روڈ از ہلی، ڈونٹ بی سلی


کورونا کے بعد جاب شروع ہوئی تو دو نئے چیلنجز کا سامنا تھا۔ نئی باس اور میاں کی ضد۔ باس کو تو ہر صورت سنبھالنا میرا فرض تھا کہ یہ میرے کام کا حصہ تھا مگر میاں کی ضد کچھ اچھوتی تھی۔ دور جوانی کے کچھ ادھورے سپنے پورے کرنے چلے تھے۔ ناران کاغان۔ ناران کاغان، میرے دو بھتیجے طلحہ اور حسیب کی طرح ہیں۔ ان کا نام الگ لیا ہی نہیں جاتا۔ میرے میاں کو ناران کاغان سترہ سال بعد پھر سے جانا تھا۔ دو ماہ کی ٹال مٹول کے بعد میں نے گھٹنے ٹیک دیے۔

اس بار تو خرچے کا خوف بھی ان پہ طاری نہ کر سکی۔ پرائیویٹ اداروں نے جب سے چھٹیاں دینا منسوخ کی ہیں، مجھ جیسے مجبوروں کو لانگ ویکینڈ کا انتظار رہتا ہے۔ جو اس دفعہ 12 ربیع الاول کو مل گیا۔ مجھے نئی سردی میں زکام کی شکایت رہتی ہے اور زکام ہونے کا مطلب آج کل گھر بیٹھنا ہوتا ہے۔ خیر فیصلہ کر لیا تو چل پڑے۔

جمعے کی صبح رخت سفر باندھا۔ میں کچھ کنفیوز تھی کہ میرے میاں کو زیادہ خوشی کس بات کی ہے۔ ہزارہ موٹر وے پہ سفر کی یا میرے ساتھ ناران کاغان جانے کی۔ جلد ہی جواب مل گیا۔ اتنا خوش تو میں نے انھیں شادی والے دن بھی نہ دیکھا تھا۔ تکنیکی اعتبار سے میرے پاس میرا سارا ساز وسامان ہوتا ہے۔ میں نے GPS انتہائی فخر سے لگایا اور مانسہرہ تک کی ڈرائیونگ کی ذمہ داری حصے میں آئی، دلفریب سی موسیقی لگائی اور چل پڑے۔

نجانے کیوں میری بیٹی نے کئی دفعہ پوچھا کہ کیا ہم پاکستان سے باہر ہیں۔ شاید راولپنڈی اسلام آباد کے باہر اس نے ماسک نہیں دیکھے اس لیے پوچھا یا ہزارہ موٹر وے چمک رہی تھی اس لیے۔ مگر مانسہرہ کے قیام و طعام پہ رکے تو ا سے جلد ہی یقین آ گیا کہ وہ پاکستان میں تھی۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے اس پہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

خیر GPS نے ہمیں مانسہرہ شہر میں نہ جانے کا کہا اور کسی خطرناک کچی سڑک پہ ڈال دیا۔ جس کے دونوں سمت خیبر پختونخوا کے گاؤں آباد تھے اور ہر تھوڑی دیر میں اچھوتے اسپیڈ بریکر تھے جو پابندی سے گاڑی سے ٹکراتے، ہر اسپیڈ بریکر پہ ایک مسجد کا چندہ مانگنے کوئی کھڑا ہوتا۔ میں نے بڑی تیزی سے وئیر ہاؤس کی سرخ جیکٹ کو چھپاتے ہوئے بڑی سی چادر لپیٹ لی اور اس دن شدت سے خود کو کوسا کہ پشتو سیکھ لینی چاہیے تھی۔ سامنے کی سمت سے جلوس آ رہا تھا اور گاڑی میں میا ں کے کوسنے کہ GPSکی کیوں سنی۔

شاید پورا جملہ یہ تھا کہ ہماری تو نہ سنی کبھی۔ مانسہرہ شہر سے جانا چاہیے تھا۔ اس بوچھاڑ میں ڈرائیور کو تو نکل کے بھاگ جانا چاہیے مگر وہ تو میں تھی۔ کہا خود چلا لیں۔ اب کیا کروں کہ یوتھیوں کی طرح میں نے GPS کی اندھی تقلید شروع کر دی کہ یہ اب جہاں بھی لے جائے۔ آج تو سب کچھ بہترین ہو کے رہے گا۔ مگر یہ رانی صاحبہ ہمیں اٹھا کے۔ ’شاتے‘ کے مقام پہ لے آئیں۔ اگلے ایک گھنٹے ہم یونہی دم سادھے ایک ٹوٹی پھوٹی نامعلوم سڑک پہ بڑھتے رہے۔ اور گھنٹہ گھوم کہ پتہ یہ چلا کہ ’بٹراسی‘ میں گھوم رہے ہیں جسے نظرا نداز کرنے کے لیے مانسہرہ ناران جلکھٹ نامی سڑک بنی تھی۔ مجھے حیرت اس بات کی ہوئی کہ زیارت کی طرح یہاں بھی سگنل کا متواتر مسئلہ رہا۔

خیر صبر کے کئی پیمانے چھلکے تب جا کے اصل سڑک آئی اور میرے میاں کو دریائے کنہار نظر آیا۔ آخر کار ’کیوائی‘ آیا اور ٹراؤٹ کا دیدار نصیب ہو ا۔ مجھے ٹراؤٹ مچھلی کی معصوم ذہنیت پہ سخت حیر انی ہوتی ہے کہ کہاں دریا کا تیز اور یخ بہاؤ اور کہاں فارم کے پائپ سے پیدا کردہ دو نمبری بہاؤ۔ بہر حال کیا بات ہے جناب۔ مچھلی کے ساتھ کچھ جلے ہوئے چپس آئے۔ وہ تناول فرما کے جو سڑک پہ آئے تو ہماری گاڑی کے پیچھے کوئی منچلے صا حب گاڑی کھڑی کر کے چشمے کے پانی میں آرام فرما رہے تھے۔

مجھے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی روک دیا گیا اور خشک میوہ جات دکھا دیے گئے۔ ’اخروٹ‘ ۔ اخروٹ میں، میں اپنے سسر کی واحد پسند نہیں ہوں۔ انہیں کھانے کے لیے بھی اخروٹ بہت ہی پسند ہیں۔ کیوائی اور پارس سے مقامی اخروٹ خریدے۔ یہاں بھی خون کھول کے رہ گیا کہ اخروٹ کی قیمتیں حد درجہ بڑھی ہوئی تھیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اخروٹ یہاں سے دگنی قیمت دے کر سی پیک پہ کام کرنے والے چائنیز لے جاتے ہیں۔ جس سے اخروٹ کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ میری زندگی میں جلے ہوئے چپس کی مانند اور بھی کافی چھوٹی چھوٹی پریشانیاں رہتی ہیں جیسے کہ سیٹ بیلٹ کیا صرف میری ہی گردن میں چبھتی ہے۔

کسی جگہ جا کے مجھے ہاتھ لگا کے آنے میں ذرا دلچسپی نہیں۔ مجھے وہاں رہ کے وہاں کا طرز زندگی، طو ر طریقے دیکھنے ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں سے بات چیت کرنی ہوتی ہے۔ کم از کم دو ہی دن سہی مگر دن اور رات تو پورے دیکھنے کو ملیں۔ ہر صبح جینے کا ایک نیا سبق پڑھا جاتی ہے۔ گیسٹ روم تو خیر پہلے سے بک تھے اس لیے ذلیل و خوار ہونے کی اتنی زیادہ گنجائش نہیں تھی سوائے اس کے کہ گیسٹ روم میں کوئی بڑی شخصیت آ جائے اور ہم دربدری میں آ جائیں۔ شکر خدا کا کہ مغرب کی اذان بعد میں ہوئی اور ہم دریا کنارے شاندار گیسٹ رومز میں پہلے پہنچ گئے۔

رستے میں بڑے منظم ٹھکانے نظر آئے چینیوں کے۔ سرخ یونیفارم میں ملبوس، شدید حیرانی ہوئی کہ وہ شام کے اوقات میں بھی کام کر رہے تھے اور کہیں کوئی چھٹی کے وقت کا ماحول نہیں تھا۔ جگہ جگہ تین زبانوں میں بورڈ ز لگے تھے مگر اعصاب پہ بس ایک ہی بورڈ سوار تھا جو کئی بار ٹوٹی ہوئی کچی سڑک پہ لگا پایا۔ Road is Hilly، Don ’t be Silly۔ ایک مووی ہے بچوں کی اور غالباً کتاب سے بنائی گئی ہے‘ چارلی اینڈ دا چاکلیٹ فیکٹری ’، میری بیٹی کو جگہ جگہ ایک سے لال لباس میں ملبوس چینی اس مووی کا کردار ‘اومپا لومپا’ لگے۔ ویسے مجھے بھی کچھ ایسا ہی شک گزرا تھا۔

