ہاتھرس کیس: انڈیا کی سپریم کورٹ کی جانب سے مبینہ گینگ ریپ کیس میں گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم


انڈیا کی سپریم کورٹ

اتر پردیش کی حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اس واقعے کی تفتیش سی بی آئی سے کرانے کی سفارش کی ہے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے کیس کو ‘غیر معمولی اور ہولناک‘ قرار دیا ہے اور ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے کے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں ایک بیان حلفی داخل کرے۔

اتر پردیش کی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں ملک کے سولسٹر جنرل توشار مہتا نے کہا کہ ’ریپ کے اس واقعے کو مختلف شکل دی جا رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک نوعمر لڑکی کی زندگی ختم ہوگئی۔ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور یہ تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہونی چاہیے‘۔

ایک سماجی کارکن ستیم دوبے نے عدالت عظمیٰ میں داخل کی گئی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انھوں نے ‏عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ اس مقدمے کو اتر پردیش سے دلی منتقل کر دیا جائے۔ ‏

عدالت اس معاملے کی مزید سماعت آئندہ ہفتے کرے گی۔

ہاتھرس کیس سے متعلق مزید پڑھیے

ہاتھرس کیس: وہ چھ سوال جن کے جواب ملنے اہم ہیں

ہاتھرس ’گینگ ریپ‘: متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے راہل اور پرینکا گاندھی حراست میں

ہاتھرس ریپ کیس: بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ کی ویڈیو پر کیا سزا ہو سکتی ہے؟

ہاتھرس کے بعد بلرام پور میں بھی مبینہ گینگ ریپ، سوشل میڈیا صارفین کی حکومت پر تنقید

ہاتھرس

ہاتھرس کی دلت لڑکی کا مبینہ طور پر اعلی ذات کے چار ہندوؤں نے 14 ستمبر کو ریپ کیا تھا۔

ہاتھرس سے تعلق رکھنے والی دلت لڑکی کے مبینہ گینگ ریپ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اونچی ذات کے چار افراد نے 14 ستمبر کو ان کا ریپ کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے دلی کے ہسپتال میں متاثرہ لڑکی کی موت ہوگئی تھی۔ متاثرہ لڑکی نے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کے ہسپتال میں ابتدائی علاج کے دوران اپنے بیان میں ریپ کا الزام لگایا تھا۔

متاثرہ لڑکی کی موت کے بعد دلی اور ملک کے دوسرے شہروں میں اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا۔

لڑکی کے خاندان والوں کا الزام ہے کہ پولیس نے ان کی رٰا مندی کے بغیر نصف شب آخری رسومات ادا کر دیں جس کے بعد لوگوں لا غز و غصہ بڑھ گیا ہے۔

اتر پردیش کی حکومت نے حزب اختلاف کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اس واقعے کی تفتیش مرکزی تفتیشی ادارے سی بی آئی سے کرانے کی سفارش کی ہے۔ تاہم لڑکی کے والدین نے یہ تفتیش سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج سے یا سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے الزامات

اس دوران اپوزیشن جماعتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے الزام لگایا ہے کہ وہ ریاست میں غیر ملکی تنظیموں کی مدد سے ذات پات کی ینیاد پر فسادات بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آّپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ اترپردیش میں ایمنسٹی انٹرنیشل جبیسی تنظیموں اور غیر ملکی فنڈز کے ذریعے کتنی گمبھیر مذہبی اور ذات پر مبنی فساد کرانے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

یاد رہے کہ چنر روز قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرمیشنل نے اعلان کیا تھا کہ انھیں اپنے کام کی وجہ سے انڈیا کی حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ اس وجہ سے انڈیا میں اپنے آپریشن بند کر رہے ہیں۔ تنظیم نے انڈیا کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف ایک مہم چلا رہی ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے مزید کہا گزشتہ ایک ہفتے سے آپ یہ منظر د یکھ رہے ہوں گے کہ کس طرح ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے لوگ کس طریقے سے فساد کرانے کی کوشش کر رہے تھے ۔

لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کی حکومت نے مبینہ ریپ کے اس معاملے میں نہ صرف لاپرواہی اور بے حسی کا ثبوت دیا بلکہ پولیس نے متاثرہ لڑکی کی لاش کو لے جا کر جس طرح آدھی رات کو آخری رسومات ادا کیں اس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ہاتھرس کے واقعے کے خلاف احتحاج اور مظاہروں کو بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے ریاست کو بدنام کرنے اور فساد برپا کرنے کی سازش قرار دیے جانے پر کئی حلقوں کی طرف سے وزیر اعلی پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ اس کیس کے تحقیاقاتی افسر ایس پی وکرانت ویر کو تحقیقات میں لاپرواہی برتنے اور دیگر کی وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے۔

https://twitter.com/ShekharGupta/status/1313165511853699072

معروف صحافی شیکھر گپتا نے اپنی ایک ٹویٹ میں یوگی آدیتہ ناتھ پر طنز کرتے ہو لکھا ہے ‘شاید یوگی حکومت صحیح کہہ رہی ہے کہ ہاتھرس کا واقعہ اترپردیش کو بدنام کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ تھا۔ اگر ایسا ہے تو اس سازش میں ریاست کے وہ پولیس والے بھی ضرور شریک رہے ہوں گے جنہوں نے متاثرہ لڑکی کی لاش کو آدھی رات کے بعد نذر آتش کر دیا اور اس کے گھر والوں کو بھی نہیں آنے دیا۔ اور وہ قابل ضلع مجسٹریٹ بھی اس سازش میں شامل رہے ہوں گے جنہوں نے نہ صرف متاثرہ لڑکی کے گھر والوں کو دھمکایا بلکہ وہ اتنے لاپروا رہے کہ اس کی ویڈیو بھی بننے دی‘۔

امریکہ میں مقیم انڈیا کے معاملات پر نظر رکھنے والی اور انڈیا کی تاریخ کی معروف مورخ آڈری ٹرشکی نے اپنی ایک ٹویٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی کو کئی محاذوں پر مدد کی ضرورت ہے لیکن اگر بین الاقومی سطح پر انڈیا کو نیچا دکھانا ہو تو وہ اس ہنر کے ماہر ہیں ۔

ہاتھرس کے مبینہ ریپ کا معاملہ اب سیاسی رنگ اختیا کر چکا ہے۔ ریاستی پولیس کے ایڈیشنل ڈائیرکٹر جنرل پرشانت کمار نے کہا کہ فورینزک رپورٹ کے مطابق لڑکی کا ریپ نہیں ہوا۔ لیکن علی گرھ میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لڑکی کا سیمپل مبینہ واقعے کے گیارہ دنوں بعد بھیجا گیا تھا اور بقول ان کے فورنز ک جانچ کے لیے سیمپل 96 گھنٹوں کے اندر بھیجے جانے چاہیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp