سعودی عرب کی جانب سے ترکی کے معاشی بائیکاٹ کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں


ول

مسلم دنیا کی دو بڑی طاقتوں سعودی عرب اور ترکی کے درمیان تلخیاں جاری ہیں اور ایسے میں بعض ماہرین یہ کہتے نظر آتے ہیں اور یہ قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ دونوں ممالک مشرقی وسطیٰ میں اپنا غلبہ چاہتے ہیں۔

لیکن اب دونوں ممالک کی جانب سے جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے ان کے سٹریٹیجک رشتے نئی سمت میں جاسکتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ایک بیان کے بعد سعودی عرب کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ نے ہر سطح پر ترکی کا بائیکاٹ کرنے کے لیے کہا ہے۔

چند روز قبل سعودی چیمبر آف کامرس کے چیئرمین عجلان العجلان نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہر سعودی شہری چاہے وہ تاجر ہو یا سرمایہ کار، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترکی کا ہر طرح سے بائیکاٹ کرے۔ چاہے وہ درآمدات کی سطح پر ہو، سرمایہ کاری یا پھر سیاحت کی سطح پر۔ یہ قدم ہمارے لیڈروں، ہمارے ملک، ہمارے شہریوں کے خلاف ترکی کی حکومت کی مسلسل مخالفت کے جواب میں اٹھایا گیا ہے‘۔

سعودی چیمبر آف کامرس کے سربراہ کی جانب سے اس ٹویٹ کی وجہ؟

حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ترکی کی جنرل اسمبلی میں کہا تھا کہ خلیح کے بعض ممالک ترکی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایسی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے.

اردوغان

اس کے بعد انھوں نے طنزیہ انداز میں کہا تھا ’یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو ممالک آج سوالوں کے گھیرے میں ہیں وہ کل تک وجود میں بھی نہیں تھے اور شاید آنے والے کل ميں وہ موجود بھی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ کی مرضی سے ہم اس خطے میں اپنا پرچم لہراتے رہیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی اور یونان کے درمیان بحیرۂ روم میں بڑھتی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟

کیا انڈیا نے سعودی عرب کو پاکستان سے چھین لیا ہے؟

ارطغرل:صدر اردوغان کی اسلامی قوم پرستی کا ہدف سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی ہے؟

صدر اردوغان کے اس بیان کا مطلب یہ نکلا گیا کہ انھوں نے براہ راست سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ سعودی عرب 1932 میں وجود میں آیا تھا۔

بائیکاٹ کا کچھ اثر ہوگا؟

سعودی عرب کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ اپیل کتنی مؤثر ثابت ہوگی ابھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن اگر سعودی شہری اور تاجر اس اپیل پر عمل کرتے ہیں تو ترکی اس سے متاثر ہوسکتا ہے۔ اس کی اہم وجہ ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں مسلسل گراوٹ ہے۔

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ترکی کی کرنسی لگاتار آٹھویں برس گراوٹ کا شکار ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں اس کی قیمت میں 80 فیصد گراوٹ درج کی گئی ہے۔

اردوغان

مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر قمر آغا کہتے ہیں کہ اگر اس اپیل پر عمل ہوا تو ترکی پر اثر پڑسکتا ہے کیونکہ ترکی میں سعودی عرب کی تقریباً ایک ہزار نجی کمپنیاں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں سعودی سیاح ترکی جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’ترکی اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی اختلافات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس میں علاقائی سطح پر یمن، لیبیا، عراق اور سوڈان سے متعلق سیاسی اختلافات تو ہیں لیکن ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کی نمائندگی سے متعلق بھی رسہ کشی جاری ہے‘۔

قمر آغا مزید کہتے ہیں کہ سعودی حکومت نے ابھی تک ترکی کا بائیکاٹ کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن اگر سعودی حکومت اس طرح کا کوئی فیصلہ کرے گی تو بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی اسی نویت کا فیصلہ کر سکتے ہیں جس کے بعد ترکی کی مشکلات بڑھ جائیں گی ۔

ترکی اور سعودی عرب کے درمیان کتنی تجارت ہوتی ہے؟

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سال کی دوسری سہ ماہی میں کل درآمدات کے معاملے میں ترکی سعودی عرب کا بارہواں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ترکی سے سعودی عرب ہونے والی درآمدات کی کل مالیات 18 کروڑ ڈالر تھی جو بڑھ کر جولائی میں 18 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

انقرا کے یلدرم یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر عمیر انس کہتے ہیں کہ یہ اپیل سعودی عرب کی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میں اس لیے اس کو ایک مایوسی بھرا قدم کہوں گا کیونکہ اس اقتصادی بائیکاٹ کو قانونی طور پر عمل میں لانے کے لیے تجارت کے عالمی ادارے ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے متعدد قوانین کی خلاف ورزی کرنی ہوگی۔ اگر قطر کی طرح سعودی حکومت ترکی کا اقتصادی بائیکاٹ کرتی ہے تو ترکی اسے ڈبلیو ٹی او میں چیلنج کرے گا۔ جس طرح سے قطر کے معاملے میں ڈبلیو ٹی او نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا تھا ویسا ہی فیصلہ ترکی کے حق میں سنایا جاسکتا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا ’ڈبلیو ٹی او کے قانون کے مطابق آپ کسی ملک کا افتصادی بائیکاٹ تب تک نہیں کرسکتے ہیں جب تک قومی سلامتی کا کوئی بڑا مسئلہ در پیش نہ ہو۔ میرے خیال سے اقتصادی بائیکاٹ کی یہ اپیل سیاسی داؤ ہے ایسا ترکی پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عوام اس پر کتنا عمل کرتے ہیں‘۔