جا بجا خزاں کے حسین منظر دیکھنے کو ملے۔ بھورے، عنابی، نارنجی اور زرد پتے دور دور تک پہاڑوں پہ گچھے ہوئے۔ گیسٹ روم بھی حسین تھے، پر سکون اور دریا کے ساتھ۔ میس کک (باورچی) بھی ماہر تھے۔ میں نے جھجکتے ہوئے منیو کا پوچھا تو جواب بہت بے دھڑک ملا کہ اوپن مینو ہے۔ میں نے بھی نئی نئی ڈشیں بنوا کے اس کے صبر کو خوب آزمایا مگر آخر میں جب اسے گرلڈ فش اور میشڈ پوٹیٹوز بنانے کہا تو اس نے ہار مان لی۔ پھر میں نے اسے طریقہ سکھایا۔ انعام میں اس نے مجھے اخروٹ عنایت کیے۔

مجھے اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں ہمیشہ مسائل درپیش رہتے ہیں کہ میں ایک رومانوی مزاج کی شخصیت ہوتے ہوئے طنز کے تیر کیسے برسا سکتی ہوں۔ مگر یقین کیجیے کہ کئی جگہ لتا کے سریلے گانے بجنے کے باوجود دل چاہا کہ تہس نہس کر ڈالوں سب۔

اگلے دن ناران کا سفر تھا کہ وہاں سے جھیل سیف الملوک جانا تھا۔ جیپ کاغان ہی منگا لی۔ میں سترہ سال پہلے آئی تھی مناظر نہیں بدلے مگر سڑکیں، اف۔ اس وقت چھوٹی سی گاڑی سڑک پہ دوڑتی پانچ افراد کا بوجھ اٹھائے ناران جا پہنچی تھی اور آج بڑی جاپانی گاڑی بھی چیخ پڑی تھی۔ لگا کہ آج کوئی بھی ہڈی صحیح سلامت نہیں بچے گی۔ ٹھیک ہے جناب، ڈیم بننے کی خوشی الگ، سکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، مگر اس سے آگے آیا ناران۔

اپنی بیٹی کو ہم کسی صورت قائل نہ کر سکے کہ ناران لوگ کیوں جا کے ٹھہرتے ہیں۔ ہوٹلوں کا جنگل تھا وہ یا کوئی تعمیراتی نمونہ۔ عجب شرمندگی سی ہو رہی تھی کہ ساتھ مہمان کو یہ سب دکھانے لائے تھے۔ اس قدر توڑ پھوڑ کہ جیسے موئن جو دڑو دوبارہ تعمیر ہو رہا ہو۔ شکر خدا کا کہ ہم کاغان دریا کنارے ٹھہرے تھے جہا ں ہم دنیا کی بے ثباتی پر غور کر سکتے تھے اور بچی کو قائل بھی کر سکتے تھے۔ مگر ہاں، رومانوی سحر کو گھول کے نا میں اپنے میاں کو پلا سکتی تھی نا اپنی اولاد کو۔ اس لیے موسیقی کو ہی غنیمت جانا۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ جیپ مافیا وہاں سڑک نہیں بننے دیتی کہ ہر کوئی پھر تو اپنی گاڑی پہ سیف الملوک چلا جائے گا تو ان کی روزی کا کیا ہو گا۔ تو دو سال میں تعلیم کے فروغ کے ساتھ میں نے ٹورزم کا فروغ خوب اچھی طرح دیکھا اور سمجھا۔ وہ تو شکر ہے کہ ہزارہ موٹر وے بن گئی اور مری جانے کے لیے ایکسپریس وے بن گئی تھی۔ خیر جناب، ایک تو غصہ اور مایوسی اوپر سے نا ختم ہونے والے جھٹکوں کا سلسلہ۔ جتنی بار پوچھا گیا یہی جواب ملا کہ بس باجی، آ گئی جھیل۔ یہ آ گئی بس۔ پی ٹی آئی کا تھا شاید۔ خیر آخر کار دو گھنٹے کی اذیت کے بعد جھیل آ ہی گئی۔

