انتخابی اشتہارات: ٹرمپ اور بائیڈن کی مہمات کیسے مختلف ہیں؟


امریکہ میں ری پبلکن جماعت کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن نے فیس بک اور انسٹا گرام پر اشتہارات چلانے کے لیے 100 ملین ڈالر استعمال کیے ہیں۔ یہ رقم تین نومبر کے صدارتی انتخاب کے لیے دونوں جانب سے جون سے اب تک خرچ کی گئی ہے۔

ماضی قریب میں انتخابی مہم کے دوران امیدوار زیادہ تر رقم ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اشتہارات پر خرچ کیا کرتے تھے۔

ٹیلی ویژن کو اب بھی لوگوں تک پیغام پہنچانے کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا بھی پیغام رسانی کا اہم ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔

سوشل میڈیا کو کئی عوامل کی بدولت سماجی رابطوں کے ساتھ ساتھ سیاسی رابطوں کے لیے بھی اہم ترین پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔

اس ضمن میں سیراکیوز یونیورسٹی کے شعبہ اطلاعات سے وابستہ پروفیسر جینیفر اسٹرومر گیلی کہتی ہیں کہ انتخابی مہم سوشل میڈیا کو چندہ اکٹھا کرنے، ووٹروں کو تلاش کرنے اور اپنے لیے حمایتی لوگوں کو جاننے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

ان کے بقول انتخابی مہمات یہ بھی جاننا چاہتی ہیں کہ ان کی حمایت کرنے والے لوگ کن مسائل پر کس وجہ سے گرم جوش اور متحرک ہوتے ہیں۔


جینیفر اسٹرومر “دی الومینٹنگ پراجیکٹ” نامی منصوبے پر بھی کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق فیس بک کے ذریعے مہمات چھوٹی سے چھوٹی عوامی سطح پر اپنا پیغام لے جا سکتی ہیں جب کہ ٹیلی ویژن پر اشتہارات ایسا نہیں کر سکتے۔

مثال کے طور پر اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کی حیثیت سے سیراکیوز کے علاقے میں کوئی ٹی وی اشتہار چلاتے ہیں تو آپ زیادہ تر ڈیموکریٹ لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں اگر آپ فیس بک کے ذریعے کوئی اشتہار چلاتے ہیں تو آپ ری پبلکن خیالات کی طرف مائل ووٹروں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ فیس بک پر یہ کام الگورتھم کی بنیاد پر ہوتا ہے جو کہ ایک فائدہ مند طریقہ کار ہے۔

اس سال کے انتخابات میں اشتہارات پر متوقع خرچ؟

اس سال کی دونوں طرف کی انتخابی مہم پر “سینٹر فار ریسپانسو پالیٹکس” کے مطابق گیارہ ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ رقم 2016 کے انتخابات پر خرچ کی گئی رقم سے 50 فی صد زیادہ ہے۔

وفاقی سطح اور گورنروں کے انتخاب پر نظر رکھنے والے ادارے “ویزلیئن میڈیا پراجیکٹ” کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے حریف بائیڈن کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر 22 فی صد زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں، جب کہ اس سال اپریل سے اب تک بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے مقابلے میں ٹیلی ویژن پر 28 فی صد زائد رقم خرچ کی ہے۔

صدر ٹرمپ نے فیس بک اور گوگل اشتہارات پر ٹیلی ویژن کے مقابلے میں زیادہ رقوم خرچ کی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر اشتہار چلانے میں سوشل میڈیا سے دس گنا زیادہ خرچ ہوتا ہے۔

بائیڈن کی مہم نے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے فٹ بال کے میچوں سے پہلے قیمتی وقت میں اشتہارات چلائے۔

دوسری طرف ٹرمپ مہم نے اپنے اشتہاری بجٹ کو اوہائیو اور آئیووا ریاستوں سے منتقل کر کے جارجیا اور ایریزونا ریاستوں پر مرکوز کیا ہے کیوں کہ ان ریاستوں میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اس سلسلے میں ایک دلچسب امر یہ ہے کہ انتخابی مہمات دیکھتی ہیں کہ ووٹروں کے نزدیک کون سے مسائل اہم ہیں یا ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس بات کو جانچنے کے لیے وہ مختلف اشتہار چلاتے ہیں۔ اور جوں ہی سوشل میڈیا کے صارفین کسی اشتہار پر پریس بٹن دباتے یا کلک کرتے ہیں تو وہ مہم ان صارفین کے متعلق معلومات جمع کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

صارفین کے متعلق جمع کردہ معلومات کو مہمات پہلے ہی سے موجود معلومات کے ڈیٹا بیس کے ساتھ ملا کر ان ووٹروں کی پروفائل بناتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ان کی جتنی زیادہ اطلاعات دستیاب ہوں گی، اتنا ہی ان کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے تاکہ وہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ فلاں ووٹر ان کے لیے ووٹ ڈالیں گے یا نہیں۔

سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کے اشتہارات میں فرق

جینیفر اسٹرومر نے بتایا کہ اطلاعات کے اس ڈیٹا بیس سے مہمات کو اس بات میں بھی مدد ملتی ہے کہ وہ ووٹروں کو کس قسم کے فیس بک پیغامات بھیجیں کہ جن سے ووٹروں کو ان کی طرف راغب کیا جاسکے۔

اس کے مقابلے میں ٹی وی اشتہارات کسی امیدوار کے کردار، قائدانہ صلاحیت اور اس کی پالیسیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے اشتہارات میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ٹی وی اشتہار عمل کی طرف مائل کرتا ہے جب کہ سوشل میڈیا کی مہم ووٹروں کو اپنے پیغام کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہے۔

ڈاک کے ذریعے بڑی تعداد میں ووٹ بھیجے جا رہے ہیں۔

لیکن ماہر جینیفر اسٹرومر کے مطابق صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے ٹیلی ویژن کے اشتہارات میں بھی فرق ہے۔

ان کے مطابق ٹرمپ کے پیغامات میں ایک اہم پیغام تیل کی تلاش میں کنووں کی کھدائی کے متعلق ہے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز میں اس مسئلے پر واضح اختلاف ہے۔

اسٹرومر کہتی ہیں صدر ٹرمپ کی مہم سمجھتی ہے کہ اس پیغام سے وہ ری پبلکن پارٹی کی طرف مائل لوگوں کی حمایت حاصل کر سکیں گے کیوں کہ اس اشتہار کو دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ وہ بھی اس مسئلے کو اہم سمجھتے ہیں۔

اسٹرومر کے مطابق صدر ٹرمپ کا اپنے پیغامات میں مسائل پر زیادہ زور ہے جب کہ بائیڈن ٹرمپ کے مخالف امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں اور وہ کم ہی مسائل پر زیادہ بات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa