جب مامتا پہچان جائے۔ قیام پاکستان سے تیس سال تک محیط کہانی۔


  (۔   ۱۔   )
تقسیم ہند کا اعلان ہو چکا تھا۔ پاکستان زندہ باد اور جے ہند کے نعروں کے ساتھ بندے ماترم۔ ست سری اکال۔ اور اللہ اکبر کے نعروں کی دھاڑ میں مارو۔ لوٹو۔ جلاؤ۔ جانے نہ پائے کی چنگھاڑ شامل ہو چکی تھی۔ جالندھر ضلع کے ایک گاؤں کے باسی لطیف کی جواں سال بیوی اپنی پہلی زچگی کے لئے اپنے میکے۔ امرتسر کے ایک گاؤں آئی ہوئی تھی۔ خدا تعالی نے بیٹے سے نوازا۔ ”اقبال“ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ کہ ایک دن گاؤں والوں نے پاکستان جانے والے ایک قافلے کے ساتھ پاکستان کا رخ کیا۔ قافلے پر حملہ ہو گیا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کے ساتھ عورتوں اور لڑکیوں کو اٹھا لے جانے والے زیادہ سرگرم تھے۔

ڈیڑھ دو ماہ کے اقبال کو نانی نے اٹھایا ہوا تھا۔ ماں ساتھ تھی۔ ایک سکھ بلوائی کی نظر پڑ گئی اور وہ اقبال کی ماں کو پکڑ کر کھینچنے لگا۔ نانی نے بیٹی کو بچانے کی کوشش کی۔ کھینچا تانی میں اقبال زمین پر گر گیا۔ بلوائی سکھ کو کامیابی مشکل نظر آئی۔ ایک آسان شکار نظر پڑا۔ ان کو چھوڑ وہاں طرف چلا گیا۔ دونوں ماں بیٹی کھیتوں میں چھپ کر بھاگتے ہوئے ایک پانی والی کھال کے اوپر بنی پلی کے نیچے چھپ گئیں۔ اقبال کا پتہ کرنے کا نہ وقت تھا نہ حالات نہ پلی کے نیچے سے نکلنے کی جرات۔

اگلے دن پاکستانی فوجی دستہ پہنچ چکا تھا۔ زخمیوں اور بچے کھچے افراد کو سنبھالنے کے بعد حسب ہدایت تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اذانیں دیں۔ تا کہ چھپے ہوئے لوگ کوئی ہوں تو نکل آئیں۔ جب ماں بیٹی کو یقین ہو گیا کہ یہ واقعی پاکستانی فوج کے جوان ہیں تو پناہ گاہ سے نکل آئیں۔ بچے کی تلاش شروع ہوئی مگر نہ مل سکا۔ واہگہ کیمپ میں بھی تلاش ناکام رہی۔ بچے کھچے افراد خانہ ملتے گئے۔ لطیف بھی اہل خانہ کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ اقبال کا پتہ نہ چل سکا۔ پتہ چلا کہ ان کے قافلہ کے لاوارث بچے فلاں کیمپ میں لائے گئے تھے۔ وہاں جانے پر پتہ چلا کہ اس عمر اور شکل و صورت کا بچہ کوئی بے اولاد جوڑا دو دن قبل لے جا چکا تھا۔ تلاش ناکام رہی۔

لطیف نے چنیوٹ ٹکانا کیا۔ ایک چمڑے کے بیوپاری کے پاس ملازمت ملی۔ تجربہ ہونے پر چند سال بعد کراچی منتقل ہو گیا۔ چمڑے ہی کے کاروبار سے منسلک ہو گیا اور ترقی کرتے کرتے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر چمڑے کی ٹینری بنا لی۔ بے پناہ تلاش کے باوجود اقبال کا پتہ نہ تھا۔

(       ۲۔      )
انیس سو سڑسٹھ ہے۔ میاں آٹوز۔ فیصل آباد کے میاں انوارالحق نے نئی ٹویوٹا کرونا کار خریدی تو اس وقت کے لائل پور۔ فیصل آباد میں جاپانی کاریں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اور جاپانی کار کا مکینک ندارد۔ میاں صاحب کار کی عمومی دیکھ بھال کے لئے منوں موٹرز لاہور لے جایا کرتے۔ وہاں انہیں ایک لمبے پتلے گورے چٹے اپرینٹس لڑکے کا پھرتیلا پن۔ بول چال کا انداز اور مہارت اتنے پسند آئے کہ اس کے گرویدہ ہو کر رہ گئے۔ جتنی دیر میں دوسرے مکینک سوچتے اوزار نکال رہے ہوتے وہ کام کر کے فارغ ہو چکا ہوتا۔

