بڑھتی معاشرتی بے حیائی کا جائزہ


ہمارے ملک میں فحاشی اور بے راہ روی کو جس طرح گزشتہ چند برسوں میں عروج اور پذیرائی ملی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہمارے اقدار کی پاسبانی کرنے کے لئے عمر رسیدہ افراد سے لے کر نو جوانوں تک میں سے کوئی تیار نہیں۔ اس سلسلے میں ایک علمی جائزہ لینا ضروری ہے، تا کہ آنے والے وقت میں ہمیں در پیش مسائل کا احاطہ کیا جا سکے اور ساتھ ہی درست سمت کا تعین بھی۔ آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا جائزہ لیں۔ مثلاً: فیس بک یا ٹک ٹاک، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں صارف کو دینی، فحش اور بے وقعت تفریح کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔

پہلے آپ قرآن مجید کی کسی آیت کو لائک کرتے ہیں، تو ساتھ ہی اگلی پوسٹ پر کوئی فحش کلپ نمودار ہو جاتا ہے اور اس سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عورت کے لباس کو لے کر جہاں بے تحاشا مرد اسے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، وہیں وہ ہر انجان پروفائل پر میسیج بھیجنا بھی فرض سمجھتے ہیں۔ ہمارے گھروں سے لے کر مساجد تک جھوٹ، منافقت اور عدم برداشت نے جگہ بنا لی ہے۔ ایک جوان لڑکا لڑکی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے ہونے کی سوچ سے باہر نہیں نکل پا رہے۔

ٹی وی ڈرامے دیکھ لیں تو ایک کردار، ایک ڈرامے میں خدا کی تلاش میں دنیا بھلائے بیٹھا ہے، تو دوسری جانب اپنی سالی سے عشق فرما رہا ہے۔ ریپ کے قصے اس قدر عام ہو گئے ہیں کہ لگتا ہے ہمارے یہاں کوئی بچہ یا عورت محفوظ نہیں۔ شادی کے بعد دو ایک محبوب رکھنا بھی اب عام ہوا۔ اکثر عورتیں اور مرد بھی مسابقتی بنیادوں پر غلط میل جول کو برا نہیں سمجھتے۔ نشہ تو اب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ کسی بھی شہر میں کچھ دیر کی محنت کے بعد دستیاب ہو جاتا ہے۔ بند کمروں میں شراب نوشی اور عریانی کی محافل بھی بہت حد تک بڑھ چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کے اس سب کا انجام کیا ہے اور یہ سب اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں کیوں کر شروع ہوا۔

پہلے تو اس بات کا تعین ضروری ہے کہ کیا یہ سب واقعی غلط ہے یا از راہ عقیدہ، ہم ایسا مانتے ہیں۔ ایک عام انسان کی زندگی میں ان سب چیزوں کا ایک تناسب میں ہونا، شاید کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ آپ اگر اپنے دوستوں کی محفل میں نشہ کر رہے ہیں، تو اس سے باقی لوگوں کی صحت پر بھلا کیا اثر پڑے گا۔ یا ایک لڑکا لڑکی کسی ہوٹل میں رات گزار رہے ہیں، تو کون سی قیامت بپا ہو گی۔ اگر کسی اشتہار میں کسی عورت نے آدھے کپڑے پہن رکھے ہیں، تو باقی عوام کو اس سے بھلا کیا غرض۔

ایک منطق یہ بھی ہے کہ بے راہ روی اور عریانی سے معاشرتی تباہی ہوتی تو گورے نیست و نا بود ہو چکے ہوتے، جب کہ بحیثیت قوم، وہ لوگ کئی دہائیوں سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ اگر ایک پاکستانی لڑکی دوپٹہ نہیں پہننا چاہتی تو اس میں مسئلہ کیا ہے۔ کسی غریب کا حق تو نہیں مار رہی نا۔ ایسے تمام مسائل اکثر میری سوچ کا محور رہتے ہیں اور بسا اوقات مجھے لگتا ہے کے بہت عرصے سے گھٹن زدہ معاشرہ اب شاید تھوڑا سانس لینے لگا ہے، تو اس میں خلل کیوں ڈالا جائے۔

میں اس بات کو بھی اہم سمجھتا ہوں کہ دین اسلام میں عورت کے لباس اور مردوں کی نگاہ نیچی رکھنے کی تلقین کے علاوہ بھی بہت سی باتیں بتائی گئی ہیں، جیسے ناپ تول میں کمی نہ کرنا، ملاوٹ نہ کرنا، جھوٹ مت بولنا، کسی پر بہتان نہ لگانا، در گزر سے کام لینا وغیرہ۔ اسی لئے اگر ہم زور صرف عورت کے لباس پر رکھیں گے تو منافقت کا زوال نہیں ہو سکے گا۔

میرے خیال میں اب معاشرے میں کسی انقلاب کے بغیر کم از کم دکھاوے کے لئے فحاشی کو روکنا نا ممکن ہے۔ ہمارے بظاہر دین دار طبقے بھی بچوں کی شادیاں کرتے وقت سیرت پر خاص توجہ نہیں دیتے، بلکہ پیسہ اور معاشرتی مقام دیکھتے ہیں۔ والدین خود بے شک نمازی ہوں لیکن بیٹے کی غلط حرکات و سکنات پر رد عمل نہیں دیتے۔ جامعات میں پڑھنے والی اکثر لڑکیاں کسی نا کسی کے ساتھ معاشقے میں مشغول ہوتی ہیں۔ آپ کیسے روک سکتے ہیں اس سب کو۔ جب حرام کمائی سے ادا کی گئی مہنگی یونیورسٹی کی فیس ادا کی جائے گی، تو اس طرح کا کردار بچوں میں ہونا کوئی عجب نہیں۔ جب تربیت کی عدم موجودگی ہو گی تو اولاد کیسے اچھائی اپنائے گی۔

اگر آپ غور کریں تو گزشتہ دو دہائیوں میں ہمارے معاشرتی وسائل میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ اب ہر گھر میں کمانے والے افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں میں تعلیم کا رجحان بھی بڑھا ہے اور سماجی فہم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی وجہ سے زندگی کے ہر آسائشی پہلو میں بہتری آئی ہے۔ شہروں میں نو آبادیاتی نظام کی ترویج نے ہمسائیگی اور اقارب پر انحصار کرنا معدوم کر دیا ہے۔ آپ کو راستہ پوچھنا ہو یا شادی کرنی ہو، سب کاموں کے لئے خدمات دستیاب ہیں۔

الغرض یہ کہ کئی سالوں تک کسی اپنے سے نا ملے بغیر بھی زندگی کا پہیہ دوڑتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے مروج معاشرتی اقدار اور روایات دم توڑتی جا رہی ہیں اور ان کی شکل روز بروز بدلتی جا رہی ہے۔ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا، کیوں کہ انسان جس قدر آزاد ہوتا ہے، اتنا ہی بے اس پر بے خودی غالب آتی ہے اور وہ سماجی قیود سے جان بچاتا ہے۔ ان حالات میں ایک اسلامی ریاست کا نظام کیسا ہونا چاہیے، یہ ایک طویل بحث ہے۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ اگر بحیثیت قوم ہم انسانوں کی قدر شروع کر دیں، ایک دوسرے کے عیبوں کی پردہ پوشی کریں، حق بات کی احسن طریقے سے دعوت دیں، معاشرے میں عدم استحکام اور نا انصافی کا خاتمہ کر دیں، تو آہستہ آہستہ اگلی منزل خود بے حیائی اور فحاشی کا خاتمہ ہو گی۔

کیوں کہ جب دل صاف ہوں گے، تو تنقید کی بجائے اصلاحی سوچ جنم لے گی۔ پھر کسی عورت کو خود کا جسم تشہیر کر کے کوئی چیز بیچنا نہیں پڑے گا۔ کوئی مرد کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ جب لوگوں کو حلال میں مزہ آنا شروع ہو گا تو برائی کم ضرور ہو گی۔ عورت مارچ کا مقصد ختم ہو جائے گا، کیوں کہ عورت کو جینے کا حق معاشرہ دے رہا ہو گا۔ دیسی لبرل کی باتیں مذاق لگنا شروع ہو جائیں گی۔

البتہ حکومت وقت کو نشہ آور اشیا، بے راہ روی پر قانون سازی کی بھی ضرورت ہو گی، کیوں کہ برائی کو بہر حال انجام کا خوف ہونا چاہیے۔ دین میں بے حیائی اور بے راہ روی کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس وجہ سے خاندان جو کہ معاشرے کی اہم اکائی ہے، متاثر ہوتا ہے۔ اور اس سے باقی سماجی علتیں جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے تمام تر آسائشوں کے باوجود مغربی دنیا بھی سکون سے محروم ہے۔ البتہ جو لوگ اچھے خاندانی نظام سے بندھے ہیں، وہ قدرے مطمئن اور پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔

کیا آپ کسی نشئی شخص پر اعتبار کر سکتے ہیں؟ کیا کسی عورت باز شخص سے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ ہمیشہ دکھ سکھ میں شریک ہو گا؟ کیا کسی بے راہ رو عورت سے شادی کے بعد بچے ہونے کا تصور کر سکتے ہیں؟ نہیں۔ کیوں کہ انسان کو زندگی میں ہمیشہ مخلص لوگوں کا ساتھ چاہیے، جو کہ انہی سے پیار کریں، اور توجہ دیں۔ ورنہ زندگی کا کیا ہے، وہ تو چلتی رہتی ہے، بے سکون، جیسے لوگ گزار رہے ہیں۔ ایک کامیاب معاشرے کے لئے جہاں انفرادی طور پر بہت سے اوصاف درکار ہیں، وہاں حیا اور شرافت بھی لازم ملزوم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).