ہمیں نادرہ یا گوری نہ سمجھا جائے، پلیز!


یادش بخیر، کسی زمانے میں فلمی اداکاراؤں سے اخباری انٹرویو میں ایک سوال ضرور پوچھا جاتا تھا کہ اگر آپ کو فلموں میں ’بولڈ سین‘ کرنے کو کہا جائے تو کیا آپ تیار ہو جائیں گی۔ جواب میں اداکارہ کہتی تھی ”اگر سکرپٹ کی ڈیمانڈ ہوئی تو ضرور کروں گی۔“ اس زمانے کے فرسٹریٹڈ نوجوانوں کے لیے اخبار کا یہ جملہ ہی کافی ہوتا تھا۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد آئی کہ اسی یا نوے کی دہائی تک خواتین کا فلموں میں کام کرنا بے حد معیوب سمجھا جاتا تھا بلکہ سچ پوچھیں تو ان کے لیے خاصے بیہودہ القاب استعمال کیے جاتے تھے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ زیادہ تر اداکارائیں لاہور اور ملتان کے اس خاص بازار سے آتی تھیں جو رقاصاؤں کے لیے مشہور تھے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔

اس خاص پس منظر کی وجہ سے فلمی دنیا میں کام کرنے والی خواتین پر ایک مخصوص ٹھپہ لگ چکا تھا جس سے کئی دہائیوں کے بعد اب کہیں جا کر چھٹکارا ملا ہے۔ آج اچھے گھرانوں کی پڑھی لکھی خواتین بھی فلموں میں کام کر رہی ہیں اور ان کی خواندگی کی وجہ سے ہی ان کی عزت کی جاتی ہے۔ مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم ان پرانی اداکاراؤں کی محض اس وجہ سے تضحیک کریں کہ وہ کانونٹ یا گرامر اسکول میں نہیں پڑھ سکیں یا حالات کے جبر نے انہیں بازار میں لا پھینکا لہذا انہیں کسی بھی اچھے برے نام سے پکارا جا سکتا ہے۔

آج کل کی اداکارائیں البتہ زیادہ ’سمارٹ‘ ہیں، انہیں اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ اب نادرہ اور گوری کا زمانہ نہیں رہا، یہ نیا دور ہے، یہ پیروں میں گھنگرو باندھ کر ولن کے سامنے رقص کرنے کا دور نہیں، اس جدید دور میں ایکٹریس کو نہ صرف انگریزی بولنی آنی چاہیے بلکہ اسے ’ایکٹیوسٹ‘ بھی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کے اداکار، مرد ہوں یا عورت، جب کسی ٹی وی پروگرام میں مدعو کیے جاتے ہیں تو ان کے نام کے ساتھ ’اداکار /سماجی کارکن‘ لکھا جاتا ہے۔ مجھے ان کے نئے لقب پر کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ یہ اداکارائیں اس لقب کی لاج بھی رکھیں۔

فی زمانہ کسی ایکٹریس کا اداکاری میں کمال پیدا کرنا اتنا ضروری نہیں جتنا ایکٹیو ازم سیکھنا ضروری ہے، اس سے اقوام متحدہ کا سفیر بننے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ دراصل آج کل اس قسم کی ماڈرن نیکیوں کو ’کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی‘ کہتے ہیں جبکہ ان نیکیوں کو دریا سے باہر نکال کر دنیا کے سامنے لٹکانے والوں کو ’گڈ ول ایمبیسڈر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اتنی حیرانی کی بات بھی نہیں کیونکہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں فیض کی انقلابی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو ایک مشروب بنانے والی عالمی کمپنی اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہے اور ہم اسے سامراج کے خلاف انقلاب سمجھ کر یوں سر دھنتے ہیں جیسے یہ بھی کوئی ایکٹیو ازم ہو۔ بات کہیں اور نہ نکل جائے، واپس آتے ہیں۔ آج کل کے اداکار جس کام کو ایکٹیو ازم سمجھ رہے ہیں اس کا ایکٹیو ازم سے دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ کو کہا جائے کہ ہندوستان میں کوئی اداکارہ بڑھ چڑھ

کر بی جے پی کی کشمیر پالیسی کی حمایت کرتی ہے یا ہندوتوا کا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ عورتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی مذمت میں کسی ریلی میں بھی شرکت کرتی ہے تو کیا آپ اس اداکارہ کو ایکٹیوسٹ کہیں گے؟ جی نہیں۔ ہندوستان میں حقیقی ایکٹیوسٹ اس خاتون کو کہا جائے گا جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائے گی، مظلوم مسلمانوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات اور نچلی ذات والوں کے حقوق کے لیے جد و جہد کرے گی، آر ایس ایس کی غنڈہ گردی کے خلاف مزاحمت کرے گی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مسلمان طلبا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوگی۔

