ذیابیطس کا مریض اپنی بلڈ شوگر پر خود کیسے نظر رکھے


تحریر: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا اور ڈاکٹر مظفر علی شاہ

علم کا جزیرہ جتنا بڑا ہو، حیرانی کا ساحل اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ ہیوسٹن سمتھ

ذیابیطس کے علاج میں خون میں موجود گلوکوز کی مقدار پر نظر رکھنا نہایت اہم ہے۔ ذیابیطس کے ہر مریض کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ خون میں گلوکوز کو کیسے ناپا جائے؟ اگر شوگر نارمل سے کم یا زیادہ ہو تو ایسی صورت میں کیا اقدام اٹھائے جائیں؟ ذیابیطس کے علاج کا بنیادی مقصد گلوکوز کو نارمل سطح پر رکھنا ہے۔ گلوکوز کی مانیٹرنگ کے لئے آپ کو ان آلات کی ضرورت ہو گی۔

گلوکومیٹر (Glucometer)
ٹیسٹ سٹرپ (Test Strips)
لین سیٹ (Lancets)
لانسنگ ڈیوائس (Lancing device)
روئی (Cotton)
ڈائری (Diary)
کوڑے دان (Trash can)

گلوکوز کو ناپنے والے آلے کو گلوکومیٹر کہتے ہیں۔ مارکیٹ میں کئی قسم کے گلوکومیٹر دستیاب ہیں۔ ٹیسٹ سٹرپ کے ایک سرے کو گلوکومیٹر میں داخل کر کے دوسرے سرے میں خون کا قطرہ ٹپکا کر گلوکوز کو چیک کرتے ہیں۔ لین سیٹ سے انگلی چبھو کر خون نکالا جاتا ہے۔ ہر مریض کے لئے خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرنے کے لئے الگ شیڈول ہوتا ہے۔ اگر صرف گولیوں سے علاج کر رہے ہیں، تو ہفتے میں دو سے چار مرتبہ کھانے سے پہلے اور کھانے کے دو گھنٹے بعد چیک کرنا کافی ہے۔

اگر کوئی مریض انسولین پر ہوں تو ان کو دن میں چار مرتبہ بلڈ شوگر چیک کرنی ہوتی ہے۔ ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے سے پہلے اور سونے سے پہلے۔ ہر مریض کے لئے انفرادی پلان ترتیب کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہو تو پھر معمول سے زیادہ مرتبہ شوگر چیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لانسنگ ڈیوائس وہ آلہ ہے جو انگلی کی پور کو چبھو کر خون کا قطرہ حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس خون کے قطرے کو ٹیسٹ اسٹرپ پر ٹپکا کر اس میں شوگر کے لیول کو چیک کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ ہدایات مندرجہ زیل ہیں۔

ہدایت نمبر 1۔

سب سے پہلے اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے دھو لیں۔ اس کے بعد ان کو اچھی طرح سے سکھا دیں۔ گرم پانی سے ہاتھ دھونے اور صاف کرتے وقت رگڑنے سے انگلیوں میں خون کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اور وہاں سے خون کا نمونہ لینے میں آسانی ہوتی ہے۔ لانسنگ ڈیوائس ایک مارکر کی طرح ہوتا ہے۔ اسے استعمال کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کا ڈھکن ہٹاتے ہیں۔ پھر ہم ایک نئے لین سیٹ کو اس میں اس ترتیب سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل فٹ آ جائے۔

پھر لین سیٹ کا ڈھکن گھما کر ہٹا دیا جاتا ہے۔ لین سیٹ کا ڈھکن ہٹاتے ہیں۔ تو آپ کو ایک سوئی نظر آئے گی لہذا احتیاط کیجئے گا۔ اب لانسنگ ڈیوائس کا وہ سرا جو ہم نے شروع شروع میں ہٹایا تھالین سیٹ کے اوپر فٹ کردیں اور تب تک ٹھیک کرتے رہیں جب تک ٹک کی آواز نہ سنائی دے۔ یہ دھیان رہے کہ لینسنگ ڈیوائس کئی مختلف طرح کے دستیاب ہیں اور ان کو استعمال کرنے کا طریقہ تھوڑا مختلف ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کے ڈاکٹر یا نرس موجود نہ ہوں تو گلوکومیٹر کی کمپنی کی بنائی ہوئی یوٹیوب وڈیو دیکھنے سے بھی مدد مل سکتی ہے۔

