سازشیں کیوں نہیں تھم رہیں؟


تین نومبر 2007 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف آئین معطل کر کے ایمرجنسی پلس کے نام پر ایک بار پھر مارشل لا لگایا تھا لیکن یہ دن اس لحاظ سے منفرد بھی ہے کہ ساٹھ سے زائد ججز نے آئین شکنی کو قبول کرنے کی بجائے گھروں میں قید ہونا قبول کر لیا۔ پرویز مشرف پاکستان کے پہلے فوجی سربراہ ہیں جنہیں آئین شکنی کے جرم میں خصوصی عدالت نے غدار قرار دیا اور انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ اس دور میں وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں نے نے ببانگ دہل آمریت کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے نے آزاد جمہوریت کے داعیوں کے لئے مزید تقویت کا باعث ہے۔

محترمہ کلثوم نواز کی رحلت کے بعد نواز شریف نے ایک طویل خاموشی اختیار کر لی تھی لیکن آل پارٹیز کانفرنس میں ان کے مفصل خطاب نے جمہور پسندوں کے دلوں میں آزاد جمہوریت کی نئی رمق پیدا کی ہے۔ نواز شریف کے خطاب کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ فوج کو بطور ادارہ سیاسی امور میں ملوث کرنے کی بجائے حاضر سروس افسران کا نام لے کر انھیں مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ نواز شریف آئین کی پاسداری اور یکساں احتساب کی بات کر رہے ہیں۔ وہ عوام کو باور کرا رہے ہیں کہ احتساب کے نام پر منتخب وزیراعظم کے ساتھ کیسے تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کیسے وی وی آئی پی احتساب کیا جاتا ہے۔ اول الذکر سے گزشتہ ستر سالوں کا حساب مانگا گیا جبکہ مؤخرالذکر سے صرف چار صفحوں کی خودساختہ وضاحت کے بعد کسی پوچھ گچھ کا تردد ہی نہیں کیا گیا۔

یہی وجہ ہے نواز شریف کا بیانیہ نہ صرف عوام میں مقبول ہو رہا ہے بلکہ پردے میں لپٹی آمریت کے خلاف پرزور آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جمہوریت کے پروانوں کے جنوں کا رنگ کچھ الگ ہی منظر پیش کر رہا ہے۔ جمہور پسندوں اور غیرجمہوری سوچ رکھنے والوں کے درمیان سیاسی تقسیم مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ کل تک جنہیں مقدس گائے سمجھا جاتا تھا اب ان سے جواب مانگا جا رہا ہے۔ جو وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگنے پر بھی معتبر ٹھہرتے تھے اب انھیں مبینہ طور پر آئی جی سندھ کو گھر سے اغوا کرنے پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔

آرمی چیف کے نوٹس کو دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن اس واقعہ کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکیں۔ گزشتہ الیکشن میں آر ٹی ایس (RTS) کا بند ہونا بھی ہنوز جواب طلب ہے۔ ڈی جی ایس پی آر نے ایاز صادق کے بیان پر ایک بھرپور پریس کانفرنس کر دی مگر فواد چودھری کے پلوامہ کے بارے میں بیان پر بالکل خاموش رہے۔ نواز شریف کے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی بات پر ڈان لیکس کا شوشہ کھڑا کر دیا گیا جبکہ وزیراعظم عمران خان کا امریکہ اور ایران میں القاعدہ کو تربیت اور مجاہدین کی پشت پناہی کے واضح اعتراف کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا۔ ایسے واقعات عوام کے ذہنوں میں مزید نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ یہی وہ اسباب ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو عوام میں پذیرائی دلوا رہے ہیں۔

چند ماہ پہلے میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”سازشیں روکنی ہیں تو مکالمہ بہت ضروری ہے“ ۔ اس کالم میں اختصار سے بتایا گیا تھا کہ ”نئے الیکشن سے قبل ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ طاقت کا زعم اپنی جگہ مگر پاور بروکرز کو سیاستدانوں کی بصیرت پر اعتماد کرنا ہو گا۔ سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشوں کی ریشہ دوانیوں کی بجائے انھیں کام کرنے کا اختیار دینا ہو گا۔ طاقت کے مراکز کو دو قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ وقت ہاتھ سے سرک رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ورنہ بلوچستان کے خلاف سازشیں ایسے ہی توانا ہو رہی ہیں، جیسے مشرقی پاکستان میں کھیل رچایا گیا تھا“

حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں آئین کی پاسداری کے لئے یکسو ہو چکی ہیں۔ پاکستان کی بقا آئین کی سربلندی میں ہی ہے مگر معاشرتی عدم برداشت اور سیاسی تقسیم اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ طرفین اختلاف رائے پر غداری سے کم کوئی الزام لگاتے ہی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا منہ پر ہاتھ پھیر کر سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کا عزم اور وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا دھمکی آمیز بیان اس نفرت انگیزی کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری نے انڈین میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے درست کہا کہ سیاسی جماعتیں ایسے ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی ہیں لیکن وہ اندرونی سیاست میں اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے ہیں۔ سیاست ضرور کریں مگر رواداری بھی قائم رکھیں۔ سیاسی جماعتوں کو غدار بنا کر کالعدم کروانے کی بجائے سیاسی میدان میں ان کا مقابلہ کرنا سیکھیں۔

عمران خان کی حکومت کارکردگی دکھانے میں تو ناکام ہے ہی مگر سیاسی تفریق کی بنیاد پر حریف جماعتوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دینے والی حکومتی روش بہت خطرناک ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کو عملی طور پر بھی ثابت کرنا ہو گا۔ بھلے پرویز مشرف ہو عاصم سلیم باجوہ سب کو کٹہرے میں آنا ہو گا۔ سیاسی معاملات میں عسکری مداخلت اب کوئی خفیہ راز نہیں رہا۔ نواز شریف جو کہہ رہے ہیں اسے سننے میں ہی بھلائی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں لطیف آفریدی جیسے دو ٹوک موقف اختیار کرنے والے کی جیت جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے۔ ہمارا مقتدر حلقوں کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ قوم آزاد جمہوریت چاہتی ہے۔

ہمارے عسکری اکابرین کو ضرور ٹھنڈے دماغ سے صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ پانی بھلے سر سا اونچا نہیں ہوا لیکن وقت ہاتھ سے سرک رہا ہے۔ زبان خلق کو سنیں اور سمجھیں۔ درحقیقت طاقت کا منبع وہی ہیں اس لیے پیچھے بھی انھیں ہی ہٹنا پڑے گا۔ موجودہ صورتحال کا واحد حل اپوزیشن جماعتوں سے مکالمہ ہے۔ اگر ہمارے اکابرین نے نہ سمجھا تو پھر پاکستان کے دشمنوں کو سازشیں کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ ہمارے ”اپنوں“ کی ہٹ دھرمی ہی ہمیں ایک بار پھر ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).