پنجاب میں بلوچ طلبا کا لانگ مارچ


بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی ناگفتہ صورتحال، بنیادی ضروریات و سہولیات کی عدم فراہمی اور دیگر کئی مسائل کے حل کے آرزو مند چند باہمت اور دور اندیش طلباء کو تقریباً آج سے چھ یا سات برس پہلے ”بلوچ سٹوڈنٹس کونسل“ کے قیام پر ابھارا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ( بی ایس سی ) مکمل طور پر غیر سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد بلوچستان سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچستان کے (بلوچ) طلبا و طالبات کے تعلیمی حقوق کا تحفظ، ان کی رہنمائی، حائل رکاوٹوں کو دور کر کے آسانیاں پیدا کرنا، تعلیمی اداروں میں مطلوبہ ضروریات و سہولیات اور اصلاحات کے لئے جد و جہد کرنا اور ایک تعلیم دوست ماحول کو پروان چڑھانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم مقصد بلوچ ( خاص کر متوسط اور غریب ) طلباء کے لئے حصول علم کو سہل و ممکن بنانا ہے۔ بلوچستان سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ( جہاں بلوچ نوجوان زیر تعلیم ہیں وہاں ) بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی شاخیں موجود ہیں۔

مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لئے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے زیر اہتمام بلوچ طلباء و طالبات کی سرگرمیاں اور مطالبے اکثر بلوچستان کے (انتہائی محدود پیمانے پر ملکی ) میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں اور عالمی نشریاتی ادارے میں بھی جگہ پاتی ہیں۔ بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بلوچ طلباء تعلیمی حقوق اور علمی ماحول کے قیام کے لئے پر امن اور جمہوری انداز میں اپنا انتہائی مثبت حصہ ڈال رہے ہیں اور اپنے بلند ہمت و حوصلے اور فکری پختگی کی بنا پر بلا تفریق ملک بھر کے طلباء و طالبات کے لئے قابل تقلید مثال بنے ہوئے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اب ان کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں اور انھیں اپنے علاقائی تعلیمی اداروں تک محدود رکھا جا رہا ہے۔ جس کی واضح مثال پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بلوچ نوجوانوں کے لئے مختص سیٹوں کی کٹوتی اور اسکالر شپ کی بندش ہے جس کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے نوجوان گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پنجاب میں سراپاء احتجاج ہیں۔ اس احتجاج کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وقت کے پہیے کو ذرا پیچھے موڑا جائے۔

بلوچستان کی مخدوش سیاسی صورتحال اور پنجاب مخالف جذبات کو مد نظر رکھ کر تقریباً 2012 ء میں پنجاب حکومت نے جذبہ خیر سگالی کی بنیاد پر بلوچستان حکومت سے ایک معاہدے کے تحت پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے دور دراز پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے غریب بلوچ طلباء کے لئے اسکالرشپ کی بنیاد پر 100 مختص سیٹوں کا اعلان کیا تھا۔ اس انتہائی مثبت اور محبت آمیز عمل کو سابقہ مرکزی حکام کی حمایت بھی حاصل تھی۔

مذکورہ اقدام سے بلوچستان کے ہونہار اور اہل مگر غریب طلباء کو پنجاب کے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کی سہولت میسر آئی تھی۔ اس حوصلہ افزاء عمل سے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختص سیٹوں پر غریب طلباء سمیت متوسط و کم آمدن والے خاندانوں کے ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے بھی پنجاب و اسلام آباد سمیت دیگر صوبوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رخ کیا جن میں طالبات بھی شامل ہیں۔ اس طرح پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر بلوچ نوجوانوں کو دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں سے آشنائی اور رسائی ہوئی تھی اور انہیں تعلیمی میدان میں بھر پور حصہ لینے کے مواقع میسر آئے تھے۔

ساتھ ہی بلوچ نوجوانوں کو پنجاب کے عوام اور خاص کر نوجوانوں سے میل ملاپ، ایک دوسرے کو سمجھنے و جاننے اور برادرانہ تعلقات قائم کر نے کے مواقع میسر آئے جو بے جا لسانی کدورتوں کو مٹانے کے لئے انتہائی اہم اور مددگار پیش رفت تھا۔ مگر بد قسمتی سے پچھلے تین ساڑھے تین سال سے تسلسل کے ساتھ مذکورہ مختص سیٹوں میں کٹوتی کر کے مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ چار سال پہلے یعنی سال 2017ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں موجود مختص سیٹوں میں کٹوتی کر کے نصف کر دیا گیا۔ اب یعنی سال 2020ء میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کے لئے مختص سیٹوں پر موجود اسکالرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جو چند یونیورسٹیاں ہیں وہاں حالت غیر تسلی بخش ہیں۔ پنجاب کی نسبت بلوچستان کے جامعات اور پروفیشنلز تعلیمی اداروں میں شعبہ جات و مضامین انتہائی محدود ہیں اور تعلیمی معیار پست ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے بلوچستان کے دور دراز پسماندہ علاقوں سے جو غریب طلباء پنجاب کا رخ کرتے ہیں یا خواہش مند ہیں، اب ان کے لئے تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔

اس لئے اب پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء نے جمہوری انداز میں پر امن مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اسکالرشپ کی بحالی کے لئے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان نے پہلے حصے میں بلوچستان اور پنجاب حکومت تک اپنی آواز پہنچائی۔ لیکن حکام کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے کے بعد 1 ستمبر 2020ء کو جامعہ بہاؤ الدین زکریا ملتان کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ و دھرنے کا آغاز کیا جو چالیس دن تک مسلسل جاری رہا۔ لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کانوں تک جوں تک نہیں رینگی۔

بی ایس سی ملتان نے دیگر طلباء کونسلز اور طلباء تنظیموں کی مدد سے لاہور، کوئٹہ، کراچی، اسلام آباد اور مظفر گڑھ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ مگر وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے طلباء کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بلوچ طلباء اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے بینر تلے مجبوراً اب ملتان سے لاہور اور اسلام آباد تک پیدل مارچ تحریک کا آغاز کر چکے ہیں۔

مطالبات منظور نا ہونے کی صورت میں طلباء نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان میں موجود اپنے کونسلز سمیت پنجاب و سندھ اور ملک بھر کے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز نے اس تحریک کی حمایت کی ہے۔ دوران پیدل مارچ ایک حادثہ میں ایک طالب علم کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، اکثر طلباء کے پاؤں پر آبلے پڑ گئے ہیں اور چھل کر زخمی ہوئے ہیں اور کئی طلباء بیمار ہو رہے ہیں۔ مگر بلند حوصلوں کے مالک یہ نوجوان پھر بھی ثابت قدم ہیں۔ اس صورتحال سے بلوچستان میں موجود والدین اپنے بچوں کے لئے سخت فکر مند ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ان مخصوص سیٹوں پر آنے والے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وہ ذہین و ہونہار طالب علم ہیں جو اپنی اہلیت اور قابلیت کے بل بوتے پر مذکورہ مخصوص سیٹوں کی بدولت ملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچ پاتے ہیں اور ان کی تعلیمی اخراجات کا واحد ذریعہ اسکالرشپ ہے جس کی وجہ سے وہ پنجاب جیسے دور دراز صوبے کے شہروں میں بیٹھ کر تعلیم کو جاری رکھ پاتے ہیں۔ مکران، خاران، آواران، نوشکی، چاغی، خضدار اور بلوچستان کے دیگر کئی دورافتادہ علاقوں اور گاؤں کے غریب نوجوان کئی کئی دنوں کا ( ہفتے پر محیط ) سفر کر کے کتنی تکالیف اور کس اذیتوں سے گزر کر پنجاب پہنچتے ہیں ہمارے حکام سمیت ایک افراد کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔

اس تمام صورتحال میں بلوچستان حکومت کا کردار انتہائی مایوس کن ہونے کے ساتھ ساتھ بے بسی اور بے عملی کا ناقابل یقین نمونہ ہے۔ وزیر اعلیٰ حسب توقع اور حسب سابق دیگر عوامی مسائل کی طرح مذکورہ اہم مسئلے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ بلوچستان کے دیگر مسائل کی طرح مذکورہ مسئلے پر بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنی خاموشی کی روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

عوامی سطح پر سوشل میڈیا پر لانگ مارچ کی غیر معمولی کوریج کے بعد بادل نخواستہ ملکی میڈیا نے اس مسئلے کا سرسری تذکرہ کیا تو بلوچستان حکومت کو مجبوراً اپنی خاموشی توڑنا پڑی۔ وزیر اعلیٰ کے ترجمان نے ”اپنی ذہنی استعداد کے مطابق“ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں زیر تعلیم ان طلباء کے اخراجات کے لئے رقم جاری کر نے کا اعلان کیا ہے۔ مگر بلوچ طلباء نے صوبائی حکومت کے اس اقدام کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ”یہ مسئلہ صرف ہم زیر تعلیم طلباء کی نہیں ہے، بلکہ ہماری یہ جد و جہد ان غریب نوجوانوں کے لئے بھی ہے جو بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں بیٹھ کر ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے تیاری کر رہے ہیں۔

ہم ان غریب والدین کی تمناؤں کی تکمیل چاہتے ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو اس آس پر تعلیم دے رہے ہیں کہ اگر یہ اہل ہوئے تو اسکالرشپ کی بنیاد پر اعلیٰ اداروں میں معیاری تعلیم سے مستفید ہو سکیں گے۔ اس لئے اگر ہم نے صوبائی حکومت کی اس پیش کش قبول کر لیا تو یہ ان خواہش مند نوجوانوں اور ان غریب والدین کے ساتھ دغا بازی ہوگی ”۔ بلوچ روایتوں کے امین ان قابل فخر نوجوانوں کا یہ جواب ہمارے خود غرض اور ذاتی مفاد کے اسیر حکمرانوں کے لئے نا صرف باعث شرم ہے بلکہ سبق آموز اور قابل تقلید بھی ہے۔

یہ مسئلہ یونیورسٹی انتظامیہ کے اختیار سے باہر ہے۔ بلوچستان حکومت تحریک انصاف حکومت کی حلیف ہے۔ وزیر اعلی جام کمال کو چاہیے وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیاد پر لیں اور پنجاب اور وفاق کی سطح پر اس کے حل کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ جناب عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی بلوچ ہیں اور بلوچستان کے سماجی اور سیاسی حالات سے واقف ہوں گے۔ انھیں چاہیے کہ وہ بلوچ نوجوانوں کی مدعا کو سمجھیں اور اس مسئلے کو حل کر کے بلوچ نوجوانوں کو اپنائیں۔

اگر یہ مسئلہ وفاقی وزارت تعلیم یا ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جامعات کے بجٹ کی کٹوتی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ خود نمائی کے لئے لگائے گئے لنگر خانوں کے بجائے پیسوں کو غریب طالب علموں کی تعلیم پر خرچ کریں تاکہ بھکاریوں کی بجائے تعلیم سے آراستہ قابل، ہنرمند اور عملی طور پر سرگرم نئی نسل تشکیل پا سکے۔

آخر میں عاقبت نا اندیش حکمرانوں سے بس یہی عرض ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں! ہر وہ عمل جو لسانی اکائیوں کو نزدیک لانے، ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے اور ملنے گھلنے میں معاون ہو، جو نفرتوں کو مٹا کر برادرانہ رشتے استوار کرنے اور محبت و یکجہتی کے روایات کو آگے بڑھنے میں مددگار ہوں، ایسے اقدام کو ختم یا محدود کرنے کے بجائے انہیں مزید وسعت دے کر پھیلانا چاہیے۔ یہی دور اندیشی اور حالات کا تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).