سینے کا کینسر


موبائل فون پر آج کل کسی کو بھی کال کریں، تو چھاتی یا سینے کے کینسر کے بارے ایک آگاہی پیغام سننے کو ملتا ہے۔ سینے کے کینسر سے مجھے گاؤں کا ایک کردار یاد آ گیا۔

نیاز عرف نیاجا، اپنے تئیں نہایت با اخلاق اور وضع دار آدمی تھا۔ چال چلن سطحی طور پہ مناسب سا تھا۔ گھر کے آگے نیم کے درخت کے نیچے کھجور کے پتوں کے بان سے بنی ایک بڑی چارپائی ڈالی ہوئی تھی۔ جس پر ہر وقت تین چار آدمی بیٹھے خوش گپیاں کرتے رہتے اور باتوں سے فراغت کے وقت تاش وغیرہ کھیل لیتے۔ نیاجا تاش تو نہ کھیلتا البتہ چغلیاں وغیرہ نہایت تن دہی سے فرض سمجھ کے کرتا۔ نیاجے کی چارپائی پہ جو بھی بیٹھا ہوتا۔ نیاجا اس کی تعریفوں میں آسمان کے قلابے ملا دیتا۔

لیکن جیسے ہی وہ آدمی اٹھ کر جاتا پیچھے موجود آدمیوں میں نیاجا اس آدمی کی وہ بد تعریفیاں کرتا کہ سننے والا پریشان ہو جاتا۔ نیاجے کی اس عادت کریہہ کی وجہ سے چارپائی پر موجود ہر آدمی کی کوشش ہوتی کہ وہ سب سے آخر میں اٹھ کر جائے مبادا پیچھے سے نیاجا اس کے خلاف بھاری بھرکم صلواتوں سے لیس اس کی تعریفیں کرے۔

متعدد ہم نوع واقعات میں سے تمثیلاً ایک واقعہ یہ ہے کہ گاؤں کا ایک آدمی حنیف اس کی چارپائی پہ آ کے بیٹھا تو نیاجے نے وہاں موجود حضرات کے سامنے اس کی تعریفوں کا تانتا باندھ دیا۔ بولا کہ جب بھائی حنیف جوان تھا تو اس کے ڈولے اتنے اتنے بڑے تھے۔ اکھاڑے کے تماشائی بھی اس کی جسمانی ہیبت سے مرعوب و محظوظ ہوتے تھے۔ کوئی بھی پہلوان اس کے ساتھ مقابلے سے ڈرتا تھا۔ کسی کو جرآت نہیں ہوتی تھی کہ بھائی حنیف سے مقابلے کے لئے میدان میں اترے۔

ہر پہلوان چھپتا پھرتا ہوتا تھا۔ غرض کہ حنیف بھائی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ شومئی قسمت کہ حنیف بھائی کو گھر سے بلاوا آ گیا۔ ابھی وہ جا ہی رہا تھا کہ نیاجا بولا کہ حنیف اتنا رگل اور مریل ہوتا تھا کہ اسے کسی پہلوان کے ساتھ مقابلے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ اگر کسی جگہ اس کا کسی پہلوان سے مقابلہ ہو بھی گیا تو ایک منٹ کے اندر اندر اس نے شرمندہ کروا دیا۔ نیاجے کی یہ خوبی تھی کہ آدمی کے سامنے جتنے احترام سے اس کی تعریفیں کرتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے دگنی بد تعریفیاں کرتا تھا۔ اور ہر بد تعریفی کو بہرحال ایک وزنی گالی سے مزید وزنی بنا لیتا تھا۔

اسی طرح ایک دفعہ، طالب اس کی چارپائی پہ آ کے بیٹھا تو طالب کے چہرے کے جاہ و جلال کے قصیدے پڑھنے لگا۔ موٹی اور رعب دار آنکھوں کے تذکرے سے لے کر گلابی سرخ گالوں تک غرض کہ طالب کو ایک نہایت وجیہ و جمیل آدمی کے طور پر پیش کر دیا اور جیسے ہی طالب اس کی چارپائی سے اٹھا، نیاجا دبیز گالیوں کی موٹی تہ لگا کے بولا کہ جوانی میں بھی طالب کی یرقان آلود شکل سے پھٹکار ہی برستی تھی۔

سراج اس کی چارپائی پر جب تک بیٹھا رہتا، نیاجا اسے اپنے زمانے کا نہایت ایماندار، خوش اخلاق اور حلیم آدمی ثابت کرتا رہتا اور دریں اثنا نجانے کیا کیا القاب دے کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ سراج سے بہتر آدمی تو اس گاؤں میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ لیکن جب سراج چارپائی چھوڑ کر جاتا، نیاجا پہلے تو سیر ہو کر گالیوں کی جگالی کرتا پھر ساتھ ساتھ بتاتا کہ پورے گاؤں میں سراج جیسا بے ایمان آدمی اس نے پوری زندگی نہیں دیکھا۔ لوگوں کی مرغیوں کے انڈے اور دوسروں کی فصلوں سے چارہ، چوری کرتا ہے۔ اپنی ماں تک کو گالیاں دیتا ہے۔ ماں کی پٹائی کر چکا ہے۔ رہی سہی کسر اس کی زوجہ کے کردار پر وسیع بہتان بازی سے پوری کر دیتا۔ وغیرہ۔

سینوں میں بغض، عناد و منافقت ایک کینسر سے کم نہیں، جو اندر ہی اندر انسان کو نچوڑ ڈالتا ہے اور اسے اس درجے تک گرا دیتا ہے، جہاں وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر انسان نہیں۔ جو لوگ سینوں میں دوسروں کے بارے بغض رکھتے اور نفرت پھیلاتے ہیں، اصل میں چھاتی یا سینے کے کینسر میں مبتلا مریض ہیں۔ یہ لوگ آپ کو ہر جگہ بکثرت ملیں گے۔ رشتہ داروں میں، دفاتر میں، دوران سفر، سکول میں، کالج میں دکانوں اور مارکیٹوں میں، الغرض ایسے مریض ہر جگہ موجود ہیں۔

یہ مریض اپنا مرض بطریق احسن کیش کراتے ہیں۔ بلا تفریق فورم طریقہ ہائے واردات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایسے مرضاء کے اکثر خصائص میں سے چند ایک یہ ہیں۔ جن جملہ وجوہ کی بنا پر دفاتر میں یہ سینے کے کینسر میں مبتلا مریض سب سے زیادہ کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ بلاناغہ اپنے باس/صاحب کے پاس بہانے بہانے سے جاتے ہیں۔ بھر پور مکھن لگاتے ہیں۔ اگر کوئی پڑی چیز مل جائے تو سارا دن اٹھاتے رہتے ہیں۔ صبح صبح سب سے پہلا کام صاحب کو سلام دینے سے کرتے ہیں۔ رنگ محل سے برینڈڈ عینک کا ریپلیکا خرید کر صاحب کو یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ ان کے ابا کی نانی کے پھپھڑ یو کے سے آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں نے آپ کے لئے یہ برینڈڈ گلاسز منگوائے ہیں۔

صاحب اور ان کی فیملی کے لئے شاپنگ کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ دعوتیں ترتیب دیتے ہیں۔ صاحب کے گھریلو کام کاج میں بھی حد درجہ دل چسپی دکھاتے ہیں۔ صبح آفس کے سامنے صاحب کی گاڑی کا اس لیے انتظار کرتے ہیں تا کہ صاحب کے لئے دروازہ کھول سکیں۔ الغرض تحائف کی ون وے ٹریفک کبھی جام نہیں ہونے دیتے۔

ان سارے اعلیٰ و ارفع عوامل کے ساتھ ساتھ چودھری نیاجے والے کام بھی بدرجۂ اتم کرتے رہتے ہیں۔ صاحب کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ”شو“ کرنے کے پیچھے جو سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے، وہ ہے آفس میں دوسرے کولیگ پر اپنی دھاک بٹھانا۔ ریکارڈ کی درستی کے لئے یہ حقیقت بیان کرنا بھی اہم ہے کہ اکثر و بیشتر، صاحب کی نظر کرم بھی انہی سینے کے کینسر کے مریضوں پر ہوتی ہے۔

کینسر کے ان مریضوں کی دل چسپی در اصل صاحب سے زیادہ اس کرسی میں ہوتی ہے جس پر صاحب بیٹھتا ہے۔ اگر صاحب بدل جائے تو اگلے ہی لمحے یہ مریض ساری مراعات کی بندش کے ساتھ خود بھی صاحب کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایسا ہی ایک مریض اپنے صاحب کے ساتھ اس کی میز پر بھنے چنے تناول کر رہا تھا کہ دریں اثنا صاحب کی ٹرانسفر کے آرڈر آ گئے۔ مریض نے اگلی ہی ساعت میں اس کی میز سے چنوں والا لفافہ اٹھایا اور جیب میں ڈال لیا۔ صاحب نے وجہ تسمیہ جاننے کی کوشش کی تو مریض بولا کہ ان چنوں پر آپ کی مہر ختم اور آنے والے صاحب کی شروع ہو چکی ہے۔

اللہ سینے یا چھاتی کے کینسر کے ایسے مریضوں سے پاکستان کے ہر دفتر کو محفوظ فرمائے۔ چاہے وہ دفتر ایمی بھائی ہی کا کیوں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).