ہدایت نمبر 2۔

میری دوسری ہدایت آپ لوگوں کو یہ ہے کہ ہر بار نیا لین سیٹ استعمال کریں۔ اس طرح کرنے میں آپ کا وقت اور لین سیٹ کی تعداد تو ضرور لگ جائے گی مگر یہ آپ کی صحت کے لیے مفید ہے۔ ایک لین سیٹ بار بار استعمال کرنے سے اس کی سوئی کند ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کو درد زیادہ ہوتا ہے اور جلد کی انفیکشن کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ لانسنگ ڈیوائس کا ڈھکن گھمانے سے آپ کو لین سیٹ کی گہرائی کا اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ لین سیٹ آپ کی انگلی کے کتنے اندر جائے۔

یہ اندازہ آپ کو خود لگانا ہوتا ہے لہذا ایک دو بار کوشش کر کے اسے اپنے مطابق سیٹ کر لیں۔ کچھ لینسنگ ڈیوائس کے نیچے ایک پہیہ سا ہوتا ہے جس پر نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ جیسے ایک سے پانچ۔ نمبر جتنا بڑا ہو، سوئی اتنی ہی گہرائی تک چبھوتی ہے۔ جن افراد کے ہاتھوں کی جلد موٹی یا کھردری ہو ان کو بڑا نمبر چننے کی ضرورت ہوگی۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے تین کا لیول ٹھیک ہوتا ہے۔

ہدایت نمبر 3۔

آپ کی انگلی کے سرے میں تین جگہیں ہوتی ہیں۔ پہلی جگہ وہ جہاں پر ناخن لگا ہوتا ہے۔ دوسری ناخن کی دائیں اور بائیں والی جگہیں۔ اور تیسری ناخن کے بالکل الٹی والی طرف جسے انگریزی میں فنگر پیڈ کہتے ہیں۔ آپ کے فنگر پیڈ میں نرو اینڈنگز یعنی اعصابی حساس خلیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے درد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا لینسیٹ کو ہمیشہ انگلی کی دائیں اور بائیں طرف استعمال کریں اور انگلیاں باقاعدگی سے تبدیل کریں اس طرح سے آپ کی جلد موٹی ہونے سے بچ جائے گی۔ اگر آپ کو پھر بھی اس کے استعمال سے تکلیف ہوتی ہے تو اپنے ڈاکٹر یا ہیلتھ کیئر پروفیشنل سے بات کر کے اس سے بھی پتلا والا لین سیٹ استعمال کریں۔

آخر میں لینسنگ ڈیوائس کے نچلے والے حصے کو پیچھے کی طرف کھینچیں۔ اس طرح سے اسپرنگ استعمال کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اب لانسنگ ڈیوائس کے سرے کو اپنی انگلی کے دائیں یا بائیں جانب مضبوطی سے رکھیں اور بٹن دبائیں۔ بٹن دباتے ہی لانسنگ ڈیوائس آپ کی انگلی چبھونے کے لیے لین سیٹ کو آزاد کر دے گا اور آپ کے خون کا نمونہ لے لیا جائے گا۔

ہدایت نمبر 4۔

اگر آپ کے گلوکومیٹر کے ساتھ ٹیسٹ کرنے والا سلوشن موجود ہو تو جب بھی آپ ٹیسٹ سٹرپ کی کوئی نئی ڈبیا خریدیں تو اس کا سلوشن ٹیسٹ ضرور کریں۔ یہ سلوشن ٹیسٹ آپ تب بھی کر سکتے ہیں جب آپ کو لگے کہ آپ کا میٹر صحیح طرح سے کام نہیں کر رہا یا آپ اپنے میٹر کے نتائج سے پوری طرح خوش نہیں ہوں۔ اگر کبھی آپ اپنا میٹر گرا دیتے ہیں یا کسی دوسری طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں تب بھی آپ کو سلوشن ٹیسٹ کر لینا چاہیے۔ کنٹرول سلوشن عموماً، کھولے جانے کے بعد، 90 دن تک کام کرتا ہے۔ کنٹرول سلوشن کی شیشی کے پیچھے اصل تاریخ درج ہوتی ہے جس سے لازمی طور پر چیک کر لیا کریں۔ آپ کے ٹیسٹ سٹرپ کی ڈبی کے پیچھے کنٹرول سلوشن کی قابل قبول حدود دی گئی ہوتی ہیں۔ آج کل جو نئے گلوکومیٹر دستیاب ہیں وہ اتنے بہتر ہوچکے ہیں کہ ان میں سلوشن ٹیسٹ کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔

ہدایت نمبر 5۔

مختلف گلوکومیٹر استعمال کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نتائج میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ اگر دو نمبر ایک دوسرے سے بالکل مختلف آئے ہیں تو تیسرا ٹیسٹ کرنا مناسب ہوگا۔ یہ تیسرا نمبر جس سے بھی قریب تر ہو اسی کو قابل بھروسا سمجھا جائے گا۔ لین سیٹ کو تلف کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ لانسنگ ڈیوائس کو کسی سخت سطح پر رکھ کر لین سیٹ کی سوئی کو لین سیٹ کے اندر ہی دبا دیں۔ اس طرح سے سوئی چبھے گی نہیں اور پھینکنے میں آسانی ہوگی۔

بلڈ گلوکوز چیک کرنے کا طریقہ

لانسنگ ڈیوائس (Lancing device) میں نیا لین سیٹ (Lancet) فٹ کریں۔ اپنے ہاتھ دھو کر خشک کر لیں تاکہ آپ کے انگلیوں پر موجود گلوکوز یا گرد آپ کے ٹیسٹ کے نتائج پر اثر انداز نہ ہوں۔ اگر آپ کے ہاتھ گرم ہیں تو خون کا قطرہ لینے میں آسانی ہوگی۔ لہذٰا اپنے ہاتھ گرم پانی سے دھو کر آپس میں دس سیکنڈ کے لئے رگڑنا آپ کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ اپنے گلوکومیٹر میں ٹیسٹ سٹرپ ڈال کر گلوکومیٹر کو آن کر لیں۔

لانسنگ ڈیوائس کو اپنی کسی بھی انگلی کے دائیں اور بائیں جانب رکھ کر استعمال کریں۔ انگلی کے سامنے والے حصے میں حساسیت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے درد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ انگلیاں آپس میں باقاعدگی سے تبدیل کر لیا کریں۔ اس طرح آپ کی جلد موٹی ہونے سے بچی رہے گی۔ چھوٹی انگلی کا استعمال بھی تکلیف دہ ہو سکتا ہے کیونکہ چھوٹی انگلی کی جلد کافی پتلی ہے۔ اگر آپ کے ہاتھ گرم ہیں تو خون کا قطرہ نکالنے کے لیے آپ کو انگلی کو دبانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ضرورت پڑنے پر آپ ہلکا سا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خون کا پہلا قطرہ روئی سے صاف کر کے خون کا دوسرا قطرہ ٹیسٹ کرنے کے لیے استعمال کریں۔

ٹیسٹ ہو جانے کے بعد اگر ضرورت پڑے تو اپنی انگلی روئی سے صاف کریں۔

ٹیسٹ کے نتائج اپنی ڈائری میں لکھ لیں۔ ہر صفحے پر اگر چار کالم بنا لیے جائیں جن پر ناشتے سے پہلے، دوپہر کے کھانے سے پہلے، رات کے کھانے سے پہلے اور سونے سے پہلے کے اوقات اوپر درج ہوں تو اس معلومات سے دواؤں میں مناسب رد و بدل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آخر میں احتیاط کے ساتھ ٹیسٹ سٹرپ اور لین سیٹ کو کوڑا دان میں تلف کر دیں۔ کپڑے دھونے والے ڈیٹرجنٹ یا دودھ کی پلاسٹک کی بوتل میں یہ سوئیاں ڈالتے جائیں، جب وہ بھر جائے تو اس کے منہ پر اچھی طرح ٹیپ لگا کر کوڑے میں پھینکیں تاکہ اس سے کسی کو حادثاتی طور پر چبھن نہ پہنچے۔

گلوکوز چیک کرنے کے اقدام

1۔ گلوکومیٹر کو آن کریں اور اس میں ٹیسٹ سٹرپ لگائیں۔
2۔ صابن سے ہاتھ دھو کر انگلیاں صاف کریں۔ الکوحل پیڈ (Alcohol pads) بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

3۔ لین سیٹ سے انگلی چبھو کر خون کا قطرہ ٹیسٹ سٹرپ کے باہر والے سرے پر ٹپکائیں۔ انگلی کے سرے کی سائڈ استعمال کریں تو زیادہ مناسب ہے چونکہ سرے کے بیچ والے حصے میں تکلیف والی نسیں زیادہ موجود ہوتی ہیں۔

4۔ چند سیکنڈ میں گلوکومیٹر بتا دے گا کہ خون میں گلوکوز کتنی ہے۔
5۔ اس انفارمیشن کو نوٹ بک میں ریکارڈ کر لیں۔

ذیابیطس کی مانیٹرنگ کا ریکارڈ

مریض کا نام ——————————-

تاریخِ پیدائش——————————

دیگر

سونے سے پہلے رات کے کھانے سے پہلے دوپہر کے کھانے کے بعد

ناشتے سے پہلے

دن / تاریخ

پیر
منگل
بدھ
جمعرات
جمعہ
ہفتہ
اتوار

اگر شوگر نہایت کم یا نہایت زیادہ ہے تو یہ بھی لکھ لیں کہ کیا کھایا، کتنی دوا لی یا کتنی ورزش کی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ خون میں شوگر کی مقدار کی کیا وجہ تھی۔ یہ ریکارڈ ذیابیطس کے علاج میں نہایت مدد گار ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ امریکن ذیابیطس ایسوسی ایشن کے لحاظ سے صبح ناشتے سے پہلے گلوکوز کا لیول نوے سے ایک سو تیس ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ( 90۔ 130 ) کے درمیان اور کھانے کے دو گھنٹے کے بعد ایک سو اسی ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ( 180 mg/dl) سے کم ہونا چاہیے۔

مریضوں میں بلڈ شوگر 60 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ ایک انفرادی بلڈ شوگر کے ریکارڈ پر نظر دوڑانے سے مریض کی دوائیوں میں مناسب رد و بدل کی جا سکتی ہے۔ آج کل ایسے بھی گلوکومیٹر دستیاب ہیں جن کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کر کے بلڈ میں شوگر کا ریکارڈ ڈاؤن لوڈ (Download) کیا جا سکتا ہے۔ اس ریکارڈ کو اپنے ڈاکٹر کو ای میل بھی کر سکتے ہیں تاکہ وہ آپ کو مفید مشورے دے سکیں۔

لیکن اگر آپ کے پاس کمپیوٹر کی سہولت موجود نہیں ہے تو آپ ایک چھوٹی ڈائری میں ان نمبروں کا اندراج کر سکتے ہیں۔ اس ریکارڈ کو اپنے ساتھ ذیابیطس کلینک کی ہر وزٹ (Visit) پر لے جانا چاہیے۔ ہیموگلوبن اے ون سی (Hemoglobin A 1 c) ٹیسٹ بھی جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے ان مریضوں کو تین مہینے میں ایک بار کروا لینا چاہیے جن کی ذیابیطس کنٹرول میں نہ ہو۔ اگر کنٹرول مناسب ہے تو سال میں دو مرتبہ کروانا کافی ہو گا۔

سی جی ایم یا کنٹینیوس گلوکوز مانیٹرنگ (Continuous Glucose Monitoring)