آخر ایک دن اسے فیصل آباد میں ورکشاپ کھولنے کا مشورہ اور دعوت دے آئے۔ چند ہفتہ بعد یہ نوجوان مکینک۔ جہانگیر نام۔ میاں آ توز جنرل بس سٹینڈ پر موجود تھا اور کہہ رہا تھا۔ ”بس مجھے کوئی تھڑا کسی مناسب مقام پر کرایہ پر لے دیں اور کچھ اوزار خریدوا دیں۔ چند روز بعد جہانگیر میاں صاحب کے برادر نسبتی میاں نعیم صاحب کی شراکت میں ریلوے روڈ فیصل آباد پر آٹو ورکشاپ کا افتتاح کر چکا تھا۔

میرے پاس ان دنوں چونسٹھ ماڈل کی ڈاٹسن بلیو برڈ کار تھی۔ میاں صاحب نے تعارف کرا دیا۔ یہ حقیقت تھی کہ کار کا انجن بند کرنے سے پہلے وہ بتا دیا کرتا کہ فلاں نقص ہے۔ میٹھا بول۔ پھرتی۔ مہارت۔ مناسب اجرت۔ دنوں ہی میں ہم سب اس کے گرویدہ ہو گئے۔ جہانگیر ہماری بڑے بھائیوں جیسی عزت اور ادب کرتا۔ کچھ عرصہ بعد میں نعیم کسی اور شعبہ میں منتقل ہو گئے اور جہانگیر نے جیل روڈ فیصل آباد پر زرعی یونیورسٹی کے مقابل نیشنل بنک کے متصل چوہدری علی اکبر صاحب کی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر کا ایک عقبی کمرہ جس کا دروازہ سڑک پر کھلتا تھا کرایہ پر لے کر وہاں اپنی ورک شاپ بنا لی اور بہت جلد شہر کے مشہور ترین اور معروف ترین مکینکوں میں شمار ہونے لگا۔

(۔ 3۔ )

اوائل انیس سو ستتر میں لاہور سے فیصل آباد براستہ چنیوٹ آتے ایک مزدا 1500 کار کا انجن گڑ بڑ کر کیا اور چنیوٹ کھڑی کرنی پر گئی۔ وہیں انہیں کسی نے جہانگیر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ ان کی مشکل دیکھتے جہانگیر ان کے ساتھ چلا گیا۔ اور بجائے باندھ کے لانے کے سٹارٹ کر کے آہستہ آہستہ ڈرائیو کرتے لے آیا۔ پورا انجن اوور ہال ہونا تھا اور اس وقت یہ چند دن کا کام تھا۔ کار کے مالک دو دن میں ہی جہانگیر کے گرویدہ ہو چکے تھے۔

ایک دن کہنے لگے ہم غلام محمد آباد فیصل آباد عزیزوں کی شادی پر آئے ہوئے ہیں۔ آج ہماری ایک بزرگ خاتون کراچی سے آ رہی ہیں۔ لینے ائر پورٹ جانا ہے۔ اور کار ابھی ٹھیک نہیں ہوئی۔ جہانگیر کہنے لگا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں میں نے ایک دوسری کار کے ٹیسٹ ڈرائیو بھی کرنا ہے۔ آپ کی بزرگ میرے لئے بھی قابل احترام ہیں۔ ان کو بھی لے آتے ہیں کار کی ٹیسٹ ڈرائیو بھی ہو جائے گی۔

اب جو جہانگیر نے بتایا وہ اس کے اپنے الفاظ میں۔ ”میں کار کے پاس کھڑا تھا کہ ائر پورٹ کی بلڈنگ سے ایک خاتون ان افراد کے ساتھ آتی نظر آئیں۔ قریب آئیں تو میں نے انہیں سلام کیا۔ سلام کا جواب دیتے انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر پر پھیرنے کے لئے بڑھایا۔ میرے چہرے کو دیکھتے ہی ان کی نظریں میرے چہرے پہ جم کر رہ گئیں۔ کافی دیر وہ ہاتھ میرے سر پر رہا۔ اور ان کی نظریں میرے چہرے پر گڑی رہیں۔ آہستہ آہستہ ہاتھ سر سے نیچے لائیں۔

مجھے دعا دی اور پچھلی نشست پر بیٹھ گئیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ اس دوران بھی وہ مجھے دیکھے جا رہی تھیں۔ رستہ بھر جب بھی میں نے آئینہ میں پیچھے دیکھا۔ ان کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔ اور بار بار میرا دل بھی انہیں دیکھنے کو چاہا۔ منزل پر پہنچ کر کار سے اتر کر ایک بار پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میرا نام پوچھا اور گھر میں داخل ہو گئیں۔ ”

