کیا آپ یونس کو جانتے ہیں؟


میں نے جب پوچھا کہ کیا آپ یونس کو جانتے ہیں؟ تو زیادہ تر نے ٹیسٹ کرکٹ کے باکمال اور پاکستان کے ممتاز بلے باز یونس خان کا بتایا۔ جو تھوڑی پکی عمر کے تھے انہوں نے ایک اور باصلاحیت لیکن سرکش بلے باز یونس احمد کا نام اٹھایا۔ چند شوقین مزاج سمجھے میں نے ”مولا جٹ“ کے ہدایت کار یونس ملک کا پوچھا ہے۔ دو تین انٹیلکچوئل ٹائپ نے بنگالی مرد دانا اور گرامین بینک کے روح رواں محمد یونس کو شامل گفتگو کیا۔ لیکن حیران کن طور پر کسی ایک نے بھی پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اور اہم اتھلیٹ ملک محمد یونس سے آشنائی کا اظہار نہیں کیا۔ افسوس صد افسوس۔ کیسے کیسے لوگوں کو ہم بھلا بیٹھے ہیں۔

میں نے یہ سوال ان پڑھ لوگوں سے نہیں بلکہ کھاتے پیتے پڑھے لکھوں سے کیا تھا جو آسودہ محفلوں اور سوشل میڈیا پر ملک میں کرپشن، لاقانونیت، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور نہ جانے کیا کچھ کے بارے میں اپنی آرا اور دانش کے موتی بکھیرتے نہیں تھکتے۔

محمد یونس 1948 ء میں تلہ گنگ کے ایک گاؤں ڈھوک چٹھہ میں پیدا ہوئے اور تقریباً اٹھارہ انیس سال کی عمر میں شمالی پنجاب کے بارانی علاقوں کے نوجوانوں کی طرح فوج میں بھرتی ہوگئے۔ 1966 ء میں یونس ایک انفنٹری یونٹ 10 فرنٹیئر فورس میں شامل ہوئے۔ انفنٹری فورس میں کھیل کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ یونس اپنے علاقے میں جوڑ والی کبڈی کے مانے ہوئے کھلاڑی تھے۔ یہ کبڈی آج کل کی ماڈرن کبڈی جو کہ ایک چھوٹے کورٹ کھیلی جاتی ہے کے برعکس ایک کھلے اور بڑے میدان کا کھیل ہے اور آج بھی شمالی پنجاب میں مقبول ہے۔

یونس نے کبڈی کے علاوہ رننگ جسے ’مدر آف آل سپورٹس ”سمجھا جاتا ہے میں غیر معمولی استعداد کا مظاہرہ کیا۔ ایک سال کے اندر اندر وہ اپنی کور میں 800 میٹر، 1500 میٹر اور کراس کنٹری دوڑ کے چیمپئن بن گئے اور پھر انہیں آرمی کی اتھلیٹکس ٹیم میں منتخب کر لیا گیا۔ 1969 ء میں انہوں نے پہلی دفعہ قومی کھیلوں میں حصہ لیا اور پہلی ہی دفعہ 800 میٹر میں سلور اور 1500 میٹر کی دوڑ میں انہوں نے گولڈ میڈل حاصل کر لیا۔ ان دو ایونٹس کے علاوہ وہ آرمی کی 4 / 400 ریلے ریس کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ اس ٹیم نے بھی گولڈ میڈل جیت لیا۔ یوں یونس اپنے پہلے قومی مقابلوں میں پاکستان کے بیسٹ اتھلیٹ ہوگئے۔ کھیل کی دنیا کے ایک روشن ستارے کا طلوع ہوچکا تھا۔

اگلا مرحلہ 1970 ء میں بنکاک میں ہونے والی ایشین گیمز کا تھا۔ وہاں انہوں نے 1500 میٹر کی دوڑ میں دوسری پوزیشن اور پاکستان کے لئے سلور میڈل حاصل کیا۔ گولڈ میڈل جاپان کے سوسومو نورو جیت گئے۔ یونس کے سلور میڈل کے علاوہ پاکستان کے اتھلیٹس نے دو کانسی کے تمغے جیتے۔ یوسف ملک نے ہیمر تھرو اور نارمن برنک ورتھ نے 400 میٹر ہرڈلز میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔

ء 1972 کے میونخ اولمپکس میں پاکستان کے پانچ اتھلیٹس نے حصہ لیا۔ ہاکی ٹیم کے علاوہ وکٹری اسٹینڈ تک پہنچنے کی سب سے زیادہ امیدیں یونس ہی سے تھیں۔ کیونکہ انہوں نے جرمنی میں ہی 1970 ء میں ( 3 : 41.4 ) ۔ تین منٹ اکتالیس اعشاریہ چار سیکنڈ میں 1500 میٹر ڈور کر دنیا کو چونکا دیا تھا۔ لیکن بہت معمولی فرق سے یونس فائنل راؤنڈ کے لئے کوالیفائی نہ کرسکے۔ وہ ان کے ابتدائی سال تھے۔ ویسے بھی ماہرین 1500 میٹر کو تکنیکی اور جسمانی لحاظ سے نہایت مشکل دوڑ سمجھتے ہیں۔ یونس کو شاید مزید محنت کی ضرورت تھی۔

یونس کا اگلا ہدف 1974 ء کی ایشین گیمز تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان گیمز کے لئے پاکستان کی اتھلیٹکس ٹیم کا کیمپ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ترتیب دیا گیا تھا۔ ایک دن حفیظ پیرزادہ جو کہ وفاقی وزیر تعلیم اور کھیل ہوا کرتے تھے وہ اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہمارے کیمپ آئے۔ پیرزادہ نے مجھے خاص طور پر بلوا کر بھٹوصاحب سے ملوایا۔ وزیراعظم بھٹو نے پوچھا ”یونس کیا کرو گے؟“

میں نے کہا ”سر محنت تو بہت کی ہے باقی اللہ مالک ہے۔“
جس پر بھٹوصاحب نے کہا ”تم نے گولڈ میڈل لے کر آنا ہے۔

ء 1974 کی ایشین گیمز ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقد ہوئی تھیں۔ آریہ مہر اسپورٹس کمیلکس ان کھیلوں کا مرکز تھا۔ اس کا افتتاح 18 اکتوبر 1971 کو ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا۔ اس کمپلیکس کو ایشین گیمز کی میزبانی کے لئے تعمیر گیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد اس کا نام آزادی اسپورٹ کمپلیکس رکھ دیا گیا ہے۔ فرح اسپورٹس کمیلکس 1974 ایشین گیمزکا دوسرا بڑا سنٹرتھا۔ انقلاب کے بعد اس کا نام بھی تبدیل کرکے ایران کے مشہورپہلوان رستم زماں غلام رضاتختی کے نام پررکھ دیا گیاہے۔

اتھلیٹکس کے مقابلے آریہ مہر اسٹیڈیم میں منعقد ہوئے تھے۔ یونس نے بتایا ”جس دن 1500 میٹر کا فائنل ہوا تھا اس دن شاہ ایران سٹیڈیم میں موجود تھے۔ میرے مدمقابل جاپان کے سوسومو نورو ہی تھے جو 1970 ء میں بنکاک کی ایشین گیمز کے گولڈ میڈلسٹ تھے۔ میں اس وقت بہت اچھی فارم میں تھا اور اللہ کے فضل سے میں وہ مقابلہ جیت گیا اور پاکستان کے لئے گولڈ میڈل حاصل کر لیا۔“

یونس کے گولڈ میڈل کے علاوہ ایک دفعہ پھر پاکستان کے اتھلیٹس دو کانسی کے تمغے جیت سکے۔ اس دفعہ نصرت ساھی نے 200 میٹر اور محمد صدیق نے 800 میٹر میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔

محمد یونس کے کیریئر کا سب سے عجیب واقعہ 1976 ء میں کینیڈا کے شہر مانٹریال میں منعقد ہونے والے اولمپکس کا تھا۔ ان اولمپکس کے لئے یونس نے ایک روسی کوچ سے ٹریننگ حاصل کی۔ ان کا ارادہ 1500 اور 5000 میٹر میں حصہ لینے کا تھا اور ان ایونٹس کی انہوں نے انتھک ٹریننگ کی۔ لیکن جب وہ اولمپکس میں حصہ لینے کے لئے پہنچے تو پتہ چلا کہ پاکستان سے یونس کو 800 میٹر کے لئے اور محمد صدیق جو کہ دراصل 800 میٹر کے اسپشلسٹ تھے کو 1500 میٹر کی دوڑ کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ یہ ایک حیران کن بات تھی لیکن یونس کو اپنے ایونٹ یعنی 1500 میٹر جس کے وہ ایشیائی چیمپئن بھی تھے کی جگہ 800 میٹر کی دوڑ میں حصہ لینا پڑا۔ انہیں آج تک 1976 ء کے مانٹریال اولمپکس ضائع ہو جانے کا افسوس ہے۔

یونس کے کیریئر کے آخری بڑے مقابلے 1978 ء کی ایشین گیمز تھے۔ یاد رہے یہ ایشین گیمز اسلام آباد پاکستان میں ہونا تھے اور عوامی جمہوریہ چین کے اشتراک سے اسلام آباد میں عظیم الشان سپورٹس کمپلیکس تعمیر ہوچکا تھا لیکن ملکی حالات اور پھر مارشل لاء کی وجہ سے یہ گیمز بنکاک منتقل ہوگئے۔ بنکاک میں ایک دفعہ پھر یونس پاکستان کو وکٹری سٹینڈ پر لے آئے۔ انہوں نے 1500 میٹر میں سلور میڈل حاصل کیا۔ یونس کا یہ سلور میڈل اتھلیٹکس میں پاکستان کا اکلوتا تمغہ تھا۔

ان ایشین گیمز کے تھوڑے عرصے بعد 1979 ء میں یونس موٹرسائیکل کے ایک حادثے کا شکار ہوگئے جس کی باعث وہ تقریباً دو سال ہسپتال میں زیرعلاج رہے اور یوں ایک روڈ ایکسیڈنٹ ملک کی تاریخ کے مایہ ناز اتھلیٹ کے تابناک کیریئر کے انقطاع کی وجہ بن گیا۔

قارئین کرام آپ محمد یونس کی عظمت کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ان کے قائم کردہ قومی ریکارڈ آج تک بہتر نہیں کیے جاسکے۔ ان کا 1970 ء میں قائم کیا 1500 میٹر کا ریکارڈ ابھی تک قائم ہے۔ انہوں نے جب جرمنی میں یہ ریکارڈ قائم کیا تھا اس وقت ان کا ٹائم عالمی ریکارڈ سے صرف 7 سیکنڈ اور ایشیا ئی ریکارڈ سے ڈھائی سیکنڈ پیچھے تھا۔ 1971 ء میں انہوں نے 3000 میٹر دوڑ کا ریکارڈ حاصل کیا وہ بھی کوئی پاکستانی اتھلیٹ بہتر نہیں کر سکا۔ یہ بھی واضح رہے اس زمانے میں پاکستان میں عالمی سطح کی سہولیات میسر نہیں تھیں۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں انہوں نے 1977 ء میں 5000 میٹر کا قومی ریکارڈ بنایا وہ بھی آج تک توڑا نہیں جاسکا۔

بد قسمتی سے میں یونس کو پرفارم کرتے نہیں دیکھ سکا کیونکہ ستر کی دہائی میرے بچپن کے دن تھے۔ صرف ایک دھندلی سی یاد ہے۔ 1976 میں قائداعظم کی یوم پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں لاہور میں کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوئے تھے جس میں بہت سے ممالک کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا۔ وہ مقابلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے تھے۔ ان مقابلوں میں یونس نے 1500 میٹر میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ وہ دوڑ ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی تھی۔ ان مقابلوں ایک اور یاد طلعت سلطانہ کی ہے جوشاٹ پٹ، جؤلین اور ڈسکس تھرو کی چمپئن ہوا کرتی تھیں۔ نہ جانے اب وہ کہاں ہیں؟

دو سال پہلے اسلام آباد کی کی ایک شہری تنظیم نے مجھے ایک ایوارڈ کے لئے نامزد کیا۔ نیشنل کونسل آف آرٹس میں ہونے والی تقریب میں بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ وہیں پاکستان کے اس ہیرو سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ جان کر اور دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تقریباً ستر سال کی عمر میں بھی یونس فزیکلی فٹ اور چاک وچوبند تھے۔ آج بھی وہ اپنے گاؤں میں خوش وخرم اور مطمئن گزار رہے ہیں۔

کالم کی تنگی داماں کی وجہ سے میں نے صرف ایشین گیمز یا اولمپکس کا ذکر کیا ہے ورنہ یونس کی فتوحات کی لسٹ بہت طویل ہے۔ مختصراً یہ کہ 1969 ء میں جب انہوں نے پہلی دفعہ قومی سطح پر 1500 میٹر میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا سے لے کر 1979 ء تک وہ اپنے ایونٹ میں ناقابل شکست رہے۔ میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ محمد یونس کی خدمات اور عظمت کا اعتراف کیا جائے۔ اسلام آباد اسپورٹس کمپلیکس کا اسٹیڈیم یا راولپنڈی میں آرمی سپورٹس سٹیڈیم کو ان سے منسوب کیا جائے۔ یہ ان کی خدمات کے اعتراف کا کم سے کم اظہار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).