سی جی ایم (CGM) ایک آلہ ہے جس کی مدد سے گلوکوز کی مستقل مانیٹرنگ ممکن ہے۔ یہ آلہ ایک باریک سے سینسر سے وائرلیس ٹیکنالوجی (Wireless) کے ذریعے ہر ایک منٹ میں جسم میں گلوکوز کا لیول چیک کرتا ہے۔ یہ آلہ ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جن کو دن میں چھ سے آٹھ مرتبہ گلوکوز چیک کرنا پڑتی ہے۔ سی جی ایم کو دن میں دو مرتبہ گلوکومیٹر سے خون میں گلوکوز چیک کر کے برابر (Calibrate) کرنا ضروری ہے تاکہ بالکل صحیح نمبر معلوم ہو سکیں۔ اب نئے سی جی ایم کو اس طرح برابر کرنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ سی جی ایم کو ہر مریض کی انفرادی ضروریات کے لحاظ سے سیٹ کر سکتے ہیں۔ اس میں الارم بھی سیٹ کر سکتے ہیں جو خون میں شوگر کے نہایت کم یا زیادہ ہو جانے پر مریض کو خبردار کرتے ہیں۔

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے کتنا اہم کردار ادا کرے گا جو ان تبدیلیوں کو محسوس نہیں کر سکتے۔ یہ ان مریضوں کی جان بھی بچا سکتے ہیں جن کو سوتے ہوئے ہائپوگلائسیمیا (Hypoglycemia) ہو جائے۔ یہ ایک خطرناک بات ہے جس سے مریض کی موت تک واقع ہو سکتی ہے۔ کئی مختلف طرح کے سی جی ایم اس وقت مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن میں ڈیکس کام، فری اسٹائل لیبرے، گارڈین کنیکٹ اور سینسیانکس ایورسینس (Sensionics Eversense) شامل ہیں۔

سی جی ایم آپ کے بلڈ شوگر کی پیمائش نہیں کرتا، دراصل یہ انٹر سٹیشیئل فلائیڈ (Interstitial fluid) کی پیمائش کرتا ہے۔ انٹر سٹیشیئل فلائیڈ مائع کی وہ پتلی تہہ ہے جو جسم کے خلیوں کے ارد گرد پائی جاتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کی گلوکوز مونیٹرنگ (Glucose monitoring) میں انٹر سٹیشیئل فلائیڈ میں شوگر کی مقدار کی موجودگی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔ لہٰذا ڈیکس کام جی۔ 6 اور فری سٹائل لیبرے کا موازنہ انگلی چبھو کر خون نکال کر اس میں موجود شوگرکی مقدار سے نہیں کیا جا سکتا۔ سی جی ایم اور فنگر اسٹک کے نتائج میں کچھ اختلاف ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کے خون میں گلوکوز کی سطح مستحکم ہو تو سی جی ایم اور فنگر سٹک کے نتائج میں اختلاف کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔ ڈیکس کام جی۔ 6 اور گارڈین کنیکٹ آپ کو اگلے آدھے گھنٹے کے متوقع بلڈ گلوکوز لیول کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔

سی جی ایم میں آپ کو مانیٹر پر دیے گئے ایک خاص نمبر پر توجہ دینے سے زیادہ گلوکوز لیول کے رجحان پر توجہ دینی چاہیے۔ اس بات کا خاص دھیان رکھنا چاہیے کے آپ کا گلوکوز لیول کس طرف جا رہا ہے۔

جب بھی بلڈ گلوکوز لیول 80 سے کم ہو جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں ڈیکس کام جی۔ 6 اپنے مقابل فری سٹائل لیبرے سے زیادہ اثر دار ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے نتائج سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں تو فنگر سٹک سے گلوکوز لیول چیک کر کے تسلی کریں۔ اگر آپ کی بلڈ گلوکوز اکثر کم ہوجاتی ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ ڈیکس کام جی۔ 6 کا استعمال کریں۔ یہ ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی بہتر ہے۔

وہ مریض جو انسولین کے انجیکشن کا استعمال کرتے ہیں یا پھر وہ مریض جن میں بلڈ گلوکوز کم ہوجاتی ہے ان کے لیے ڈیکس کام جی۔ 6 کا الارم فیچر کافی مفید ہے۔ لیبرے سی جی ایم میں الارم کا سسٹم موجود نہیں ہے۔ جب تک مریض خود سے اسکین نہ کریں تو ان کو معلوم نہیں ہوگا کہ بلڈ شوگر کم ہو گئی ہے۔

اگر دن کے کسی مخصوص وقت پر آپ کی شوگر بار بار کم ہوتی ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ یہ ممکن ہے کہ دوا میں کمی سے یہ مسئلہ ٹھیک ہو جائے۔ اگر ڈیکس کام جی۔ 6 آپ کو تنبیہ دے رہا ہے تو اس کو نظر انداز مت کریں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں۔ ڈیکس کام جی۔ 6 آپ کو آپ کے بلڈ گلوکوز کے 55 پر پہنچتے ہی متنبہ کر دیتا ہے۔ ڈیکس کام جی۔ 6 کی احتیاطی تنبیہ آپ کو بلڈ گلوکوز کم ہونے سے 20 منٹ پہلے ہی آگاہ کر دیتی ہے۔ اور اس کی تنبیہ 80 سے 90 فیصد تک درست ہوتی ہے۔

سینسر پہننے کا دورانیہ

سینسر پہننے کا دورانیہ فری سٹائل لیبرے کا ڈیکس کام جی۔ 6 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ لیکن سینسر کے ناکام ہو جانے کی شکایت بھی فری سٹائل لیبرے کے متعلق زیادہ آتی ہیں۔ صرف 80 فیصد افراد ہی اپنا مکمل دورانیہ پورا کر پاتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے بازو پر فری اسٹائل لیبرے سی جی ایم لگایا ہوا تھا جو کمرے سے باہر جاتے ہوئے دروازے کی چوکھٹ میں اٹک کر دو دن کے بعد ہی باہر نکل گیا۔ یہ اعداد و شمار لیبرے کمپنی کے ڈیٹا کے مطابق ہیں۔ فری سٹائل لیبرے کا سینسر 14 دن تک پہنا جا سکتا ہے جبکہ ڈیکس کام جی۔ 6 کا سینسر 10 دن تک پہنا جاسکتا ہے۔

ان سی جی ایم کی ابتدائی نسلوں میں پیراسیٹامول یا ٹائلینول کی وجہ سے کچھ مریضوں میں شوگر کا لیول کم دکھائی دیتا تھا لیکن اب نئی نسل کے سی جی ایم پہلے سے بہتر ہو گئے ہیں اور ان میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔

فری سٹائل لیبرے بنانے والی کمپنی اپنی پروڈکٹ کی پوری ذمہ داری لیتی ہے اور سینسر کی ناکامی کے متعلق آگاہ کرنے پر نیا سینسر بھی آپ کو بھجوا دیتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ فری سٹائل لیبرے استعمال کرتے ہیں اور آپ کا سینسر فیل ہو جاتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ شکایتی طور پر کمپنی کو فون کریں تاکہ وہ آپ کو نیا سینسر بھجوا سکیں یا آپ کو آپ کے پیسے واپس کر سکیں۔ ڈیکس کام جی۔ 6 میں عام طور پر یہ مسئلے پیش نہیں آتے، لیکن پھر بھی ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ سینسر ایک کافی نازک آلہ ہے۔ اگر سینسر فیل ہونے میں ان کی کوئی غلطی نہ ہو تو سینسر بنانے والی کمپنیوں کو سینسر کے فیل ہونے پر مریضوں کی مدد کرنی چاہیے۔

سی جی ایم مہنگے ہیں لیکن ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی قیمت بہتر ہو رہی ہے۔

اگر آپ سی جی ایم استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور آپ کی بلڈ گلوکوز اکثر کم ہوجاتی ہے تو۔ ڈیکس کام جی۔ 6 ان مریضوں کے لیے بہتر ہے جن کی بلڈ گلوکوز اکثر کم رہتی ہے یا وہ انسولین کا روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈیکس کام جی۔ 6 فری سٹائل لیبر سے کافی زیادہ مہنگا ہے۔ میڈی کیئر (Medicare) انشورنس والے مریضوں کو بھی 20 فیصد رقم جیب سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگر آپ ان مریضوں میں سے ہیں جو صرف انگلیاں چبھونے سے بچنا چاہتے ہیں اور آپ کی بلڈ گلوکوز زیادہ کم نہیں ہوتی تو قیمت کے لحاظ سے فری سٹائل لیبرے آپ کے لیے کافی بہتر ہے۔ اگر آپ دن میں تین یا چار انجکشن لگاتے ہیں تو میڈی کیئر دونوں طرح کے سی جی ایم کے اخراجات اٹھاتی ہے۔ آپ کے ڈاکٹر آپ کے لیے ایک مناسب سی جی ایم کا انتخاب کریں گے جو آپ کے بلڈ گلوکوز لیول یا ادا کردہ قیمت پر منحصر ہوگا۔ عموماً فری اسٹائل لیبرے کی درستگی کے حوالے سے شکایت زیادہ موصول ہوتی ہیں۔

سینسیانکس ایور سینس ( Sensionics Eversense)

نئی سی جی ایم ٹیکنالوجی میں سینسیانکس ایور سینس شامل ہے جس میں جلد میں سرجری کرنے والے چاقو سے ایک چھوٹے سے کٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو ڈاکٹر یا ہیلتھ کیئر پروفیشنل خود لگاتے ہیں۔ یہ سینسر جلد کے نیچے لگا کریہ زخم گوند یا ٹیپ سے بند کر دیا جاتا ہے۔ صاف رکھا جائے تو جلد ہی بہتر ہوجاتا ہے۔ یہ سینسر تین مہینے تک کم کرتا ہے پھر اس کو واپس نکال لیتے ہیں۔

وہ مریض جن کی جلد حساس ہے وہ ڈیکس کام جی۔ 6 اور فری سٹائل لیبرے کی جگہ سینسیانکس ایور سینس استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دس فیصد لوگ ایسے ہیں جو ڈیکس کام جی۔ 6 اور فری سٹائل لیبرے کو اپنی جلد کی کیفیت کی وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے۔ ”ڈیکس کام اور لیبرے ریش“ کے نام سے ایک فیس بک گروپ ہے جہاں پر اکثر مریض اپنے مسائل رپورٹ کرتے ہیں۔ سینسیانکس ایور سینس کا سینسر جلد کے نیچے ہوتا ہے اور اس کا ٹرانسمیٹر ہٹایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ڈیکس کام جی۔ 6 اور فری سٹائل لیبرے کا سینسر ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اور اگر سینسر ہٹا دیا گیا تو دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نیا لگانا پڑتا ہے۔

سینسیانکس ایور سینس کا سینسر چھپا ہوتا ہے اور ٹرانسمیٹر ہٹایا جا سکتا ہے اس کا یہ فیچر اس کے استعمال کو کافی آسان بنا دیتا ہے۔ ڈیکس کام جی۔ 6 اور فری سٹائل لیبرے کو اگر آپ نے ہٹا دیا تو آپ کو نیا سینسر استعمال کرنا پڑ جاتا ہے۔ سینسیانکس ایور سینس کا سینسر آپ کی جلد کے نیچے تین مہینے تک رہتا ہے۔ سینسر کا دورانیہ بڑھانے پر کام جاری ہے اور دورانیہ چھ مہینے کرنے کی منظوری پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔

اگر آپ کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو آپ ٹرانسمیٹر اتار کر کھیل کود کرنے کے بعد واپس لگا سکتے ہیں۔ ٹرانسمیٹر ڈیٹا کلیکٹ کرنے کے بعد وہیں سے شروع ہو جائے گا جہاں سے بند ہوا تھا۔ سینسیانکس ایور سینس استعمال میں بہت زیادہ بہتر ہے۔ صرف سینسر کا دورانیہ تھوڑا سا کم ہے اور آپ کو ہر تین مہینے میں ایک کٹ لگانا پڑ جاتا ہے۔ یہ کٹ معمولی سا ہوتا ہے اور پانچ منٹ میں پورا عمل ختم ہو جاتا ہے۔ یہ سر جری کی طرح عمل نہیں ہے اور ڈاکٹر کے آفس میں ہی ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر سینسر کا دورانیہ بڑھا دیا جائے تو یہ اور بھی مفید ہو جائے گا۔ یہ ڈیکس کام جی 6 اور فری سٹائل لیبرے کی طرح مشہور تو نہیں ہے لیکن اگر دورانیہ بڑھا دیا جائے تو یہ بھی مقبول ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).