بولتی تھی۔ ان کا مینو اور کیسینو کے ٹوکن تک عربی میں ہوتے تھے۔ مسکرا کر کہا You make few jobs very light (تم بات کو سہل کردیتے ہو)۔

ڈاکٹر صاحب کو یہ احساس بہت شدید تھا کہ صنعت کار اور تاجر پاکستان کو لوٹ رہا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جنرل آصف نواز نے چھ سو پچاس لوگوں کی ایک فہرست بنائی ہے جنہوں نے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے جس میں وہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز اسوسی ایشن، سمینٹ والے، چینی والے، خوردنی تیل کے امپورٹرز اور کاریں بنانے والوں کے کارٹیل ہیں۔ اس میں پہلے کارٹیل پر انہوں نے اس وقت ہاتھ ڈالا جب وہ سیکرٹری وزارت زراعت و خوراک بنے۔ یہ خوردنی تیل کے امپورٹرز کا کارٹیل تھا۔ ان کی آپس میں دو بڑی لابیاں ہر وقت ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی تھیں۔ ایک سویا بین کے تیل کی امریکن لابی دوسری پام آئل امپورٹر کی لابی۔ دونوں لابیز کے پرنسپل سیکرٹری صاحبان سے بہت تعلقات تھے۔ ہر تجویز جو وزارت خوارک و زراعت (MINFAL) وہ اس تبصرے کے ساتھ لوٹا دی جاتی کہ

  Seen by the Prime Minister۔ Please keep pending.

وزیر اعظم چوہدری محمد علی اور سیٹھ احمد داؤد

ایسا نہ ہوتا تو سیکرٹری وزارت خزانہ معین افضل کو اسے خجل خوار کرنے کا ہدایت نامہ زبانی جاری کر دیا جاتا۔ وہ کسی طور خوردنی تیل کی امپورٹ کم کرنے اور اس کے بیج کی مقامی کاشت میں خود کفیل ہونے کے حامی نہ تھے۔ وزیر اعظم اگر نواز شریف اور بعد کو آنے والے سربراہان کی طرح عمدہ تجاویز پر مشتمل سمری کی فائل کو پلٹنے کے لیے توجہ کا اتنا تھوک لگانا بھی ضروری نہ سمجھتا ہو جتنا ریورس سوئنگ کے وقت گیند کو لگانا مناسب جانتا تھا تو کبھی دوائیں مہنگی تو کبھی ڈالر مہنگا، کبھی چینی غائب تو کبھی آٹا گیلا ہو رہا ہوتا ہے۔ بازار میں طاقتور لابیز اپنے مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے لیے ڈالروں کے تھیلے لے کر رشوت دینے کے لیے گھوم رہی ہوتی ہیں۔

وونوں لابیوں کی کوشش یہ رہتی تھی کہ پاکستان میں خوردنی تیل کے بیج کی کاشت فروغ نہ پائے۔ سرسوں، سورج مکھی۔ تل، مکئی اور اس طرح کی دیگر فصلوں کے لیے پاکستان کی آب و ہوا بہت ساز گار تھی۔ پاکستان میں ہر سال ہر فرد 17 کلو گرام تیل کھا پی جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں خوردنی تیل کے استعمال کا تیسری بڑی مقدار ہے سن 2017، میں ہم نے 3.05 ملین ٹن درآمد کیا 76.2 فیصد سویا بین کا تیل ہے 23 فیصد پام آئل جن کی کل مالیت$ 3.24 بلین ڈالر ہے۔ جان لیجیے کہ سن 1993 میں ڈاکٹر صاحب کو اس بلاوجہ کے مالی بوجھ کا ادراک تھا۔ ان نے اور نواب یوسف ٹالپر وزیر زراعت نے بے نظیر صاحبہ کو سمجھایا کہ اگر نوکریاں تشکیل دینی ہیں، کسان کو خوش حال بنانا ہے اور زر مبادلہ کی بچت کرنی ہے تو ہمیں  Edible Oil کی کاشت کو ان رقبوں میں پھیلانا ہوگا جہاں پا نی کی کمی ہے۔ جہاں اپنی آسانی سے دستیاب ہے وہاں آئل پام کی کاشت کرنی ہوگی۔

