وومن ایمپاورمنٹ، شعوری ارتقاء اور اسلامی نظریات


برصغیر کا کلچر ہمارے معاشرے بطور مذہب ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ جاہلانہ اعتقادات و نظریات ہمیشہ عورت کی تحقیر و تضحیک اور حق تلفی کا باعث رہے ہیں۔ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے اور برصغیر میں بیٹی کی پیدائش پر سوگ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے بلکہ آج تک یہ رواج تھا کہ لوگ باقاعدہ افسوس کرتے تھے۔ مردانہ پدرشاہی ہمارے معاشرے میں رچی بسی ہے اور مرد عورت کو مضبوط اور با اختیار ہوتے اس لیے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس سے اس کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

اس سوچ کے تانے بانے اس دور جاہلیت کے نظریے سے ملتے ہیں جس کے مطابق مرد حقیقی مالک ہے اور عورت اس کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے۔ آج واضح طور پر عورت کو اپنی ملکیت تو نہیں کہا جاتا مگر سوچ ویسی ہی ہے عورت کی تعلیم اس کی شادی اس کا کیریئر اور زندگی کے تمام فیصلے مرد کرتا ہے۔ آپ کو یہ بتانے کی تو بالکل صورت نہیں کیا گیا اور اپنی پسند کی شادی کا نام لے تو غیرت کے نام پر پر قتل کر دی جاتی ہے۔ میرے اس کالم کا موضوع یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ پدر شاہی کلچر سر یہ برصغیر کا کلچر تو ہے لیکن اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔

تو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری پبلک ان غلط عقائد و نظریات کو اسلامی تہذیب کا روشن پہلو خیال کرتی ہے۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات اور نظریات اس سے یکسر مختلف ہیں وہ اسلام جس نے مرد عورت پر تعلیم کو فرض کیا اسلام کے نظام میں عورت کو اسکول جانے سے محروم کرنا کیسے ممکن ہے۔ آج دن تک ہماری عورتوں کی شرح خواندگی خطرناک حد تک کم ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو بیٹی کو سکول بھیجنا ہی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ جب کہ اسلام کا نظام یہ ہے کہ وہ عورت کو مکمل طور پر اختیار کرتا ہے اور اس کے عملی زندگی میں حصہ لینے پر زور دیتا ہے۔

فیمنزم کی تحاریک عورتوں کی کی فلاح و بہبود کی تحاریک ہیں جو پدر شاہی نظام سے بغاوت کرتی ہیں مگر ان میں انتہا پسندی کا عنصر غالب ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام سے بڑا فیمنسٹ مذہب کوئی ہے ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر وہ شعور اور آگاہی پھیلائی ہی نہیں جاتی۔ ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ مدینہ کی ریاست میں عورتیں بطور استاد بطور سرجن ڈاکٹر عملی زندگی میں بھرپور حصہ لیتی تھیں۔ جنگوں میں بطور تارا میڈیکل سٹاف صحابہ کے ساتھ موجود ہوتی تھی اور زخمی صحابہ کو طبی امداد فراہم کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔

ایک صحابیہ کا مسجد نبوی کے اندر کلینک تھا جن سے لوگ علاج کرواتے تھے۔ میں چند درجن صحابیات کے نام ذکر کر دیتا ہوں۔ ایک روفیدہ الاسلمیہ رض، لیلی الغفاریہ رض، معازہ الغفاریہ رض، اور ام ایمن رض، ام زیادہ رض۔ اس کے علاوہ کافی ساری تفصیل موجود ہے کالم کی طوالت کے باعث یہاں نہیں لکھ سکتا۔ اس کے علاوہ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک لڑکی نے آپ ﷺ سے سوال پوچھا کہ میرا نکاح میری مرضی کے بغیر ہوا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ راضی نہیں تجھے نکاح فسخ کر دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث موجود ہیں جن میں ایک عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا۔ ان باتوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہیں کہ ہمارے معاشرے کے اندر کس قدر لاعلمی پائی جاتی ہے اور جس کو ختم کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک مربوط نظام بنانا بہت ضروری ہے۔ مسجد و ممبر اور سکول و کالج کے پلیٹ فارم پر یہ آگاہی دینی بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد سب سے اہم مرحلہ تربیت کا ہے لڑکوں کی بھی اور لڑکیوں کی بھی اچھی تربیت کی جائے۔

ہمارے معاشرے میں مائی لڑکوں کو بے جا لاڈ پیار تو ضرور دیتی ہیں مگر اپنے بیٹے کو جی نہیں سکھاتی کہ تم نے کسی عورت کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے اس کو عزت دینی ہے ہے اس کے ساتھ بطور شوہر اور بھائی اور بطور باب تم نے کیسے معاملہ کرنا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ عورتوں کے حقوق کا تحفظ صرف عورت ہی کر سکتی ہیں کیونکہ ماں ایک عورت ہی ہوتی ہے اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی بہترین تربیت کرے۔ اس کے بعد خصوصی طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جائے حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لڑکیوں کے لئے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مہارت کے کے مخصوص ادارے بنائے۔

ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنی عورتوں کو با اختیار نہ بنائیں۔ ہمارے پاکستان میں خاص طور پر عورتوں کی تعداد 52 فیصد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اپنی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں تو ہم اپنی معیشت 52 فیصد مزید بڑھا سکتے ہیں۔ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتے ہیں جس سے اقوام عالم کا بخوبی مقابلہ کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).