خاتون کو چپ سی لگ گئی تھی۔ باتوں باتوں میں اس مکینک کے متعلق پوچھتیں۔ آخر پھٹ پڑیں۔ جہانگیر کے متعلق پتہ کرو۔ یہ میرا اقبال ہے۔ مجھے یقین ہے یہ میرا اقبال ہے۔ گھر والے تذبذب میں تھے۔ کیسے پتہ کریں۔ جہانگیر سے کیسے پوچھیں کہ آیا اس کے والدین حقیقی تھے یا کوئی کھویا ہوا بچہ لے کے پالا تھا۔ ثبوت اور دلیل کیا ہے کہ جہانگیر اقبال ہی ہے۔ خاتون کا اصرار تھا کہ ”یہ اقبال ہی ہے۔ میرا خون کہتا ہے۔ میرا دل کہتا ہے۔ میرا دودھ مجھے پکار رہا ہے۔“ ”ہاں دیکھو اس کی شکل اپنے ماموں ( خاتون کے بھائی ) سے کتنی ملتی ہے اور اس کی آواز اپنے ماموں سے کتنی مشابہ ہے۔ مگر ہاں ٹھیک ہے وہ صرف ڈیڑھ ماہ کا تھا مگر اس کے سر کے پیچھے بالوں کے دو پگ وال تھے۔ اور جہانگیر کے دو پگ وال ہیں“

خاتون بیمار پڑ گئیں۔ رحیم یار خاں سے اپنی بیٹی کو بلوایا۔ اور جب پڑتال اور چھان بیاں شروع ہوئی تو آہستہ آہستہ کڑیاں ملتی گئیں حقائق سامنے آتے گئے اور انیس سو ستتر کی برسات میں جہانگیر یعنی اقبال کا سر تیس سال سے پیاسی حقیقی ماں کے سینے کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ اور ہم جیسے جان پہچان والے قدرت کے اس عجیب رنگ۔ عجیب کھیل۔ عجیب تانے بانے پر! وشی کے آنسوؤں سے اظہار تشکر کر رہے تھے۔

(۔ 4۔ )

اکتوبر کے اواخر میں جب جہانگیر جو اب محمد جہانگیر اقبال تھا کراچی اپنے حقیقی والدین بھائی بہنوں عزیزوں کے ساتھ دو ماہ گزار کر واپس آیا تو ایک روز میرے پاس دکان ( آٹو پارٹس ) پر آ بیٹھا ”لئیق صاحب جب بھی فیصل آباد آنے کے بعد مجھے کوئی مسئلہ پیش آیا ہے۔ میں رہنمائی کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ آج بھی ایک اہم موڑ درپیش ہے۔ آپ کو پتہ ہے میرے حقیقی والدین ایک ٹینری کے مالک ہیں اور میں یہاں صرف فٹ پاتھ پر بنی آٹو ورکشاپ کا مکینک ہوں۔ اگرچہ میری آمدنی تو معقول ہے۔ مگر میرے والدین چاہتے ہیں کہ میں کراچی جا کر ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹاؤں کیونکہ مکینک کا کام ان کے اس وقت کے معیار زندگی سے لگؔا نہیں کھاتا۔ مشورہ دیں کیا کروں۔

کچھ دیر اس کے اپنے کاروبار۔ اور اصل والدین کے متعلق تفصیلات اور جزئیات پر گفتگو کرنے کے بعد میری رائے تھی

” دیکھو تمہارے لئے بھی اور والدین بھائی بہنوں عزیزوں۔ سب کے لئے سب سے خوشی کی بات ملاپ کی خوش قسمتی ہے۔ تمہیں حقیقی خاندان مل گیا اور ان کو بیٹا اور بھائی مل گیا۔ یہاں تم معقول رقم بناتے ہو اور اپنی لائن میں تمہارا نام اور عزت ہے۔ صرف ظاہری شان اور سٹیٹس نہیں ہے۔ تم وہاں چلے جاتے ہو۔ ماں باپ بھائی بہن ہر کوئی تمہاری دل جوئی بھی کرے گا۔ اور خوش بھی ہوگا۔ مگر کل کلاں۔ کسی وقت۔ کسی اونچ نیچ کے باعث۔ کسی کے دل میں خیال آ گیا کہ نہ جانے یہ اصلی اقبال ہے بھی یا کہ حصہ دار بننے آ گیا۔