اب انہی مثالوں کو اپنے ہاں منطبق کریں اور دیکھیں کہ کون سی اداکارہ ایکٹیو ازم کے اس معیار پر پورا اترتی ہے۔ ہم سب عورتوں اور بچیوں کے ریپ کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ اس میں مخالفت والی کوئی بات نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ویٹیکن میں مسیحیت کا پرچار کرنا۔ اسی طرح کشمیر کے بارے میں بیان جاری کرنا بھی بہت ’آرام دہ ایکٹیو ازم‘ ہے، اس میں بھی کوئی ناراض نہیں ہوتا، بلکہ ناراض کیا ہونا اس پر تو ٹی وی چینل خبریں چلاتے ہیں کہ فلاں اداکارہ نے بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ بہت جاندار انداز میں پیش کیا۔

جبکہ اصل ایکٹیو ازم یہ ہے کہ ان اداکاراؤں میں سے کوئی بلوچوں کے حقوق کی بات کرے، لا پتا افراد کا مقدمہ لڑے، اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص پر جب ظلم ہو تو اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہو، زور آور کے خلاف آواز اٹھائے، یا کم از کم کسی انقلابی نظریے کا پرچار تو کرے۔ یہ اداکارائیں ایسا کوئی ایک کام بھی نہیں کرتیں مگر چاہتی ہیں کہ انہیں ایکٹیوسٹ لکھا اور پکارا جائے، گوری یا نادرہ نہ سمجھا جائے، کیونکہ یہ پڑھی لکھی ہیں اور انگریزی میں ٹویٹ کر سکتی ہیں۔

1973 میں مارلن برانڈو کو فلم گاڈ فادر میں بہترین اداکاری کرنے پر آسکر ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا، تاہم راجر مور نے جب تقریب میں مارلن برانڈو کا نام پکارا تو اس کی جگہ ایک لڑکی سٹیج پر آئی اور اس نے کہا کہ مارلن برانڈو نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ہالی وڈ فلم انڈسٹری کا انڈین امریکیوں (Native Americans) کے ساتھ سلوک بہت متعصبانہ ہے، یہی نہیں بلکہ اس لڑکی نے امریکی حکومت اور فوج کی ان کارروائیوں کا ذکر بھی کیا جو اس وقت ان لوگوں کے خلاف ایک ریاست میں جاری تھیں۔

یہ ایکٹیو ازم کی ایک مثال ہے۔ شمالی کوریا میں جب کوئی شخص جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہے گا تو وہ ایکٹیو اسٹ کہلائے گا، چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نغموں کی دھن پر ناچنے والی اداکارہ کو ہم ایکٹیواسٹ نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح امریکہ میں رہتے ہوئے اسرائیل کے خلاف لابنگ کرنا اور اسرائیلی ریاست کے خلاف کمپنیوں کو بائیکاٹ پر آمادہ کرنا اصل ایکٹیو ازم ہے نا کہ ٹرمپ کے حق میں ریلی نکالنا۔ سو پاکستانی اداکاروں سے میری درخواست ہے کہ آگے آئیں اور اصل ایکٹو ازم کریں، اور اگر یہ کام مشکل ہے تو پھر براہ مہربانی یہ ہو میو پیتھک ٹویٹس کرنا بند کریں، ریپ کے خلاف مظاہرہ کر ناقابل تحسین ہے مگر کبھی لا پتا افراد کے اہل خانہ کے ساتھ بھی بیٹھ کر دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں، ہو سکے تو ان کا بیان ٹویٹ ہی کر دیں۔ اور اگر اس میدان میں پر جلتے ہیں تو پھر یہ ایکٹیو ازم کا

ڈرامہ چھوڑ دیں کیونکہ پاکستان میں بیٹھ کر زور آور کے بیانیے کو بڑھاوا دینے کو ایکٹیو ازم نہیں کہتے، اسے ولن کے سامنے گھنگرو باندھ کر رقص کرنا کہتے ہیں۔

کالم کی دم: آج کل ہمارے ’اچھے‘ گھرانوں کے جدید گلوکار پرانے پنجابی گانوں کو نہلا دھلا کر اپنی طرح معزز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تازہ مثال ہے ’نیہڑے آ ظالماں وے، میں بھج گئی آں۔‘ اس قسم کے گانے جب سنیما میں ریلیز ہوتے تھے تو ہماری ایلیٹ ”How vulgar“ کہہ کر ناک سکیڑ لیتی تھی مگر اب چونکہ ان کے اپنے بچے ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے یہ گانے ری مکس کر رہے ہیں تو اب وہی گانے مشرف بہ ایلیٹ ہو گئے ہیں۔ میشا شفیع گائے تو آرٹسٹ کہلائے، نصیبو لعل گائے تو لچر پن کہلائے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada