شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات!


وہ شخص کہ پہچان جس کی قومی اسمبلی میں منافرت پر مبنی احمقانہ تقریریں اور آئے روز کی بے ہودہ نعرے بازی ہو، قائد کے مزار پر اس سے ہلڑ بازی کے سوا اور کیا امید کی جا سکتی تھی۔ نظر انداز کر دینا ہی بہترتھا، تاہم درخواست جب دائر ہو گئی تو سندھ پولیس مقدمے کے اندراج سے انکاری کیوں رہی؟ شاید حکومت سندھ کے لئے قانون کی عملداری نہیں، شاہی خاندان کے ہاں شاہی مہمانوں کی مہمان نوازی زیادہ افضل رہی ہوگی۔ آئی جی سندھ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ خود سپریم کورٹ کے حکم پر ان کو کراچی پولیس کی سربراہی سے بوجوہ ہٹایا گیا تھا۔

زرداری صاحب سے جن کے تعلقات بے حد قریبی بتائے جاتے ہیں۔ شورش کی رات مگر اتنے بے بس پائے گئے کہ چند افراد آئے، ان کے سرکاری رہائش گاہ کو گھیرا اور انہیں اٹھا لے گئے۔ واقعات کی ترتیب و تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں۔ تحقیقات ہوں گی تو کئی سوالوں کے جوابات سامنے آئیں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سچ ہی سامنے آئے گا۔ جن کی طرف انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، کوئی حماقت ان سے سر زد ہوئی ہے تو جواب انہیں بھی دینا ہوگا۔ لیکن اگر کسی کو اداروں کی رسوائی مطلوب تھی تو بہت خطرناک کھیل کھیلا گیا ہے۔

سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں پر رات دن بے ہودگی، ذاتیات اور بازاری زبان بلا روک ٹوک استعمال ہو رہی ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے بول رہا ہے، جو جی میں آتا ہے گھنٹوں بول رہا ہے۔ خود کہتے ہیں کہ وہ نام بھی لئے جا رہے ہیں جو کبھی یوں لئے نہیں جاتے تھے۔ اسی سانس میں مگر کہتے ہیں کہ پاکستان میں بولنے کی آزادی نہیں۔ میڈیا آزاد نہیں۔ انگریزی اخبار کچھ سال پہلے تک کہ جس کا ایک مقام تھا، اپنا وقار کھو چکا ہے۔ اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع جو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ آزادی اظہار پر قدغنوں کا سب سے بڑا جو شاکی رہتا ہے۔ افسوس کہ موجودہ حکومت کے درپے ہے۔ ایسا کیونکر ہے، جاننے کے لئے کارندوں کے ٹویٹس پر نظر ڈالنا کافی ہے۔

ایک طرف ’ریاست کے اندر ریاست‘ کا گلہ ہے تو دوسری طرف اب انہی سے مطالبہ ہے کہ منتخب حکومت کو اٹھا باہر پھینکا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کا الزام دھر رہے ہیں۔ کراس فائر میں نقصان کسی اور کا نہیں اداروں کا ہو رہا ہے۔ ماسوائے ان کے کہ دل جن کے نفرت سے لبریز ہیں، سبھی جانتے ہیں کہ خشت در خشت اداروں سے ہی جمہوری نظام ترتیب پاتا ہے۔ قومی ادارے راتوں رات استوار نہیں ہوتے۔

امریکی نو دولتئے نے انگریز میزبان کے وسیع سر سبز لان میں بچھی مخملی ملائم گھاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، ’ایسی گھاس اگانے کے لئے کس قدر سرمایہ درکار ہے؟‘ برطانوی نے جواب دیا، ’چند سو پاؤنڈز کے ساتھ کچھ صدیوں پر محیط وقت!‘ افغانستان میں امریکیوں نے کھربوں ڈالر جھونک دیے ہیں، اداروں کی تعمیر اب بھی ایک سراب ہے۔ وہ ملک کہ جنگجوئی کے سوا جہاں کے لوگوں کو ڈھنگ کا کوئی کام نہیں آتا، اب تک وہاں منظم فوج کھڑی نہیں ہو سکی۔ غیر ملکی افواج کے اخراج کا سوچ کر اب جن کی ٹانگیں لرزتی ہیں۔

آزادی کے ابتدائی دنوں میں کسمپرسی کا ایک عالم تھا۔ بھارتی حکومت کی پاکستان دشمنی پر مبنی حکمت عملی نے نوزائیدہ مملکت کی قیادت کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بے حد محدود وسائل کو پہلی ترجیح میں پاکستانی مسلح افواج کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کو استعمال میں لائے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کی بناء پرپاکستان کی پالیسی سازی میں مسلح افواج کا کردار فطری طور پر غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ وہی ملک مگر محض چند سالوں میں ایشیا کے دیگر ملکوں کے لیے اقتصادی ترقی کی مثال بن کر ابھرا۔

خود ورلڈ بینک نے ترقی پذیر دنیا کو پاکستان کی تقلید کرنے کو کہا۔ مشرقی پاکستان کے معاملے کو دو صدیوں پر محیط تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تقسیم بنگال پر کانگرس کے اصرار اوراسی باب میں مولانا ابوالکلام کی پیش گوئی کو پیش نظر رکھا جائے تو با ت اس قدر سادہ نہیں رہ جاتی جس قدر پورے معاملے کو تعصب کی عینک سے دیکھنے والے بتاتے ہیں۔ گئے عشروں پہاڑ سی غلطیاں سب نے کی ہیں۔ گزرتے سالوں لیکن سیاست دانوں نے سبق سیکھا ہے تو وہیں اداروں میں بھی فکری پختگی آئی ہے۔ بہتر ہو کہ قومی اداروں کو بے توقیر کرنے کی بجائے سیاسی اداروں کو مضبوط کیا جائے۔

ایک ازکاررفتہ سپاہی کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ میرے جیسے ہزاروں دوسرے بھی شدت کے ساتھ مضطرب ہیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی ایک سال تک نامہ بری کرتے رہے۔ اب اداروں سمیت سب کچھ برباد کرنے پر مصر ہیں۔ حالیہ سنگین صورت حال کے دوران باپ بیٹی کا سندھ پولیس پر صدقے واری جا نا قابل فہم ہے۔ گمان یہی ہے کہ نواز شریف اداروں پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ حکومت کو گراتے گراتے اگر سسٹم ہی زمیں بوس ہو جاتا ہے تو اندازہ یہی ہے کہ اسی میں وہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔

اداروں کو صبر کا دامن لیکن ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کوئٹہ میں نواز شریف کے میزبان محمود اچکزئی ہوں گے۔ وہی اچکزئی صاحب کہ ’جمہوری دور‘ میں جن کا سارا خاندان حکومت میں شامل تھا۔ کوئٹہ میں پولیس کانسٹبل کو اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے والے مجید اچکزئی انہی کے خاندان اور انہی کی پارٹی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اب آزاد پھرتے ہیں۔ ایک حرف مذمت کا محمود اچکزئی کے منہ سے ہم نے نہیں سنا۔ آئین اور قانون کی بالا دستی کا راگ جو الاپتے ہیں۔ پاکستان کی پختون پٹی پر جو افغانستان کا حق جتاتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے حالیہ جلسے میں قومی زبان سے جنہوں نے بیزاری کا اظہار فرمایا ہے۔

شاہی خاندانوں اوران کے خاص حواریوں سے نہیں، میں جمہوریت پسندوں سے ملتجی ہوں کہ اس گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگانے میں حصہ دار نہ بنیں۔ ادارے ٹوٹ گئے تو تعمیر نو کے لیے صدیاں درکارہوں گی۔ لولی لنگڑی جیسی بھی جمہوریت ہے اسی کو چلنے دیا جائے۔ دنیا کی تاریخ بیسیوں مثالوں سے لبریز ہے کہ کڑی آمریت میں بھی قوموں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ تدریجی مراحل سے گزرتے ہوئے، جہاں جہاں سول ادارے اپنے قدم جماتے چلے گئے وہاں وہاں آمریتوں کے سائے خود بخود سمٹتے چلے گئے۔ یہ زمانہ قرون وسطٰی نہیں محض پچھلی صدی کی بات ہے۔ بد عنوانی، جھوٹ اور نا انصافی کو مگر جس معاشرے میں قبولیت عام ہو، بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ یہ کہ مگر ازلی حقیقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).