بیٹی کی پیدائش


گلی میں عجب سا سماں تھا۔ دروازوں کی پردوں کی اوٹ میں کھڑی، محلے کی گلی میں عجب سا سماں تھا۔ دروازوں کی پردوں کی اوٹ میں کھڑی، محلے کی خواتین، کف افسوس مل رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو بتا رہی تھیں کہ جہانداد (فرضی) کی قسمت خراب ہے۔ بے چارے کا کوئی وارث نہیں ہے۔ اس بار تو پوری امید تھی کہ اس کے یہاں بیٹا ہو گا، لیکن افسوس پھر بیٹی ہو گئی۔ اب جہانداد دوسروں کی گھروں کے لئے بیٹیاں پالے گا۔

اس دوران میں ایک بزرگ عورت عصا کے سہارے جہانداد کے گھر سے نکل کر، اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں تسبیح تھی، جس کے دانوں کو وہ اپنی لرزتی انگلیوں کے ساتھ تیزی سے گرا رہی تھی۔ زبان پر ذکر کے بجائے افسوس تھا اور وہ خود سے ہم کلام تھی: ”جہانداد کی بیوی ک رونے سے انسان کا کلیجا پھٹنے لگتا ہے۔ بے چاری سمجھ رہی تھی، اس بار تو لڑکا ہی ہو گا، کیوں کہ اس تمنا میں اس نے ہر در کھٹکھٹایا ہے۔ دم درود کروایا۔ یہاں تک کہ پیر بابا کی زیارت کو گئی۔ اب وہ اتنی بچیوں کا کرے تو کیا کرے!“

گھر پہنچ کر میں امی کی پہلو میں بیٹھ گیا۔ امی سے سارا منظر بیان کیا۔ وہ ایک ایک آہ بھر کے گویا ہوئیں، ”بیٹا بس یہ اللہ کی مرضی ہے۔ لیکن جہانداد اور اس کی بیوی کو اس بار بیٹے کی پوری امید تھی۔ یہ مسلسل تیسری بیٹی ہے جس نے اس بد قسمت والد کے گھر جنم لیا۔ اب جہانداد مجبور ہے کہ وہ دوسری شادی کر لے، کیوں کہ اس بیوی سے اسے ایک بھی بیٹا نصیب نہیں ہوا۔“

ماں نے چائے کی چسکیاں لینا شروع کیں اور کچھ دیر خاموش رہیں۔ میں نے ماں کی خاموشی توڑنے کے لئے ایک اور سوال داغ دیا۔ ”گل خالہ گلی میں خود سے ہم کلام تھیں کہ جہانداد اور اس کی بیوی نے ہر در کھٹکھٹایا، تا کہ ان کے گھر بیٹا پیدا ہو۔ ماں، کیا پیر بابا کی زیارت سے بچے کی جنس تبدیل ہو سکتی ہے؟“

”بیٹا، بس لوگوں کا یقین ہے۔ زیارت جانا تو عام سی بات ہے۔ ہمارے یہاں خواتین بیٹے کی پیدائش کے لئے کیا کیا نہیں کرتیں۔“

ماں نے کھوئے کھوئے ایک اور قصہ شروع کر دیا۔ ”ایک دفعہ، عید کا دن تھا۔ میں نے بیٹے حنان کو صندوق سے نئی چادر نکال کر دی۔ عید کی نماز کے بعد، تمہارے ابو کے ساتھ جانور کی قربانی کرنے سے پہلے، اس نے وہ چادر ایک طرف رکھ دی۔ اور چادر گم ہو گئی۔ بہت ڈھونڈی لیکن نہیں ملی۔ دو سال بعد وہ چادر (خیال محمد فرضی نام) کے گھر سے ملی۔“ امی بولی جا رہی تھیں۔

”امی، اس بات کا بیٹے کی پیدائش سے کیا تعلق؟“

”تعلق ہی تو بتا رہی تھی، لیکن تم نے میری بات پوری کب ہونے دی۔ بیٹا، جس گھر میں لڑکے زیادہ ہوں، عورتیں اس گھر سے کچھ اٹھا لے جاتی ہیں۔ در اصل لوگوں کا اس بات پر یقین ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے گھر بیٹی کے بجائے بیٹا پیدا ہو گا۔“

امی مسلسل بولی جاری تھیں اور میں سنتے میں کہیں کھو گیا۔ ”پہلے وقتوں میں عورتیں، بیٹے کی پیدائش کی خواہش میں سات ایسے گھروں سے، جہاں لڑکے زیادہ ہوں، سات مختلف رنگ کے کپڑے جمع کرتی تھیں، اور ان کپڑوں سے پیدائش سے پہلے بچے کے کپڑے سی لیتی تھیں، کہ اس عمل سے لڑکا ہی پیدا ہو گا۔ اب بھی بچے کی پیدائش کے لئے زیارت جانے کے علاوہ مختلف رسمیں ادا کرتی ہیں۔ اکثر تو بچی کا نام (تمامہ) یعنی ختم، خاتمہ اور بلنستہ یعنی اور کوئی لڑکی نہیں ہے، اس امید پر رکھتے ہیں کہ اس کے بعد بچہ پیدا ہو گا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).