ہم ان دنوں جنوبی افریقہ سے شیشلز جانے کے منصوبے بنارہے تھے۔ حکم ملا سارا پروگرام لپیٹ کر ملائشیا پہنچیں۔ ڈاکٹر یوسف بیسران جن کا ملائشیا میں وہی درجہ تھا جو سعودی عرب میں پٹرولیم منسٹر کا ہوتا ہے وہ ان کے ادارے Palm Oil Research Institute of Malaysia (PORIM)  کے سربراہ تھے۔ ہم منمنائے کہ کہاں گریڈ اٹھارہ کا ایک معمولی سرکاری ملازم اور کہاں ملائشیا کے ڈاکٹر یوسف۔ ہم نے تو آئل پام کا پودا تک نہیں دیکھا۔ کہنے لگے تمہارا ویزا آن ارایول ہے۔ مہمانداری کے دیگر لوازامات قسمت وتی وتی (اپنی اپنی قسمت)۔

جیب میں جو اماں جی کے دیے ہوئے حج سے واپسی پر بچائے ہوئے کل دو سو ڈالر تھے وہ موجود تھے۔ جنوبی افریقہ کے میزبان ہمیں پلکوں پر رکھتے تھے۔ سو خرچہ نہ ہوا۔ ڈاکٹر یوسف بیسران سے ملاقات ہوئی تو ان نے پوچھا کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم تمہارے ہاں آن کر آئل پام کی کاشت کریں۔ ہم نے کہا جاپان تو ملائشیا سے 3,188 میل کی bird fly ہے پھر وہ اپنی ٹویوٹا، نیشنل، ٹوشیبا، ہٹاچی یہاں بناتا ہے۔ آپ کے ہاں افرادی قوت بہت کم ہے جب کے ہمارے ہاں مولانا طارق جمیل اور چیف جسٹس کی کوششوں کے باوجود کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا۔ سو پاکستان میں ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی نظر آتا ہے۔ فون اٹھایا کہنے لگے ڈاکٹر طیب، ڈاکٹر جیلانی آپ ان کے ساتھ کل فلائی کر جاؤ۔ ہم نے کہا ہم جیمز بانڈ کی طرح ہر مشن میں کامیابی پر کچھ عیاشی کے عادی ہیں۔ اپنی دفتر کی افسر روحانہ کو بلایا کہ Pack him to Langkawi۔

وزیر اعظم بے نظیر کے دفتر میں جب اس پراجیکٹ کی سمری پہنچی تو چند گھنٹوں میں وہ کراچی کی آئل امپورٹر کی لابی میں فوٹو کاپی کی صورت میں گردش کررہی تھی۔ ہمیں ملائشیا میں کسی افسر نے بتایا کہ کراچی میں صرف ایک فرم ایسی ہے جسے indenting پر فی ٹن پانچ ڈالر ملتے ہیں۔ وہ تین لاکھ ٹن کی انڈینٹنگ یعنی سپلائی (یعنی سالانہ پندرہ لاکھ ڈالر کچھ کیے بغیر بطور سلیپر سیل کے) اور تین لاکھ ٹن خود دیگر فرموں کی نسبت انتہائی نرم شرائط پر امپورٹ کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو شبہ تھا کہ یہ سمری وزیراعظم کے دفتر سے لیک ہوئی ہے مگر ہمارے میمن کنکشن نے بتایا کہ یہ سمری وزارت زراعت کے کسی افسر نے کراچی فیکس کی تھی۔ اس امپورٹر لابی نے ریاض ملک بحریہ والوں کے الفاظ میں پہیے لگا کر اس سمری کو سرد خانے میں ڈلوا دیا۔

ڈاکٹر صاحب چونکہ کسی کو بھی برا سمجھنے کے عادی نہ تھے اور انہیں ہم انسان کو پرکھنے کے معاملے میں بہت غیر حقیقی نقطۂ نظر کا مالک سمجھتے تھے لہذا انہوں نے ہماری تجویز کے برخلاف وہاں زرعی افسران کی ایک لابی کے کہنے پر آئل سیڈ ڈیولپ منٹ بورڈ کراچی کی بجائے اسلام آباد میں بنایا۔ دکھ بھی ہوا کیوں کہ چیف سیکرٹری سعید صدیقی صاحب کو ہم بہت پسند تھے۔ وہ ہمیں سندھ میں ڈپٹی کمشنر بنانا چاہتے تھے اور ڈاکٹر صاحب ناہید خان سے کہہ کر ہمیں زبردستی اسی پراجیکٹ کے لیے سندھ حکومت سے لے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے گرد چمٹے ان افسران میں انتظامی صلاحیتیں سرے سے مفقود تھیں۔ ہم نے واپسی کی اجازت بھی مانگی بلکہ کراچی کے کمشنر ضیا الاسلام صاحب نے تو ڈاکٹر صا حب کو بہ نفس نفیس درخواست بھی کی کہ دیوان رنجور ہے۔ یہاں میرے پاس اس کے لیے بہت موزوں پوسٹنگ ہے۔ اسے ریلیز کردیں۔ نہ مانے۔ ڈاکٹر صاحب کی افسرانہ زندگی میں اکثر دشواریاں ان کی کرپشن کے بارے میں غیر محتاط گفتگو کے باعث پیدا ہوئیں۔ حتی کہ نگران وزیر زراعت شفقت محمود جو ان کے ماتحت رہے تھے، وزیر اعظم معراج خالد جن سے ڈاکٹر صاحب کے خاندانی مراسم تھے اور صدرفاروق لغاری جو ان کے ذاتی دوست تھے۔ ان سے سے بگاڑ کا باعث پی او ڈی بی کا یہ کرپٹ ٹولہ بنا۔

ڈاکٹر صاحب ملک میں خوراک کی قلت بالخصوص دودھ اور گوشت کی عدم دستیابی سے بھی واقف تھے۔ وہ متبادل خوراک کے بارے میں بہت واضح نظریہ رکھتے تھے۔ بے خبر گورنر اسٹییٹ بنک عشرت حسین سے ملنے گئے تو ان کی توجہ اس جانب دلائی کہ زرعی ترقیاتی بنک جولائیو اسٹاک کو قرضہ دیتا ہے وہ انڈسٹری کی نسبت اونٹ کے منھ میں زیرے جتنا ہے یعنی عشاریہ زیرو پانچ فیصد جب کہ اس شعبے سے حاصل ہونے والی آمدنی چینی، سمینٹ اور ٹیکسٹائل سے زائد ہے۔ گورنر صاحب ماننے پر تیار نہ تھے تو ہم نے ڈاکٹر صاحب کو خاموشی سے اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ پکڑا دی جس میں یہ اعداد و شمار درج تھے۔ اندازہ لگایے کہ سن دو ہزار بارہ میں بھی یہ رقم اس قرضے کا کل سترہ فیصد تھی جو زرعی شعبے کو دستیاب تھا جب کہ اس شعبے کی آمدنی زرعی آمدنی کا کل ساٹھ فیصد کے قریب تھی۔

اپنی اس تگ و دو میں ڈاکٹر صاحب نعم البدل خوراک اور مارجینل کراپس کے بھی بڑے کھوجی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں غریب آدمی کی خوراک میں گوشت کی کمی کو وہ کھیتوں میں پانی کے کھالوں، نالوں میں پلنے والی تھائی لینڈ کی tilapia fish  سے پورا کریں۔ اس مچھلی کو پالنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی اور یہ مچھروں کی بھی دشمن ہے۔ اس کے ساتھ وہ انگورا خرگوش اور بیجنگ بطخ کو بھی بطور خوراک متعارف کرانے کے لیے سرگرداں تھے۔ انگورا خرگوش کا گوشت لذید اور اون مہنگی ہوتی ہے۔ چکن کی نسبت بطخ کے گوشت میں کلوسٹرول کی مقدار گو زیادہ ہوتی ہے مگر چکن کی نسبت بطخ کا گوشت زیادہ صحت بخش ہے۔ انگورا خرگوش کے لیے تو انہوں نے زرعی تحقیقاتی کونسل کی کسی افسر کو بھی نیپال بھیجا تھا۔ ہم نے نیپال واپسی پر کسٹم والوں کو کہہ کر اس کے انگورا خرگوشوں کی ایک جوڑی بھی ڈاکٹر صاحب کے حکم پر اس سمیت کلیئر کرائی تھی۔ کسٹم والا نوجوان اسسٹنٹ کلکٹر معترض تھا کہ جوڑی میں تین شامل نہیں ہوتے۔ ہم ایک آئٹم زیادہ لے جا رہے ہیں جب کہ کلکٹر صاحب کا حکم تھا کہ ہمیں وی آئی پی پروٹوکول دینا ہے

