شکار یا شکاری: فیصلہ ماں کا


پاکستانی معاشرے میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہوتے ہوئے مظالم اور ریپ کو روکنے کے لئے، ہم جب پچھلے ایک دو سال میں ہونے والے واقعات پر غور کرتے ہیں، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ شکار کی عمر، زندگی، لباس، جگہ، مذہب، وقت، گلیمر اور دیگر عوامل کوئی معنی نہیں رکھتے۔ شکاری کو جب ہوس ہو گی، وہ گھات لگائے گا اور شکار کر لے گا۔ عام طور پہ شکار ہمیشہ کمزور ہوتا ہے اور وہ مزاحمت کر لے تو بھی شکار بن جاتا ہے، بلکہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ویسے ایسی زندگی کا کرنا بھی کیا ہے، جس میں اس واقعے کے بعد ہر مرد آپ کو تر نوالہ سمجھے اور ہر عورت بد کردار۔

مجھے لگتا ہے کہ شکار بننے سے بچنے کے طریقے سکھانے کے ساتھ ساتھ، ہمیں معاشرے میں بڑھتے ہوئے شکاریوں کی شرح میں بھی کمی لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں بہت سے عناصر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جن میں والدین اور اساتذہ سب سے اہم ہیں۔ ان دونوں کرداروں کا بچوں کی تربیت میں اہم حصہ ہے۔ لیکن میری دانست میں اساتذہ سے بھی اہم کردار ماں باپ کا ہے۔ اور ماں باپ میں سے زیادہ اہم مجھے ماں کا کردار لگتا ہے۔

ماں کی عظمت پہ بہت کچھ کہا گیا اور لکھا گیا ہے۔ ماں کا درجہ بھی باپ سے بلند سمجھا جاتا ہے۔ اور سب لوگ اس بات سے متفق بھی ہیں کہ ماں بچوں کی نفسیات کو باپ سے زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ بڑے عہدوں کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں بھی جڑی ہوتی ہیں اور ماؤں کو وہ بڑی ذمہ داریاں چیلنج سمجھ کے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت ہے، جس میں بیٹی اور بیٹا دونوں شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کی تربیت پہ بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور شاید یہ توجہ بیٹوں کا حصہ بھی لے جاتی ہے۔ بیٹیوں کو نیک اور تابع فرمان بناتے بناتے ہم بیٹوں کو شکاری بنا دیتے ہیں۔ بیٹے کا سوشل سرکل کیا ہے۔ عادتیں کیسی بن رہی ہیں۔ موبائل پہ کیا دیکھا جا رہا ہے۔ کمرے میں کتنا وقت دروازہ بند کر کے گزارہ جاتا ہے؟ سکول سے واپسی پہ وقت زیادہ کیوں لگتا ہے؟

صبح وقت سے بہت پہلے کیوں چلے جاتے ہیں؟ بہنوں کو ساتھ کیوں نہیں لے جاتے؟ کپڑے کب کہاں سے کیسے خراب ہوتے ہیں؟ یہ سارے چھوٹے چھوٹے سوالات ہیں، جن کا جواب ہر ماں اور باپ کے پاس ہونا ضروری ہے۔ عام طور پہ یہ ساری باتیں لڑکیوں سے پوچھی بھی جاتی ہیں اور انہیں ایسے کاموں سے باز بھی رکھا جاتا ہے جو ان کے خاندان کے لئے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں۔ لیکن لڑکوں کے معاملات میں کوتاہی برتی جاتی ہے جو بعد میں خاندان کو معاشرے میں رسوا کروانے کا سبب بنتے ہیں۔

بچپن ہی سے جب آپ اپنے بچوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ کسی کو اپنے خاص حصوں کو نہیں چھونے دینا، وہاں یہ بھی بتائیں کہ آپ نے بھی کسی کو نہیں چھونا۔ جہاں لڑکیوں کو بتاتے ہیں کہ بازار میں لڑکوں کو دیکھ کے مسکرانا نہیں، وہاں لڑکوں کو بھی بتائیں کہ لڑکیوں کی شرم و حیا کو پامال مت کریں۔ غرض جیسی تربیت لڑکیوں کی کرتے ہیں، ویسی ہی تربیت جان لڑا کے لڑکوں کی بھی کریں۔ ایسا کرنے سے نا صرف آپ اپنے بچوں کو شکار بننے سے روکیں گی بلکہ انہیں شکاری بننے کے موقع بھی نہیں دیں گی۔

مائیں اپنے بچوں کی روٹین کو باپ سے بہتر سمجھتی ہیں اور کسی بھی طرح کی تبدیلی کو آسانی سے محسوس کر لیتی ہیں۔ لیکن بعض دفعہ وہ ان تبدیلیوں کو کئی وجوہ کی بنا پہ نظر انداز کر دیتی ہیں اور اگر وہ کسی غلطی کو جان بھی لیں تو بچوں کو باپ کی مار یا غصہ سے بچانے کے لئے وہ ان کی غلطیاں باپ تک نہیں پہنچنے دیتی۔ ماں کو چاہیے کہ خاص طور پر لڑکوں کی تربیت میں، باپ کو شامل کریں، تا کہ آپ بچوں کو بگاڑنے کے الزام سے بھی بچ جائیں اور اوائل عمری ہی سے ان کو درست سمت میں لے کے جا سکیں۔

لیکن آج مسئلہ یہ ہے کہ مائیں یہ ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ گھر کا کام بھی کرتی ہیں اور مردوں سے زیادہ کرتی ہیں، اس لیے اگر باپ کے پاس وقت نہیں تو ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ پھر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ لڑکے باپ کی ذمہ داری ہیں اور لڑکیاں ماں کی۔ لیکن اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں، کیا آپ اس مردوں کے معاشرے میں مردوں کو تبدیل نہیں کرنا چاہتیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو پھر ان کی تربیت اپنی مرضی کے مطابق کریں۔

مردوں کے اس بے رحم معاشرے میں اپنے برابری کے مسئلوں کو سلجھانے کے ساتھ ساتھ اپنی نسل کی باگ ڈور مردوں کے ہاتھ میں نہ دیں۔ جو مسائل ابھی جلوس نکالنے سے حل نہیں ہو رہے، وہ تربیت سے ہو سکتے ہیں۔ ویسے ہی اپنے لڑکوں کی تربیت کریں، جیسے آپ اپنی بیٹیوں کے لیے داماد چاہتی ہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ بچے باپ کی ذمہ داری نہیں ہیں، وہ بھی ماں کے ساتھ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن اپنی بیٹیوں کو محفوظ معاشرہ مہیا کرنے کے لیے ڈرائیونگ ہینڈ کسی اور کو مت دیں۔ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ آپ بیٹوں کو شکاری بننے سے روکنے میں ان کی مدد کرتی ہیں یا بس اپنی بیٹیوں کو شکار بننے سے بچاتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).