پینس بمقابلہ ہیرس: نائب صدارت کے امیدواروں کے درمیان بدھ کا مباحثہ کیوں اہم ہے؟


سینیٹر کاملا ہیرس اور مائیک پینس

تین نومبر کے انتخابات سے قبل امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے نائب صدارت کے نامزد امیدواروں کے درمیان واحد مباحثہ بدھ کو ریاست یوٹا کے شہرسالٹ لیک سٹی میں ہو گا۔

نائب صدر مائیک پینس اور ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کے درمیان سات اکتوبر کو ہونے والا مباحثہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔

ایک طرف تو کرونا وائرس کے سبب پہلے ہی سے جاری معاشی اور صحت عامہ کے چیلنجز اپنی جگہ برقرار ہیں تو دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کووڈ 19 سے متاثر ہونے اور اسپتال میں زیر علاج ہونے سے اس وقت سیاسی بحث کو کئی نئے زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد صدارتی امیدواروں کے مباحثے کے انعقاد اور پروٹوکول میں کچھ انتظامی تبدیلیاں متوقع ہیں۔

خبر رساں ادارے بلوم برگ کے مطابق صدارتی مباحثوں کا منتظم کمیشن اس تجویز پر غور کر رہا ہے کہ نائب صدر پینس اور کاملا ہیرس ایک دوسرے سے 12 فٹ کے فاصلے پر رہ کر اس مباحثے میں شریک ہوں۔

مزید یہ کہ دونوں امیدوار لیکچر دینے والے ڈائس پر کھڑے ہونے کے بجائے کرسیوں پر بیٹھ کر مباحثے میں اپنا اپنا موقف بیان کریں۔ اس سے پہلے طے کیے گئے ضابطوں کے مطابق دونوں امیدواروں کے درمیان سات فٹ کا فاصلہ ضروری تھا۔

اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق دونوں امیدواروں کی مختلف مسائل پر بحث اب غیر معمولی توجہ کا مرکز بنے گی اور ایسا اس لیے ہو گا کہ عوام اپنی بے چینی کو کم کرنے کے لیے دونوں نائب صدارتی امیدواروں سے ایسے الفاظ سننا چاہیں گے جس سے بہتر اور محفوظ مستقبل پر ان کے اعتماد اور یقین میں اضافہ ہو۔

اس تناظر میں کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پیٹ براؤن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رافل سونیشین کہتے ہیں کہ کسی معمول کے سیاسی ماحول میں دو نائب صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ لیکن مائیک پینس اور کاملا ہیرس کا یہ مباحثہ صدارت کے دونوں امیدواروں کے عمر رسیدہ ہونے اور موجودہ حالات کے پیش نظر بہت مختلف ہے۔

لیکن مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں کی عمر پر بہت زیادہ توجہ موجودہ مسائل کو پس پشت ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے۔

سیاسی مبصرین باور کراتے ہیں کہ اس مباحثے میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑی تو کیا دونوں نائب صدارتی امیدوار آگے چل کر امریکی صدر کے فرائض کی انجام دہی کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں؟

لہٰذا عوام بھی یہ دیکھنا چاہیں گے کہ یہ دونوں سیاست دان کس طرح کی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

مثال کے طور پر اس مباحثے کے دوران نائب صدر پینس کو ٹرمپ انتظامیہ کے کرونا وائرس بحران سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور پالیسیوں سے متعلق کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ اب تک خود صدر سمیت تقریباً 74 لاکھ امریکی اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

نائب صدر پینس کرونا وائرس ٹاسک فورس کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے بھی اس مسئلے پر کئی سوالات کی توقع کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ’این بی سی نیوز‘ چینل کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ صدر ٹرمپ کے ری پبلکن حامی چاہتے ہیں کہ نائب صدر پینس اس موقع پر جب کہ انتخابات سر پر ہیں، ایک بھرپور اور ٹھوس کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔

دوسری طرف اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق سینیٹر ہیرس کے لیے یہ موقع ہو گا کہ وہ عوام کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ ایمرجنسی کی صورت میں وہ صدارتی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہیں۔ عوام اس بات کو بھی نوٹ کریں گے کہ وہ کرونا وائرس سے متاثرہ صدر کو کسی جارحانہ تنقید کا نشانہ بنائے بغیر کیسے ٹرمپ انتظامیہ کے ریکارڈ کو چیلنج کر پائیں گی۔

جو بائیڈن اور کاملہ حارث

اس بحث میں یہ بات بھی دلچسپ ہو گی کہ دو مختلف شخصیات کے مالک کس انداز سے اہم مسائل پر بات کرتے ہیں۔ نائب صدر پینس عام طور پر ایک دھیمے مزاج کے قدامت پسند سیاست دان جانے جاتے ہیں جب کہ کاملا ہیرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بطور سینیٹر اور اس سے پہلے وکیل استغاثہ یعنی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے وہ جارح مزاج نظر آتی ہیں۔

جہاں تک دونوں سیاست دانوں کے خیالات اور کارکردگی کا سوال ہے، تو دونوں امیدوار ایک دوسرے پر کڑی تنقید کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے نائب صدر پینس نے صدر ٹرمپ کے حامیوں کو ایک اجتماع میں بتایا تھا کہ وہ بحث اور تکرار کی یہ جنگ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور ہیرس کے سیاسی ایجنڈے کی طرف لے جائیں گے۔

’این بی سی نیوز‘ چینل کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ پینس اس نکتے پر زور دیں گے کہ ہیرس صدارتی امیدوار بائیڈن کو ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کی طرف لے جانا چاہتی ہیں۔

صدر ٹرمپ اور نائب صدر پینس

اس کے مقابلے میں کاملا ہیرس کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ نائب صدر پینس بھی ٹرمپ انتظامیہ کی کرونا وائرس سے متعلق غیر موثر پالیسیوں کے ذمے دار ہیں۔

مبصرین کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پہلے صدارتی مباحثے میں دونوں امیدواروں کی جانب سے گرما گرمی اور ایک دوسرے کی گفتگو میں بار بار کی مداخلت کے بعد امریکی ووٹر نائب صدارتی امیدواروں سے مختلف مسائل پر پالیسیز کا بیان چاہتے ہیں۔

نائب صدارتی مباحثہ شام سات بجے سے ساڑھے آٹھ تک یونیورسٹی آف یوٹا میں منعقد ہو گا اور اس کی میزبانی اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کی صحافی سوزن پیج کریں گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa