داستان فیض احمد فیض


دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک کچھ کر گزرنے کا جنوں رکھنے والے، دوسرے وقت کے سیل رواں پر بہنے والے جنہیں وقت جہاں لے جائے، چلے جاتے ہیں۔ فیض کا شمار پہلی قسم کے انسانوں میں ہوتا تھا۔

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا

قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے خیال آتا ہے کہ سبھی کا یہ آخری ٹھکانہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہماری خاتمہ فقط مٹی کا ڈھیر کا ہوگا یا روشنی بانٹنے والی کتاب۔ یوں تو ہر قبر ایک کتاب کی مانند ہے جو اپنے اندر ایک داستان سموئے ہوئے ہے لیکن بہت سی قبریں ایسی ہیں جو بند کتاب کی مانند قبر کے شیلف میں دھول سے اٹی ہوئی ہیں مگر افسوس ان کو پڑھنا تو درکنار کسی نے کھولنے کا تکلف بھی نہیں کیا ایک سوچ اکثر مجھے مضطرب رکھتی ہے کہ اگر دیگر بہت سی قبروں کی طرح میری قبر بھی ان کھلی کتاب ہی نہ ہو۔ بہت عرصے سے سوچ رہی تھی کیوں ناں پاکستانی ادب کے درخشاں ستارے کے آخری پڑاؤ پر فاتحہ پڑھ آؤں۔

اللہ‎ نے سوہنی دھرتی کو گراں مایہ جواہر سے نوازا ہے مگر فیض احمد فیض جیسی نابغۂ روزگار شخصیت اپنی مثال آپ تھی۔ جہان فانی سے رخصت ہوئے انہیں کئی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ان کے افکار‛ سیاسی و معاشرتی اور مزاحمتی اشعار آج بھی ہمارے ہونٹوں پر بہار دے رہے ہیں۔ ہر سال نومبر میں فیض صاحب کی برسی کے موقع پر لاہور کے الحمرا آرٹ کمپلیکس میں فیض فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے ہر صوبہ سے سیاسی و سماجی کارکن یہاں تشریف لاتے ہیں اور فیض میلہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں ایک خاص گیلری میں فیض صاحب کی زندگی میں استعمال کردہ سامان سجایا جاتا ہے۔

فیض صاحب نے 13 فروری 1911ء کو کالا قادر (سیالکوٹ) میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد، سلطان محمد خان، ایک علم پسند شخص تھے۔ وہ پیشے سے ایک وکیل تھے اور امارت افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے۔ بعد ازاں، انہوں نے افغان امیر کی سوانح حیات شائع کی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور اشتراکی فکر کے ممتاز رہنما تھے۔

فیض کے گھر سے کچھ دوری پر ایک حویلی تھی۔ یہاں اکثر پنڈت راج نارائن ارمان مشاعروں کا انعقاد کیا کرتے تھے، جن کی صدارت منشی سراج الدین کیا کرتے تھے ؛ منشی سراج الدین، مہاراجا کشمیر پرتاپ سنگھ کے منشی تھے اور علامہ اقبال کے قریبی دوست بھی۔ انہی محفلوں سے فیض شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔

فیض کے گھر کے باہر ایک مسجد تھی جہاں وہ فجر کی نماز ادا کرنے جاتے تو اکثر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا خطبہ سنتے اور ان سے مذہبی تعلیم حاصل کرتے۔

1921 ء میں آپ نے سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور یہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد آپ نے ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی میر حسن شمس العلماء (جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ آپ نے اسکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔

1942 ء میں آپ نے فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی دوسری جنگ عظیم سے دور رہنے کے لیے آپ نے اپنے لیے محکمۂ تعلقات عامہ میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی تھے۔ جنرل خان بائیں بازو کے سیاسی خیالات رکھتے تھے اور اس لیے آپ کو خوب پسند تھے۔ 1943 ء میں فیض میجر اور پھر 1944 ء میں لیفٹیننٹ کرنل ہوئے۔ 1947 ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد آپ فوج سے مستعفی ہو کر لاہور آ گئے۔

1947ء میں آپ پاکستان ٹائمز اخبار کے مدیر بنے۔ 1948ء میں آپ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 1948 ء تا 1950 ء آپ نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے وفد کی جنیوا میں سربراہی کی اور دریں اثنا آپ ورلڈ پیس کونسل کے رکن بھی بن گئے۔

اقت علی خان کی حکومت کشمیر کو پانے میں ناکام ہو گئی تھی اور یہ بات پاکستانی افواج، یہاں تک کہ قائد اعظم‎ محمد علی جناح، کو بھی گوارا نہ تھی۔ جناح نے خود لیاقت علی خان کی ناکامی پر ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی یقینی تھی کہ جنرل ڈگلس گریسی نے بھی اس معاملے میں قائد اعظم‎ کی نہ سنی۔ اور تو اور، امریکا سے واپسی پر لیاقت علی خان نے کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی۔ مشرقی پاکستان میں البتہ، ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی فعال رہی اور دھرنے دیتی رہی۔

23 فروری 1951 ء کو چیف آف جنرل سٹاف، میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر ایک خفیہ ملاقات کا انعقاد ہوا۔ اس ملاقات میں دیگر فوجی افسران بھی سجاد ظہیر اور فیض کے ساتھ، شامل تھے۔ یہاں موجود ان سب لوگوں نے لیاقت علی خان کی گورنمنٹ کو گرانے کا ایک منصوبہ تجویز دیا۔ یہ سازش بعد میں راولپنڈی سازش کے نام سے جانی جانے لگی۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

9 مارچ 1951ء کو فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں حکومت وقت نے گرفتار کر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیلوں میں گزارے ؛ جہاں سے آپ کو 2 اپریل 1955ء کو رہا کر دیا گیا۔ زنداں نامہ کی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لکھی گئیں۔ رہا ہونے کے بعد آپ نے جلاوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے خاندان سمیت رہائش پذیر رہے۔ فیض نے جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک شعر میں کہا:

فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

فیض صاحب نے اردو ادب کو بہترین کتب سے نوازا۔ فیض احمد فیض کی شاعری کا اولین مجموعہ ”نقش فریادی“ مکتبہ اردو لاہور نے 1941 میں شائع کیا تھا۔ دیگر کتابوں کے نام یہ ہیں۔

دست صبا
زنداں نامہ
دست تہ سنگ
سر وادی سینا
شام شہر یاراں
مرے دل مرے مسافر
نسخہ ہائے وفا (کلیات)

آپ نے 20 نومبر 1984 ء کو زندگی کے ہاتھوں شکست تسلیم کر لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).