تو تم اپنے آپ کو معاف نہ کر سکو گے۔ میں تمہیں اور تمہاری طبیعت کو جانتا ہوں۔ میری رائے میں والدین سے کہو کہ اگر ان کو حیثیت اور سٹیٹس کا اتنا ہی خیال ہے تو تم کو یہاں فیصل آباد میں ہی اچھے موقعہ پر معقول جگہ لے دیں جہاں تم کو جدید آٹو ورکشاپ بنانے میں مدد دیں۔ تمہارے سٹیٹس کے متعلق ان کو کوئی طعنہ نہ ملے گا اور تم اپنے آپ کو کسی پر بوجھ محسوس نہ کرو گے ”

اگلے سال گرمیوں میں ہم جڑانوالہ روڈ کی انتہائی با موقعہ جگہ پر ایک کنال رقبہ پر ”جہانگیر اقبال گیراج“ کی افتتاحی تقریب میں شریک تھے۔ اور صرف تین روز بعد لطیف صاحب محض اتفاق سے فیصل آباد سے کراچی کے ہوائی سفر میں میں میرے ہم سفر اور ساتھ کی نشست پر بیٹھے ہوئے اقبال کی تلاش کی تیس سالہ تفصیلات بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ”ہمارے کئی رشتہ داروں کے 1947 کے فسادات میں بچھڑے بچے ملے ہیں۔ مگر ان سب کے ہاتھ ( ہتھیلی پھیلا کر اشارہ کرتے ہوئے ) لینے والے ہاتھ ہیں جب کہ اقبال کا ہاتھ خدا کے فضل سے دینے والا ہاتھ ہے اوپر والا ہاتھ“

(۔ 5۔ )

اکتوبر 2003 میں میں اپنے گیس سٹیشن ( پٹرول پمپ ) کینیڈا اونٹاریو کے قصبہ کیلیڈن پر موجود تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ پاکستان سے جہانگیر اقبال فون پر کہہ رہا تھا۔ لئیق صاحب میرا دوسرا بیٹا نوید جہانگیر کینیڈا آ رہا ہے۔ رمضان کے فوراً بعد اس کی شادی میرے بھائی کی بیٹی سے ہو رہی ہے۔ چھتیس سال قبل آپ نے میرا بازو پکڑا تھا۔ اب بھی توقع ہے میرے بیٹے کو بھی اسی طرح انگلی پکڑ کر رستہ بھی دکھائیں گے اور نگرانی بھی کریں گے۔ ”

تین روز بعد جہاز سے اترنے کے چند ہی گھنٹہ بعد نوید جہانگیر اپنی ہونے والی بیوی اور اس کے بھائی ( اپنے کزن ) کے ساتھ مجھے ملنے گیس سٹیشن پر موجود تھا۔ کہ باپ کی ہدایت یہی تھی۔ اور میں اپنے سامنے ہو بہو چھتیس سال پہلے ملنے والے جہانگیر کو دیکھ رہا تھا۔ گورا چٹا لمبا چست اور پھرتیلا۔ اور چند روز بعد ایک مختصر گھریلو شادی کی تقریب میں میں میری بیوی۔ میاں انوارالحق مرحوم کا یہاں موجود بیٹا اور شیخ محمود صاحب معہ بیگم جہانگیر فیملی کی نمائندگی کر رہے تھے۔

سترہ سال مزید گزر چکے۔ نوید جہانگیر دو سال یہاں گزارنے کے بعد باپ کی مصروفیات میں ہاتھ بٹانے واپس معہ بیگم فیصل آباد جا چکا۔ گاہے گاہے آتے جاتے۔ فون اور سوشل میڈیا پہ رابطہ رہا۔ جہانگیر اقبال گیراج آج ایک معروف ادارہ اور جہانگیر ایک معروف مصروف اور نیک نام شخصیت ہے۔ جہانگیر اقبال طبیعت کے ناساز رہنے کی وجہ سے گیراج کم جاتے ہیں۔ تین چار روز قبل فون نمبر دوبارہ ڈھونڈ کر نوید جہانگیر کو فون کیا تو دو گھنٹہ بعد اس نے ویڈیو کال ملائی۔

اب نوید جہانگیر اور اس کی بیوی مجھے میری بیوی اور بیٹے کو اپنی بچیوں اور بیٹے ملواتے۔ ابو کے لئے دعا کی درخواست کر رہا تھا۔ اور میرے تصور میں فیصل آباد ائر پورٹ پر کار کا دروازہ کھولے ایک اجنبی خاتون کو سلام کرتا وہ نوجوان آ رہا تھا۔ جسے اس خاتون کی نگاہوں نے دیکھتے ہی اور سر پر ہاتھ پر پھیرتے ہی دل نے۔ خون نے پکار پکار کے بتا دیا تھا کہ یہ وہی اقبال ہے۔ جو تیس سال قبل کھیتوں میں گنوا آئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).