عمیر انس مزید کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان سالانہ پانچ ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جس میں ڈھائی ارب ڈالر ترکی کی جانب سے اور ڈھائی ارب ڈالر سعودی عرب کی جانب سے ہوتی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں ’ترکی سعودی عرب سے زیادہ تر تیل خریدتا ہے جبکہ بہت سے چيزیں وہ سعودی عرب کو برآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب کے لوگوں کی ترکی میں بہت سرمایہ کاری ہے۔ ان کے گھر اور کمپنیاں یہاں پر ہیں اور گزشتہ برسوں میں سعودی افراد نے تقریباً 5 سے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے‘۔

وہ کہتے ہیں ‘سیاحت کی غرض سے ترکی آنے والوں میں سعودی شہریوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ ہر سال تقریباً 8 لاکھ سعودی سیاح ترکی آتے ہیں۔ سعودی عوام اس صورت میں ترکی کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں اگر اس سے متعلق کوئی قانون بنتا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس اپیل کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا’۔

رشتے خراب ہونے کب شروع ہوئے؟

ترکی اور سعودی عرب کے درمیان رشتے خوشگوار نہیں ہیں اور اس تلخی کی حالیہ شروعات 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کی بعد ہوئی تھی۔

خاشقجی کی ہلاکت کے لیے اردوغان سعودی عرب کی ‘اعلیٰ قیادت’ کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ حال ہی میں خاشقجی کے قتل کے معاملے کے پانچ مجرموں کی سزا میں تبدیلی سے بھی ترکی ناراض ہے۔

جمال خاشقجی

خاشقجی کی ہلاکت کے لیے اردوغان سعودی عرب کی ‘اعلی قیادت’ کو ذمہ دا ٹھہراتے رہے ہیں۔

ستمبر میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے خاشقجی کے قتل میں ملوث پائے گئے پانچ افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق استغاثہ کا کہنا تھا کہ صحافی کے خاندان کی جانب سے انھیں معاف کیے جانے کے بعد انھیں 20 سال قید کی سزا دے دی گئی ہے۔

ترکی نے گزشتہ ہفتے اس معاملے میں چھ سعودی ملزمان کے خلاف مقدمہ شروع کیا ہے۔ ان میں کوئی بھی ملزم ترکی میں نہیں ہے اور ان کی غیر موجودگی میں یہ کیس شروع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خاشقجی کی ہلاکت کے معاملے میں 20 سعودی شہریوں کے خلاف استنبول کی عدالت میں بھی مقدمہ چل رہا ہے۔

بحرین اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات

ترکی کے صدر عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور سفارتی رشتے بحال ہونے پر بھی ناخوش ہیں۔

حال میں امریکہ کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور باہمی سفارتی رشتوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی رضا مندی کے بغیر ان ممالک کا یہ اقدام ممکن نہیں۔

لیکن ستمبر کے شروع میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے صدر ٹرمپ پر واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آئیں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ ہو جائے۔

ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کا مستقبل

عمیر انس کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ترکی جیسے ملک کے ساتھ طویل وقت تک اپنی تلخی برقرار رکھے۔ اس کی وجہ ترکی کی نیٹو میں شمولیت اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’خاشقجی کے معاملے کو بھول جائیں تو ترکی اور سعودی عرب کے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا ہے جس سے دونوں کے درمیان رشتے خراب ہوں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کا جب تک سعودی عرب میں شاہ سلمان ہیں اور ترکی میں اردوغان ہیں تب تک دونوں کے درمیان رشتے خراب نہیں ہوسکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک پہل کی جانی باقی ہے۔ کیونکہ فی الوقت رشتے خراب ہیں لیکن ابھی ان کے ٹوٹنے یا ختم ہونے کا وقت نہیں آیا ہے‘۔

अर्दोआन

اس کے علاوہ عمیر انس اس بات سے بھی متفق نہیں کہ ترکی خود کو مسلمان ممالک کا لیڈر ثابت کرنا چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے ’ترکی کی خارجہ پالیسی اور اس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہ کہنا زیادہ درست نہیں ہوگا کو وہ مسلمان ممالک کا لیڈر بننا چاہتا ہے۔ ترکی کی خود کو ہمیشہ ایک یورپی ملک کے طور پر قبول کرانے کی خواہش رہی ہے اور اس کا مقابلہ مصر اور ایشیاء سے نہیں بلکہ جرمنی، فرانس اور باقی یورپی ممالک سے رہا ہے۔ ترقی یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے اور نیٹو کا ممبر ہے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ترکی کو عالم اسلام کا نیا کھلاڑی نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ سعودی عرب، ایران اور مصر مسلم ورلڈ کے روایتی دعویدار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp