امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: ’دی سکواڈ‘ کے نام سے مشہور یہ خواتین کون ہیں؟


ڈیموکریٹ پارٹی کی ان چار ترقی پسند خواتین نے جنہیں 'سکواڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے دوبارہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔

نیو یارک کی الیگزینڈرا اوکاسیو کورتیز، مشیگن کی راشدہ طلیب، مینیسوٹا کی الہان عمر اور میساچوسیٹس کی آیانا پریسلی نے کانگریس کے ایوان نمائندگان میں اپنی نشتیں دوبارہ حاصل کر لی ہیں۔

ان چاروں خواتین نے 2018 کے وسط مدتی انتخابات میں پہلی بار کامیابی حاصل کر کے ایوان نمائندگان تک رسائی حاصل کی تھی اور اس بار یہ چاروں خواتین کیپیٹل ہل کے لیے نئی نہیں ہوں گی۔

انھوں نے موسمیاتی تبدیلیوں، طبی سہولیات اور دیگر ترقی پسند موضوعات کی حمایت کی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے متواتر ‘نسل پرستی’ اور طنز کا مقابلہ بھی کیا۔

2018 میں راشدہ طلیب اور الہان عمر کو پہلی مسلمان خواتین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا جنھوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے کانگریس کے ایوان نمائندگان تک رسائی حاصل کی تھی۔

یہ دونوں خواتین صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں اور مسلمانوں کے خلاف دیے گئے بیانات کی شدید مخالف رہی ہیں۔

الہان عمر اور الیگزینڈرا اوکاسیو کورتیز نے ٹویٹ کر کے اپنی کامیاب پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔

https://twitter.com/IlhanMN/status/1323842350683213824

یہ بھی پڑھیے

کیا نتائج سے متعلق وہ ڈراؤنا خواب حقیقت کا روپ اختیار کر رہا ہے؟

کسی کو واضح برتری حاصل نہ ہوئی تو؟ نتائج سے متعلق چند سوالات کے جواب

ٹرمپ کا امریکی عوام سے دھوکا ہونے کا دعویٰ، سپریم کورٹ جانے کا اعلان

امریکی صدارتی انتخاب: اب تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہو سکا؟

نئے امریکی صدر کا فیصلہ کِن ریاستوں کے نتائج پر آن ٹھہرا اور کیوں؟

الیگزینڈرا اوکاسیو کورتیز نے ووٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ‘کانگریس میں محنت کش طبقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنا میرے لیے باعثِ اعزاز رہا ہے اور یہ میری ذمہ داری ہے’۔

آیانا پریسلی نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ہم نے اپنی مشترکہ انسانیت اور اقدار کے لیے متحد ہو کر جدو جہد کی ہے‘۔

’سکواڈ‘ کا حصہ خواتین کون ہیں؟

یہ چاروں خواتین امریکی شہری ہیں اور ان میں سے تین امریکہ میں پیدا ہوئی ہیں جبکہ الہان صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور کم عمری میں امریکہ منتقل ہو گئي تھیں۔

الہان عمر

الہان عمر

حجاب پہننے والی الہان عمر نے اپنا بچپن کینیا کے تارکین وطن کے کیمپ میں گزارا تھا جہاں ان کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے پہنچا تھا

حجاب پہننے والی الہان عمر نے اپنا بچپن کینیا کے تارکین وطن کیمپ میں گزارا تھا جہاں ان کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے پہنچا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک سپانسرشپ کی مدد سے امریکی ریاست منیسوٹا پہنچی تھیں۔

سنہ 2016 میں 36 سالہ الہان عمر پہلی صومالی امریکن قانون ساز بنی تھیں۔

دو سال پہلے اپنی جیت کے بعد انھوں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘یہ جیت اس آٹھ سالہ بچی کے لیے ہے جو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی۔ یہ جیت اس لڑکی کے لیے ہے جسے زبردستی کم عمری کی شادی کرنی پڑی تھی۔ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا تھا۔

2019 میں الہان عمر نے رشیدہ طالب اور جارجیا کے نمائندے جان لوئس کے ساتھ مل کر قرارداد پیش کی تھی کہ تمام امریکیوں کو ملک کے اندر اور باہر انسانی اور شہری حقوق کے حصول کے لیے بائیکاٹ میں شریک ہونے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ انہوں نے تمام امریکیوں کے لیے طبت سہولیات کی بھی حمایت کی تھی۔

ایک موقع پر انھوں نے بتایا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ قدامت پسند الہان عمر کے اسرائیل سے متعلق مؤقف پر تنقید کرتے ہوئے ان پر یہود دشمنی کا الزام لگاتے ہیں۔

الہان عمر کو اپنی جماعت کی جانب سے بھی امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات پر چند بیانات کی بنا پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے تاہم انھوں نے یہود دشمن ہونے کے الزام کو مسترد کیا۔

راشدہ طلیب

راشدہ طلیب

راشدہ طلیب نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے

ریاست مشیگن کے شہر ڈیٹروئٹ سے منتخب ہونے والی رکن کانگریس راشدہ طلیب کے والدین فلسطینی پناہ گزیں کی حیثیت سے امریکہ آئے تھے۔

راشدہ طلیب ڈیٹروئٹ میں پیدا ہوئیں اور وہ 14 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے پبلک سکول سے حاصل کی اور پھر ‘ویسٹرن مشیگن یونیورسٹی’ سے قانون کی ڈگری مکمل کی۔

ایک مرتبہ امریکی اخبار ‘نیو سٹیٹسمین امریکہ’ سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے راشدہ طلیب نے کہا تھا کہ ‘یہ وہ لمحہ تھا جس میں میں نے سوچا کہ میں رِنگ سے باہر رہوں یا رِنگ میں اتر کر لڑائی لڑوں۔’

انھوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے حلقے مشیگن ریاست کے رہنے والوں کو یہ احساس دینا چاہتی تھیں کہ کوئی ہے جو ان کی لڑائی لڑ سکتا ہے۔

 آیانا پریسلی

آیانا پریسلی

 آیانا پریسلی کی پیدائش اوہایو میں ہوئی تاہم ان کی پرورش شکاگو میں ہوئی۔ بوسٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2009 میں وہ بوسٹن سٹی کونسل کے لیے منتخب ہوئیں۔

پریسلی بوسٹن سٹی کونسل کی 100 سال کی تاریخ میں منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں۔ وہاں انہوں نے گھریلو تشدد، بچوں کے ساتھ زیادتی اور انسانی سمگلِنگ جسیے مسائل پر کام کیا۔

الگزینڈریا اوکاسیو کورتیز

الگزینڈریا اوسیاسیو

نیویارک سے الگزینڈریا اوسیاسیو کورٹز نے کانگریس میں سب سے کم عمر خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا

الگزینڈریا 1989 میں نیویارک میں پیدا ہوئیں۔ 2011 میں بوسٹن یونیورسٹی سے انٹر نیشنل ریلیشن اور اکنامکس کی ڈگری لینے کے بعد اپنی ماں کی مدد کے لیے انہوں نے بار ٹینڈر کے طور پر کام کیا۔

2016 کے پرائمری الیکشن کے دوران انہوں نے برنی سینڈرز کی انتخابی مہم میں کام کیا۔ اس دوران انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا اور انہیں اپنے ملک اور کمیونٹی کے لیے کام کرنے کی تحریک ملی۔

2018 کے وسط مدتی انتخابات میں جو کرولی کو شکست دیکر انہوں نے سب کو حیران کر دیا اور ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ان کے بارے میں تبصرے ہوئے۔

انہیں میڈیا کی اس قدر توجہ ملی کہ انہیں ڈیموکریٹ پارٹی کا چہرہ کہا جانے لگا۔

صدر ٹرمپ کے نشانے پر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹس میں ان خواتین کو ’واپس جانے‘ کا مشورہ دینے سے پہلے کہا تھا کہ یہ خواتین’ دراصل ان ممالک سے آئیں ہیں جن کی حکومتیں مکمل طور پر تباہی کا شکار ہیں۔‘

صدر ٹرمپ

2018 میں منتخب ہونے کے بعد سے ان چاروں خواتین نے امریکہ میں صحت کی سہولیات، اسلحہ کے زور پر کیے جانے والے تشدد اور خاص طور پر میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کی حراست کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

سرحد پر تارکین وطن کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ایک موقع پر صدر ٹرمپ نے سلسلہ وار ٹویٹس کے ذریعے انھیں ‘نسل پرستانہ` فقروں کا نشانہ بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتین

’گالی دینے والے مردوں کو نکال کر باہر پھینک چکی ہوں’

الہان عمر: گیارہ ستمبر سے متعلق بیان پر تنازعہ

’یہاں اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والوں کا داخلہ منع ہے‘

صدر ٹرمپ نے تین سلسلہ وار ٹویٹس میں الزام لگایا تھا کہ یہ خواتین اراکین کانگریس ‘بیہودہ’ انداز میں انھیں اور امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک موقعے پر ٹوئٹر پر کہا تھا کہ یہ چاروں خواتین جو کہ امریکی شہری ہیں ‘ملک چھوڑ سکتی ہیں۔’

صدر کے بیان کو وسیع پیمانے پر نسل پرستانہ کہہ کر مذمت کی گئی تھی تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے بیان کا دفاع کیا اور نسل پرستی کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

اسرائیل میں داخلے پر پابندی

الہان عمر اور رشیدہ طلیب پر اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کے ملک کا قانون ایسے لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں دیتا جو اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

خود صدر ٹرمپ نے اس سے چند دن پہلے مطالبہ کیا تھا کہ الہان عمر اور رشیدہ طلیب کے اسرائیل داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔

اسرائیل کی مبینہ ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر الہان عمر اور رشیدہ طلیب پر یہودی مخالف ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ الہان عمر اور رشیدہ طلیب نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک کی حمایت بھی کی تھی۔ تاہم انہوں نے یہودی مخالف الزامات کی تردید کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp