سلامت مسیح چوڑھا اور اونچ نیچ کی شطرنج


نانی کی بڑبڑاہٹ اس وسیع و عریض آنگن میں گونج رہی تھی، “کم بختی مارا، ابھی تک نہیں آیا۔ ہزار بار کہا کہ جب تک بچے ادھر ہیں، وقت پہ آیا کرو۔ بچے معصوم بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ نانی کا گھر ہے یا تعفن کا ڈھیر، ہم ایسے ہی شہر سے چھٹیاں گزارنے گاؤں آئے “

“بےبے جی، کون نہیں آیا؟” ہم نے سوال کیا

ایک دم ہی لہجے میں شیرینی بھرتے ہوئے وہ بولیں، “بے بے کی جان، وہی اپنا سلامو چوڑھا ہے نا، وہ ابھی تک نہیں آیا”

ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئی کہ نانی جنہیں ہم بےبے کہتے تھے، ان سلامو انکل کو کوستی ہوئی چوڑھا کیوں کہہ رہی ہیں؟ وہ سلامو انکل جو روزانہ ایک بالٹی اور جھاڑو اٹھا کے آتے ہیں, چپ چاپ صفائی کر کے رخصت ہو جاتے ہیں، بس کبھی کبھی ایک پیار بھری نظر چپکے چپکے ہم تک آ پہنچتی ہے۔ ہم تجسس کے ہاتھوں مجبور فوراً اماں تک پہنچے اور اپنی فطرت کے مطابق سوال داغ دیا

” اماں، چوڑھا کسے کہتے ہیں “

اماں کچھ گڑبڑا کے بولیں

“تم نے کہاں سے سن لیا یہ؟”

“وہ بے بے کہہ رہی ہیں کہ آج چوڑھا نہیں آیا”

“ارے بیٹا ، خاکروب کو کہتے ہیں”

“لیکن اس لفظ چوڑھے کا کیا مطلب ہے ” ہماری سوئی وہیں پہ اٹک چکی تھی۔

“کچھ نہیں، جاؤ تم کھیلو” اماں نے ہمارے سوال کو سخن گسترانہ سمجھ کے سرد مہری سے کہا،

“بھلا یہ کیا بات ہوئی، بتاتی نہیں ہیں ٹھیک طرح، ابا ہوتے یہاں تو پوچھتی” ہم زیر لب بڑبڑائے۔

یہ ان یادوں میں سے ایک ہے جو بچپنے اور الہڑپن کے پانیوں میں چھپ کے بیٹھی ہیں۔ کبھی کبھار اس تالاب میں کوئی پتھر گرتا ہے تو نتیجے میں پیدا ہونے والے شگاف سے کوئی ایک آدھ باہر کو ایسے چھلک جاتی ہے جیسے رہائی چاہتی ہو۔

ہماری اماں سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں کی رہنے والی تھیں۔ چھوٹی عمر میں رخصت ہو کے ابا کے ہمراہ راولپنڈی چلی آئیں۔ ہم سے پہلے کی تو ہمیں خبر نہیں لیکن ہمیں خوب یاد ہے کہ اماں ہماری گرمیوں کی چھٹیوں کا شدت سے انتظار کر رہی ہوتیں۔ جس دن سکول بند ہوتے، اماں اگلے ہی دن سامان باندھ کر بچوں کے ہمراہ اپنے میکے روانہ ہو جاتیں۔

گاؤں میں ہمارے دن عید اور رات شب برات کی طرح بسر ہوتے۔ ہم بہن بھائی وہاں کے باسیوں کے لئے خاصے کی چیز ہوتے اور ہمارے دیدار کا اشتیاق ہر چھوٹے بڑے کو ہوتا۔ کوئی ہم بہن بھائیوں سے انگریزی نظمیں سنتا، کوئی ہمارے ریشمی فراک ہاتھ لگا کے دیکھتا، کوئی ہمارے موزوں اور لش لش کرتے جوتوں کو حسرت سے دیکھتا اور کوئی رشک بھری نظر سے اماں کو دیکھتے ہوئے کسی اور کے کان میں سرگوشی کرتا، کیا خوش نصیب ہے پڑھا لکھا شوہر ملا ہے۔

ہماری نانی کو ہر بات میں خیال رہتا کہ شہری بچے ان کے پاس چھٹیاں گزارنے آئے ہیں، سو آؤ بھگت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔

ان دنوں گاؤں میں گھر کے اندر حوائج ضروریہ سے فراغت کا کوئی انتظام نہیں ہوا کرتا تھا۔ صبح تڑکے لوگ باگ کھیتوں کو روانہ ہو جاتے، سیر بھی ہو جاتی اور فراغت بھی! لیکن یہ شہری بچے کیا کرتے اور خاص طور پہ وہ بچی جس کی زبان کتر کتر چلا کرتی تھی۔ بالآخر مسئلہ یوں حل ہوتا کہ گھر میں موجود ایمرجنسی عارضی بندوبست کو ان دنوں میں مستقل کر لیا جاتا اور صفائی کا بندوبست ان سلامو چوڑھا صاحب کے ذمے ہوجاتا۔

ہماری اماں اور نانی تو ہمیں لفظ چوڑھا کی حقیقت نہ بتا سکیں لیکن بعد کی زندگی میں یہ لفظ وقتاً فوقتاً سماعت تک پہنچتا رہا۔ کسی کی تذلیل کرنی ہو، کسی کی کم روئی کا مذاق اڑانا ہو، بھرے بازار میں ننگا کرنا ہو، آرام سے کہہ دیا جاتا،

چل چوڑھی نہ ہو تو!

چوڑھی شکل!

چوڑھوں والی حرکتیں نہ کیا کرو!

کچھ سمجھنے سمجھانے کی منزل آئی تو بے اختیار دل کو دھچکا سا لگا، ارے ہم نے اسی سماج کے کچھ افراد کو دھارے سے علیحدہ رکھ کے کیا نام الاٹ کر دیا ہے؟ ہم نے انہیں گھر گھر کا بول وبراز سمیٹنے پہ کیوں لگا رکھا ہے؟ مسیحی ہونا جرم تو نہیں! مذہبی تفاوت اور اقلیت ہونے کی اتنی بڑی سزا!

اب یہ لفظ ہمارے دل میں کھب چکا تھا۔

اب ہماری نظر ان لوگوں میں کچھ کھوجنے کی کوشش کرتی۔ زندگی سے ہارے ہوئے، کسی اور دنیا کے باسی، چپ چاپ، مسکینی اور بے بسی حلیے سے ٹپک رہی ہوتی، سپاٹ چہرے۔ نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی واویلا، نہ گلہ شکوہ۔ جیسے انجان ہوں اس گورکھ دھندے سے، بنا یہ سوچے کہ وہی رب کائنات ان کا بھی رب ہے اور ان کا بھی جن کے گھر کا بول وبراز وہ سمیٹنے پہ مامور ہیں۔

کالج و سکول، سرکاری اداروں کے مہتر، سڑکوں اور گھروں کی خاکروبی، ہسپتالوں کے زچہ خانوں کا فضلہ، لاشوں کا پوسٹ مارٹم، یہ سب انہی چوڑھوں کی ذمہ داری ٹھہری۔ ان نوکریوں کے جب اشتہار اخبار میں چھپتے تو اہلیت میں اقلیت سے تعلق ہونا لکھا ہوتا۔

میڈیکل کالج میں پہنچے تو ہر طرف وہی تھے، مہر بہ لب، خاموشی سے کام میں مشغول۔ ڈائسیکشن ہال کے منتظم، برآمدے صاف کرتے، لیبارٹریوں میں خون، پیشاب، پاخانے کے نمونے سنبھالتے، کون ہے جسے پیتھالوجی لیب کا پیارے مسیح یاد نہیں؟

گنگا رام ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار مریضوں کو بیڈ پین دیتے، غسل خانے دھوتے، زچہ کی صفائی کرتے، وہی تو تھے ہمارے چاروں طرف!

یہ سب ملازمین ہوسٹل کے عقب میں بنے کوارٹرز میں رہا کرتے تھے۔ ہمیں ان کوارٹرز تک جانے کا اتفاق یوں ہوا کہ کچھ ملازمین کی بیویاں سلائی کر کے زندگی کی گاڑی دھکیل رہی تھیں۔ رت بدل رہی ہو، موسم اپنا رنگ دکھا رہے ہوں، تو شوقین مزاج لڑکیاں نئے ملبوسات کی چاہ میں رستے کھوج لیا کرتی ہیں سو ہم ان گھروں تک جا پہنچے، جہاں کی ہر دیوار پہ اداسی بال کھولے سوتی تھی۔

ایک سیلن زدہ اندھیرا کمرہ، ایک باتھ روم، ایک چھوٹا برامدہ، جس میں ایک طرف چولہا رکھا ہوتا اور دوسری طرف سلائی مشین۔ سلائی کی معمولی اجرت لینے والی وہ تھکی ہاری عورتیں، کبھی چولہا جلاتیں اور کبھی مشین چلاتیں! ان کے لئے یہ اعزاز کی بات ہوتی کہ مستقبل کی ڈاکٹر بنی ٹھنی فیشن ایبل لڑکیاں ان کے گھر آتی ہیں اور ان کے برامدے میں پڑے موڑھے پہ بیٹھ کے انہیں ڈیزائن سمجھاتی ہیں۔

وارث روڈ پہ بنے ان کوارٹرز میں زندگی کسی اور رنگ میں بستی تھی اور جونہی ہم ہوسٹل کے گیٹ میں داخل ہوتے، منظر بدل جاتا۔ زندگی کی تمام آسائشوں کے ساتھ زندگی کی اڑان بھرنے کو تیار ہنستے مسکراتے خوش باش چہرے۔ جیسے کسی پرانی الماری کے انتہائی نچلے خانے میں ایک بوسیدہ، خستہ، بد رنگ کتاب رکھی ہو جسے محض چھونے پہ ورق ورق علیحدہ ہو جائے اور اسی الماری کے اوپر والے خانے میں ایک دیدہ زیب، شوخ نقش ونگار اور مضبوط جلد والی کتاب رکھی ہو۔ ہمیں وہ بوسیدہ کتاب رنج میں مبتلا کرتی تھی۔

ہوسٹل سے نکلے، نئی ذمہ داریاں، نئی زندگی لیکن وہ مانوس چہرے پھر بھی ساتھ تھے۔ ہر فوجی یونٹ کے مسیحی مہتر اور خاکروب!

وہی سیاہی مائل رنگت، وہی خاموش لب، وہی جھکی نظریں، وہی لاغر جسم، وہی غربت، وہی لجاجت! دبے پاؤں گھر میں گھومتے، اپنا کام کرتے اور رخصت ہو جاتے۔

آج ہمیں وہ سب “چوڑھے” اس لئے یاد آ گئے کہ آرزو راجہ کے لئے چھڑی گفتگو میں بحث کے دوران یہ کہا گیا کہ کون کہتا ہے وہ پڑھ لکھ کے آگے نہ بڑھیں؟ وہ محنت کریں تو ہمارے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ہمارا کہنا یہ ہے کہ کسی بھی دوڑ میں کھڑے ہوئے کھلاڑیوں کے بھاگنے کا نقطہ آغاز ایک ہی لکیر سے ہوا کرتا ہے۔ بنگلوں میں جنم، تعلیم یافته والدین کی چھتر چھایا، ہر ناانصافی میں ریاست کی کھلی سرپرستی، تمام تر وسائل کی فراہمی اور مذہبی تفریق کی شدت سے وہ لوگ کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں جو غصب شدہ حقوق، احساس کمتری، تحقیر آمیز رویوں اور خوف و ہراس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔

سمجھ لیجیے کہ ہم میں اور ان میں فرق صرف اتنا سا ہے کہ تخلیق کار نے کسی کو غلام رسول کے گھر اتار دیا، کسی کو مائیکل مسیح کے دروازے پر چھوڑ دیا اور کسی کو لبھا رام کے آنگن میں قلقاریاں بکھیرنے کا موقع دیا۔ اگر انسانی وقار کی قیمت یہی پیدائش کا اتفاق ہے تو سوچ لیجئے کہ دیوار کے پار برہمن راج میں ہاشم پورہ کا مسلمان یا احمد آباد گجرات کا دلت ہونا کس اذیت کی علامت ہے؟ خلیجی ممالک میں اپنے لئے عالم المساکین کا لقب کیسا لگتا ہے؟ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کا صدر ڈونلد ٹرمپ جب کچھ ممالک کے لئے asshole states کی ٹرم برتتا ہے تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟

شعوری اختیار سے ماورا جبر و قدر کے اس کھیل میں ہم سب شطرنج کے مہرے ہیں، تو غرور کیسا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).