آف سیزن کے جھانسے کے باوجود سیاحوں اور کچرے کا جم غفیر تھا۔ جہاں جہاں چینی تھے وہاں انہیں دکھانے کے لیے تین زبانوں میں بورڈ لگے تھے مگر جھیل پہ عام پاکستانی کو انگریزی میں تنبیہ کی گئی تھی کہ جانوروں کا سا برتاؤ کریں کہ وہ بھی اپنے جنگل میں کچرا نہیں پھیلاتے۔ 60 فیصد کو کیا سمجھ آتی بورڈ کی تو آدھی بات مان کے دکھا رہے تھے سب۔ ٹھنڈ کافی تھی۔ جیکٹ لادی اور لرزتے قدموں پہ چلنا شروع کیا۔ ان قدموں پہ جو جیپ سے اتر کے اب تلک نہ سنبھلے تھے۔

قدم رکھو کہیں اور پڑ کہیں رہے تھے۔ میں منظر سے مستفید ہوتی ہوئی خراماں خراماں جھیل کی جانب بڑھ رہی تھی کہ ایک بابا جی میرے ساتھ ہو لیے۔ مجھے لگا کہ کچھ ہزیان بک رہے ہیں، میں خاموشی سے چلتی رہی۔ اپنی جانب متوجہ پایا تو ہوں ہاں شروع کر دی۔ بابا جی نے پریوں جنوں شہزادوں کی وہ وہ کہانیاں گڑھیں کہ دل کیا کہ الٹے پاؤں واپس بھاگ جاؤں۔ خیال آیا انہیں کسی نیوز چینل میں ہونا چاہیے تھا۔ آس پاس سے گزرنے والے لوگ ان بابا کے ساتھ ساتھ مجھے بھی عجیب طرح گھور رہے تھے جیسے میں کوئی چھیاں چھیاں والا فون ساتھ لے کے چل رہی ہوں۔

نیچے پہنچی تو باباجی نے کہا کہ جا رہا ہوں، میں نے کہا کہ خدا حافظ تو انہوں نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔ بابا جی چپ ہوئے تو کچھ نارمل لگنے لگے۔ نجانے کیوں کچھ لوگ صرف چپ ہو کے ہی نارمل کیوں لگتے ہیں۔ ان کی زندگیاں کتنی مشکل ہوتی ہوں گی۔ یقیناً مجھے مثال دینے کی تو ضرورت نہیں ہو گی۔ میں نے پچاس کا نوٹ نکال کے انہیں دیا تو خفا ہونے لگے کہ اتنی اچھی کہانی سنائی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے خود کو میرا ٹور گائیڈ تصور کر لیا تھا۔

میں نے سو روپے دیے تو لے لیے۔ آ گے جھیل کا چکر لگانے کی بات ہوئی تو میں نے راہ فرار اختیار کی کہ چلنے کی ہمت نہ تھی، کہنے کو گاڑی کا سفر طے کر کے آئے تھے۔ زندگی میں پہلی بار گھوڑے پہ بیٹھی اور انتہائی عمدہ سواری لگی۔ ہاں ایک پریشانی ساتھ رہی کہ گھوڑا ناراض نہ ہو جائے۔ باقی سب کو خچر کی سواری ملی۔ خیر کافی اور پکوڑوں کے ساتھ رخصت لی اور پھر سے اذیت شروع ہوئی۔ ناران اتر کے سوچا شال خرید لوں کہ سیزن نہیں ہے، کل پرسوں سب بند ہو جائے گا تو سب سستا ہو گا۔ مگر قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، میں نے بھی غصے اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوتھائی قیمتیں بولیں اور آدھے میں بات ٹھہری۔ خیر کاغان پہنچے اور رات دریا کنارے بیٹھ کے خشک میوہ جات کے مزے لیے۔ اگلے دن واپسی تھی، جی پی ایس کے بغیر، اور واپسی کا سفر تو ویسے بھی کٹھن ہی ہوا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).