زندگی کے بارے میں عمران خان کی طرح ڈاکٹر صاحب کے اکثر حوالے کرکٹ والے تھے۔ کرکٹر وقتی طور پر بہت فوکسڈ ہوتا ہے مگر ایک شاٹ ایک بال ایک کیچ تک۔ ڈاکٹر صاحب اپنی اس عجلت اور روا روی میں منصوبوں پر یکسوئی سے عمل نہیں کرتے تھے۔ کبھی شنکیاری (ایبٹ آباد) میں چائے اگانے کے چکر میں پڑجاتے تھے تو کبھی چولستان میں اونٹ کے دودھ کے پراجیکٹ میں تو کبھی رزمک (وزیرستان) میں زیتون کے پودے کی کاشت کے پیچھے گھومتے رہتے تھے۔ ایسے میں انہیں کوئی نہ کوئی لوزر، چرب زبان افسر شیشے میں اتار لیتا تھا اور پراجیکٹ اپنی تحویل میں لے کر مال بنانے کے چکر میں پڑجاتا تھا۔

جس طرح عمران خان کو زلفی بخاری اور اعظم سواتی میں کوئی برائی نہیں دکھائی دیتی تھی اس طرح ڈاکٹر صاحب کو بھی آئل پام۔ سیلی کورنیا، براؤن رائس، انگورا ریبٹ، ڈک فارمنگ جیسے پراجیکٹ شروع کر کے اس طرح کے افسران کے حوالے کر دینے میں قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے انہیں ایک سی ایس ایس کی طرز پر ایگریکلچر سروس آف پاکستان شروع کرنے کا کہا جس میں افسران مقابلے کے امتحان کے بعد بھرتی ہوں اور مسلسل تربیت کے مراحل سے گزریں۔ ممکن ہے وہ ہماری تجویز پر عمل پیرا ہوتے مگر ڈاکٹر صاحب کے دشمن انہیں یکسوئی سے کام کرنے کی مہلت نہ دیتے تھے۔ ان کی وزارت زراعت میں آمد و رفت Revolving Door کے ذریعے لگی رہتی تھی۔

ایک دوپہر ان کے پی اے انور کا فون آیا کہ ہم سامان اٹھائیں اور فوراً ائر پورٹ پہنچیں ہمارا کوئٹہ کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب کے پاس موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی روٹ کنال کی وجہ سے ڈاڑھ سوجھ گئی ہے۔ سردار عاطف سنجرانی کو وقت دے بیٹھے تھے اس لیے پروگرام بدلنے کے حامی نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا خصوصی حکم ہے۔ ان کے لیے دالبدین میں کوئی پراجیکٹ ڈیزائن کرنا ہے۔ ہم البتہ تیار سوپ کے کئی ساشے ساتھ رکھیں کہ وہ کوئی ٹھوس غذا کھانے کی پوزیشن میں نہیں۔

یاد رہے کہ دالبدین ضلع چاغی کا علاقہ ہے جہاں سنجرانی قوم آباد ہے۔ چاغی پاکستان اور بلوچستان کی سب سے بڑی ڈسٹرکٹ ہے۔ ایک تکون کی صورت میں اس کے ایک جانب افغانستان تو دوسری جانب ایران ہے۔ دو لاکھ کی آبادی کے اس علاقے کی چوتھائی آبادی افغان مہاجرین پر مشتمل ہے۔ سیندک اور ریکو ڈگ کی تانبے اور سونے کے ذخائر بھی اسی علاقے میں واقع ہیں۔ پنتالیس ہزار مربع کلو میٹر کا یہ علاقہ خیبر پختون خواہ کا رقبے کے حساب سے نصف بنتا ہے۔ زمین ہموار ہے اور زیر زمین پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔

جہاں جاتے خوب خاطر مدارات ہوتیں مگر ہم بیگ میں سے ساشے نکال کر دیتے تو ڈاکٹر صاحب کے لیے گرم پانی میں انڈیل کر اس کا سوپ بن جاتا۔ ڈی ایم جی کے خوش پوش افسر جو وہاں چاغی کے ڈپٹی کمشنر تھے وہ ہمیں کہنے لگے کہ ڈی سی ہو کر میں نے یہ علاقہ اتنی تفصیل سے نہیں دیکھا جتنا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دیکھنا پڑرہا ہے۔ واپسی پر ہم دونوں نے ایک سمری بنائی جس میں پچاس کروڑ روپے کی رقم کے عوض ایک ایسا پروجیکٹ اس علاقے میں شروع کرنا تھا جو پورے پاکستان کی گوشت، کھانے کے تیل، روئی اور پھلوں کی تمام تر ضروریات پوری کرے گا۔ اس کے لیے تنخواہیں، ملازمین اسی نوعیت کے ہوں گے جیسے مشرق وسطی میں oil rigs پر ہوتے ہیں۔

سمری گئی تو وزیر اعظم نواز شریف کے پاس وقت نہ تھا اور ڈاکٹر صاحب کے دشمن کم نہ تھے۔

اب اس بات کو بیس برس ہونے کو آتے ہیں نہ پاکستان کی کھانے کی تیل میں خود کفالت ہو پائی ہے نہ کہیں چائے، نہ زیتون، نہ انگورا خرگوش، نہ مچھلی، بطخ، نہ وافر مقدار میں دودھ نہ پام آئل کے منصوبے۔ یہ ہمارے علم میں نہیں کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی روز مرہ لپا ڈگی میں اس بات کا اہتمام ہے کہ نہیں کہ آج تک کی جملہ سمریوں اور اجلاسوں کے منٹس سنبھال کر رکھے جائیں۔ ہم اگر سیکرٹری کیبنیٹ ہوتے جو حکومت کا سب سے اہم افسر ہوتا ہے تو سب سے پہلے پرنسپل سیکرٹری کے دفتر کی غیر ضروری اہمیت اور چمتکار کے پر کترتے۔ سرکار کی ہر سمری کیبنٹ سیکرٹری کے ذریعے وزیر اعظم کے پاس جاتی۔ اسی سے مشاورت ہوتی۔ گریڈ بیس کا ایک جوائنٹ سیکرٹری وزیر اعظم ہاؤس کا انتظام چلاتا۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی چائنا کٹنگ ختم کر دیتے۔

روایت نہیں مگر عمران خان نے جب عنان حکومت سنبھالی تھی ہم نے مفت مشورہ دیا تھا چاہیں تو نواب یوسف ٹالپر کو جو پی پی کے ایم این اے ہیں مفاد عامہ میں اپنا وزیر زراعت مقرر کر سکتے ہیں۔ وہ بے نظیر کے وزیر زراعت تھے۔ مزاج میں کمال کا تحمل اور رکھ رکھاؤ ہے۔ قابلیت بھی بے پناہ اور Conflict Managment کا شعور غیر معمولی۔ ایسا نہ ہوا۔ ایسا صرف ابراہم لنکن کر سکتا تھا۔ آپ اگر ڈورس گوڈون کی کتاب۔ Team of Rivals پڑھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ یہ تو بنیاد میں بم رکھنے والی بات ہے۔ ابراہام لنکن کے پارٹی صدارت کے عہدے کے لیے تین بڑے مخالف امیدوار تھے سیورڈ، چیس اور بیٹس۔ جب لنکن کو عہدے کے لیے پارٹی کا امیدوار چن لیا گیا تو انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد سی ورڈ کو وزیر خارجہ، چیس کو وزیر خزانہ (بعد میں امریکہ کے چیف جسٹس بھی بنے) اور بیٹس کو اٹارنی جنرل لگا دیا۔ آپ کو ہمارا سلسلہ گوڈ فادریہ کا ورد یاد ہے نا۔ دوستوں کو دل کے قریب رکھو مگر دشمنوں کو اور بھی قریب رکھو

ڈاکٹر ظفر الطاف پانچ دسمبر 2015 میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اور 25 ستمبر 2020 کو انہیں ہلہ مقدمے میں بری کر دیا گیا۔ اے بے گنہی گواہ رہنا۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan