ہاجراؤں کے نام


ہاجرہ اس دن زندہ تھی۔ اس سے بات کرتے ہوئے میری آواز بھرا گئی تھی لیکن وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔ وہ عام عورتوں کی طرح برے خاوند کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں سمجھتی تھی، نا ہی غربت اور مسائل کو اپنی بری تقدیر۔ اس لئے آج کی تحریر ہاجرہ کے نام!

میں اس سے بہت شاکی رہنے لگی تھی۔ بات بات پر سرزنش، اس کی صحت اور حالت پہ رحم نہ کھاتے ہوئے، ہر ناغے پر ناراض ہونا۔ لیکن وہ ہاجرہ تھی، بلا کی خود دار! اس نے مجھے شکایت کا موقع دینا کم کر دیا۔

ہاجرہ کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ گستاخی معاف لیکن ہمارے معاشرے میں شوہر چاہے کتنا نکما ہی کیوں نا ہو، ایک کام ہے جو وہ کرنے سے نہیں چوکتا۔ اور غریب عورت اس کے نتیجے میں اپنے پاؤں کے نیچے جنت تلاش کرتے کرتے دنیا میں ہی جہنم سے گزر جاتی ہے۔ اور عورت بھی ہاجرہ جیسی، جو پہلے نو ماہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بچے پیدا کرتی تھی، اور پھر انہیں ایک اچھے مستقبل کے خواب دے کر پالتی تھی۔

میں اسے پچھلے چند سال سے جانتی تھی۔ دبلی پتلی، وحشت زدہ نقوش، وقت کی دھوپ میں جلا ہوا رنگ، اور بے چاری سی صورت۔ بالکل ویسی جیسا ایک غریب کو ہونا چاہیے۔ میرے ذہن میں اس کی ذات سے وابستہ ابتدائی یادیں بہت خوش گوار نہیں ہیں۔ وہ میرے گھر کی صفائی کرنے پہ رضا مند اور پھر غائب ہو گئی۔
”دھوکے باز!“ میرا پہلا خیال اس کے بارے میں یہی تھا۔

کچھ دن بعد وارد ہوئی، معذرت کر کے کام شروع کر دیا۔ کام دل جمعی سے کرتی تھی، کسی اضافی عنایت کی طلب گار نہیں تھی اور سب سے بڑھ کریہ کہ با ادب تھی! ایک دن میں نے سخاوت کو شرمانے کی ٹھانی اور اس کو چند سو روپے صدقہ دینے کی کوشش کی۔ اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے چہرے پہ لکھی جھینپ پڑھ لی اور کہا، ”چلو باجی دے دو، میں اپنی بہن کو دے دوں گی۔“ مجھے غصہ آیا۔ دیکھو تو سہی کیا حیلہ بازی ہے!

پھر ایک دن وہ شام ڈھلے نڈھال چہرہ لئے تشریف لائی۔ ”میں نے خود صفائی کر لی ہے، آپ جائیں“۔ میں غصے میں اتنا ہی کہہ سکی۔ وہ معافی مانگ کر چلی گئی۔

اگلے روز جب آئی تو میرا موڈ خوش گوار تھا۔ میں نے اپنے لئے چائے بنائی تو اسے بھی دے دی۔ وہ آنکھوں میں سارے جہاں کا شکر لیے مجھے دیکھنے لگی۔ اور میں دل ہی دل میں اپنی عظمت پہ شاداں و رقصاں!

”باجی آپ ناراض ہیں؟“ میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔ اگلا سوال آیا۔ ”آپ نے پوچھا نہیں میں کل دیر سے کیوں آئی؟“ ”اوہ اچھا، اب پوچھنے کا کیا فائدہ؟“ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ”مجھے لگا آپ آج میری بہت بزتی کریں گی۔ میں تین جگہ سے بزتی کروا کر آ رہی ہوں۔“

میں نے ہمدردی سے پوچھا۔ ”کتنے گھروں میں کام کرتی ہو؟“ کہنے لگی، ”سات۔“ چائے میرے حلق میں پھنس گئی۔ میں نے بے اختیار کہا، ”جان کہاں ہے تم میں؟“
ذہن میں ایک شناسا خاتون کے جملے گردش کرنے لگے ”یہ لوگ پیسے کی لالچ میں ضرورت سے زیادہ کام کرتی ہیں“میں نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ ”میرا کام صبح سویرے کر لو ساڑھے سات بجے؟“

اس کے چہرے پہ پریشانی آ گئی۔ ”باجی اس وقت تو نہیں آ سکتی 6 بجے کروا لیں۔ میں ساڑھے چار بجے یہاں کام کرنے آتی ہوں۔“ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔ وہ اسلام آباد میں سردیوں کے دن تھے۔ مجھے الفاظ ترتیب دینے میں مشکل ہونے لگی۔ ”ساڑھے چار کیوں آتی ہو؟“
”7 بجے واپس گھر جاتی ہوں باجی۔ بچیاں اسکول جاتی ہیں۔“

مجھے ہاجرہ کے لئے دل میں ہمدردی رکھنا اس کی توہین محسوس ہو رہی تھی وہ ہمدردی سے بہتر جذبے کی مستحق تھی۔ میں نے ایک روایتی سوال داغا ”شوہر بھی تو کماتا ہو گا؟“ اور جواب وہی آیا جو آنا چاہیے تھا، ”نہیں باجی، وہ نہیں کماتا“
”پھر گزارا کیسے ہوتا ہے؟ بچیاں کون سے اسکول میں جاتی ہیں؟ کتنے بچے ہیں؟ کہاں رہتی ہو؟ کئی سوال تھے۔ اور جواباً اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔
”میری بچیاں یہاں پرائیویٹ اسکول میں پڑھتی ہیں باجی۔ میں بھی میٹرک پاس ہوں۔ میری بچیاں بھی کام نہیں کریں گی۔ وہ آپ جیسی بنیں گی۔
میں ٹھٹک گئی۔ ”مجھ جیسی، کیوں؟“
”پڑھی لکھی، غریبوں سے پیار محبت کرنے والی۔“
مکھن لگا رہی ہے یہ سوچ کر میں نے پہلو بدلا۔
” کل کیوں نہیں آئیں تھیں؟“

” میری بڑی بہن کو کینسر ہے۔ اس کو شعاعیں لگوانے جاتی ہوں۔ بہن کی وٹے سٹے کی شادی تھی۔ بھائی نے بھابی کو طلاق دے دی تو بہنوئی نے بھی بہن کو چھوڑ دیا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں ہی علاج کرواتی ہوں اس کا۔“ دل میں خیال آیا پتا نہیں کب تک عورتیں ایسے مردوں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتتی رہیں گی؟
وہ بہت حوصلہ مند تھی، اپنی بہن کے بچوں کو تعلیم بھی دلوانا چاہتی تھی۔ میں غصے میں اس کے شوہر کو برا بھلا کہتی تو وہ کہتی، باجی اکیلی عورت کا کوئی آسرا نہیں۔ میرے ماں باپ کو ایک بیٹی کا ”دکھ“ ہی کافی ہے!

وہ اکثر اپنے بیٹے کو ساتھ لاتی تھی۔ ”باجی میرا ڈیڑھ سال کا باسط علی ہے، سوچا تھا اس کا باپ سدھر جائے گا بیٹا ہو گا تو لیکن کہاں! پندرہ دن کا تھا جب میں نے اپنے باسط علی کو گھر چھوڑ دیا اور کام کرنے نکل آئی آپریشن کے بعد۔ گھر میں فاقے ہو رہے تھے باجی۔“

رمضان گرمیوں میں آیا تھا اور دھوپ شاید ہمارے ایمان کو بھی پگھلا رہی تھی جو ہر آتے جاتے سے روزوں کی طوالت اور سختی کا رونا رو رہے تھے۔ ہاجرہ سحری کر کے گھر سے نکلتی تھی، روزے کی حالت میں شدید گرمی میں سارے کام کرتی تھی، اور اف تک نہ کرتی۔

خیر، تو ہاجرہ کے نکمے شوہر نے اس کی مرضی کے خلاف، اسے ایک بار پھر مشکل میں مبتلا کر دیا تھا۔ آرام نہ کرنے کے باعث اس کے کیس میں بہت پیچیدگیاں تھیں۔ دو ہفتے قبل وہ اجازت لینے آئی۔ ڈاکٹر نے اگلے ہفتے ’بڑا آپریشن‘ کہا تھا اور اسے داخل ہونا تھا۔ میں نے اسے خوش دلی سے اجازت دے دی اور ساتھ ہی جو بھی بن پڑا۔
پر تشکر آنکھوں سے مجھے دیکھ کر کہنے لگی ’باجی مجھے کام سے نہ نکالنا‘ ۔ مجھے اس حوا کی بیٹی پر ترس آنے لگا۔

اگلے روز شام میں اطلاع آئی کہ ہاجرہ کے بچے کو پیدا ہوتے ہی موت نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا اور وہ خود موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس کے لیے مسیحاوں نے جو دوا تجویز کی تھی، اسے ’دعا‘ کہتے ہیں۔ میرے لیے وہ رات بہت مشکل تھی۔ صبح جتنی جلدی ممکن ہوا اسپتال پہنچ گئی۔

ندامت سے میرا دل پھٹ رہا تھا۔ ہم لوگوں کو سکھ دینے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ بستر پر پڑے مشینوں سے سانس لیتے ہوئے جس وجود کی میں مدد کرنے آئی تھی، اگر وہی رقم میں اسے دو ماہ پہلے دے کر کہتی کہ ’جاو ہاجرہ آرام کرو، تمہیں آرام کی ضرورت ہے‘ تو شاید آج وہ کچھ بہتر ہوتی!

بہت کچھ ایسا ہے جو میں نہیں لکھ سکتی، جس کو لکھنے کا حوصلہ نہیں ہے اور میرے پاس اس کی امانت ہے۔ اس کے 3 آپریشن ہوئے، گردے ناکارہ ہو گئے، بچے نجی اسکول سے نکل کر سرکاری اسکول میں چلے گئے لیکن اس دن وہ زندہ تھی اور میں نے فون پر اس کی آواز سنی تھی۔ وہ نحیف آواز جو میرے کانوں میں آج بھی ہر اس محنت کرنے والے کی منقبت بن کر گونج رہی ہے جسے اللہ نے رزق حلال کمانے کی توفیق دی ہے۔

اب اس بات کو دو برس بیت چکے ہیں۔ ہاجرہ وہاں جا چکی ہے جہاں اسے کوئی دکھ، کوئی غم نہیں ہو گا۔ ہاجرہ کے شوہر جیسے لوگ بھی اسی دنیا میں رہیں گے، اور ہاجرہ جیسے لوگ بھی اسی دنیا میں رہیں گے اس امید پر کہ آخری جنت صرف ہاجراؤں کی ہی ہے۔

آئیے اپنے آس پاس کسی ہاجرہ کو تلاش کریں اور اس کی زندگی کے جہنم کو بہتر بنا دیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).