امریکی انتخابات اور پاکستان


اعصاب شکن امریکی انتخابات اختتام کو پہنچے اور جو بائیڈن امریکہ کے نئے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہار تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ عدالتی جنگ لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ ہار چکے ہیں۔ جو بائیڈن کو پاکستان میں دوست شخصیت کے طور پر گردانا جاتا ہے اور 2008 میں انہیں پاکستان کے دوسرے بڑے سویلین اعزاز ’ہلال پاکستان‘ سے بھی نوازا نوازا جا چکا ہے۔ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر نئے صدر کے خیالات کو جانچتے ہوئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ دور میڈیا کی آزادی اور جمہوریت کے لئے قدرے بہتر ہو گا۔

امریکہ اس وقت واحد سپر پاور ہے اس لیے امریکی انتخابات بھی دنیا بھر میں توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ہونے والی تقاریر اور امیدواروں کے منشور کی بنیاد پر دنیا بھر کے تجزیہ نگار آنے والے دور کے بارے میں نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکی انتخابات کس طرح ہوتے ہیں پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان میں نئی حکومت بنتے ہی اس کے جانے کی تاریخیں بھی ملنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن امریکہ میں انتخابات اور نئے صدر کے حلف لینے کی تاریخ مستقل بنیادوں پر طے ہے۔ الیکشن ہر لیپ ائر میں ماہ نومبر کی پہلی منگل کو ہوتے ہیں اور نو منتخب صدر 20 جنوری کو حلف لیتا ہے۔ امریکہ میں دو پارٹی سسٹم رائج ہے لیکن یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ پہلے اپنی اپنی جماعت کے لئے صدارتی امیدوار کا انتخاب بھی امریکی عوام خود کرتے ہیں اور پھر اسے الیکشن میں جتانے کے لئے اربوں ڈالرز کے فنڈز بھی مہیا کرتے ہیں۔

امریکی پارلیمنٹ 538 ارکان پر مشتمل ہے۔ ہر ریاست میں جیت ہار کا فیصلہ الیکٹورل ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ الیکٹورل ووٹ دونوں جماعتوں کے ان ارکان کی لسٹ ہوتی ہے جنہوں نے صدارتی امیدوار کی جیت کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونا ہوتا ہے۔ جس ریاست میں جو امیدوار جیتتا ہے اس کی ساری لسٹ بھی جیت جاتی ہے۔ عوام بنیادی طور پر صدر کو ووٹ کرتے ہوئے ان اراکین پارلیمنٹ کو منتخب کرتے ہیں اور پھر یہی اراکین ووٹ کے ذریعے نئے صدر کا حتمی انتخاب کرتے ہیں۔

ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ جون ٹرمپ کا عمومی تاثر ایک ایسے صدر کے طور پر رہا ہے جس میں سنجیدگی و متانت کا فقدان ہو۔ امریکیوں کے لئے بھی گزشتہ چار سال کسی سرکس نما تماشے سے کم نہیں رہے۔ ری پبلکن پارٹی بنیادی طور پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے مگر ٹرمپ کے دور میں میڈیا کے ساتھ ساتھ خفیہ ایجنسیاں بھی ان کے نشانے پر رہتی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کرنے والے میڈیا کو فیک میڈیا کہتے رہے اور ایف بی آئی سمیت خفیہ ایجنسیوں پر بھی ان کی تنقید کے نشتر چلتے رہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ حاضر سروس عسکری افسران کے بارے میں بھی غیر شائستہ انداز میں ریمارکس دیتے رہے مگر یہی مضبوط جمہوریت کی پہچان اور آئین کی پاسداری ہے کہ کسی بھی ماتحت ادارے نے ’ریجیکٹڈ‘ کی ٹویٹ نہیں کی۔ ٹرمپ نے خارجہ تعلقات کی بنیاد نفع و نقصان کی بنیاد پر رکھی۔ واحد سپر پاور ہونے کے باوجود ٹرمپ نے بھارت سے مالی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کشمیری عوام پر بھارتی جبری پابندیوں کو ختم کروانے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جو بائیڈن نے کچھ عرصہ پہلے ہی کشمیر میں بھارتی مظالم پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ اب صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد اس معاملے میں کیا پیشرفت کرتے ہیں۔

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی کامیابی کو پاکستان میں امید افزاء قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ امریکی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو صدر بھلے ریپبلکن پارٹی کا ہو یا ڈیموکریٹ پارٹی سے پاکستان سے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہے ہیں۔ ضیاء الحق اور مشرف کے مارشل لاء ڈیموکریٹ صدور کے ادوار میں لگے اور ریپبلکن صدور نے ان کی مکمل حمایت کی۔ خوش گمانی اچھی چیز ہے مگر حقیقت پسند ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ تصور کرنا کہ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے سے پاکستانی عوام کو درپیش تمام مسائل حل ہو جائیں گے خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

پاکستان میں جمہوریت زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اظہار رائے بدترین پابندیوں کا شکار ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی صحافی یا سول سوسائٹی کا نمائندہ جبری لاپتہ افراد میں شامل ہو جاتا ہے۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر غدار اور محب وطن کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے ہیں۔ نفرت اور تعصب کی وجہ سے من پسند جماعت کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جبکہ مخالف جماعت کا تنکا بھی پہاڑ نما نظر آتا ہے۔ اگر عوام کی اکثریت جمہوریت پسند کرتے ہیں تو آمریت کے حق میں بینرز لگانے والے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ احتساب کا ادارہ صرف خفیہ قوتوں کے اشارہ ابرو پر حرکت میں آتا ہے۔

پاکستان میں آزاد جمہوریت کے لئے یہ جدوجہد ہمیں خود ہی کرنی پڑے گی۔ اپنے اداروں کو آئینی پاسداری کا سبق ہمیں خود ہی پڑھانا پڑے گا۔ آئین کی کتاب کو ردی کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر بوٹوں تلے روندنے والوں کو ہمیں ہی سمجھانا پڑے گا کہ یہی وہ مقدس کتاب ہے جس سے ایک آزاد جمہوری ملک کا تشخص برقرار رہتا ہے۔ آئین کا حلیہ بگاڑنے والوں کو امریکی صدر نے آئینی پاسداری نہیں سکھانی بلکہ ہمیں عملی جدوجہد سے ہی انھیں بتانا پڑے گا کہ ملک کا نظم و نسق اسی متفقہ آئین کے تحت ہی چلتا ہے۔

پاکستان کی بقاء آئین کے تحت مقرر کردہ ضابطوں پر عمل درآمد میں ہی ہے۔ اپنے حقوق کی یہ جدوجہد پاکستانی عوام کو خود ہی کرنی ہے۔ اگر ہم دوسروں سے امیدیں لگائیں گے تو کبھی بھی ظاہری اور پوشیدہ آمروں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائیں گے۔ مولانا ظفر علی خان نے ہمارے لئے ہی کہا تھا کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).