اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جانا


معاشرے میں ایسے لوگوں کی شدید ضرورت ہے جو اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکل کر لوگوں کے لیے کام کریں اور کسی نہ کسی پہلو سے ان کی رہنمائی کا موجب بنیں۔ اب یہ کام انفرادی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی منظم صورت میں بھی۔ یعنی اس سوچ کے حامل افراد مل کر ایک ایسا ادارہ بھی بناسکتے ہیں جس کا مقصد اس شعبہ میں نئے آنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو جس کے ذریعے وہ ترقی کے زینے چڑھتے جائیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ ہے ”آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن“ جو لکھاریوں ’کالم نگاروں‘ شعراء اور شعبہ صحافت سے منسلک افراد کی رہنمائی اور ان کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔

جس کے چند اہم اور بنیادی مقاصد یہ ہیں : کالم نگاروں ’افسانہ نگاروں اورتحریر کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے افرادکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا‘ نئے لکھنے والوں کی فکری اور نظریاتی تربیت کرنا ’پاکستانی قوانین اور آئین کے حوالے سے لکھاریوں کو مکمل رہنمائی فراہم کرنا تاکہ وہ اپنی تحریروں کو مدلل اندز میں مرتب کر سکیں‘ نئے لکھنے والوں کی تحریروں کوقابل اشاعت بناکر اخبارات ’میگزین اور ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع کروانا‘ وغیرہ۔

انہی مقاصد کی تکمیل کے لیے گزشتہ دنوں 9نومبرکو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام لکھاریوں اور شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے تنظیم کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری کی زیرنگرانی ”ایک روزہ تربیتی نشست“ کا اہتمام کیا گیا جس میں تنظیم کے عہدے داران ’لکھاریوں‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاسے وابستہ افراد ’طالب علموں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کثیر افراد نے ملک کے دور دراز علاقوں سے شرکت کی۔ تربیتی نشست کا باقاعدہ آغاز راقم الحروف حافظ محمد زاہد نے سورۃ الغاشیہ کی آخری آیات کی تلاوت سے کیا اور پھر حذیفہ اشرف نے نعت مقبولﷺ کی سعادت حاصل کی۔ اور میزبانی کے فرائض حفصہ خالد اور ثنا آغا خان نے انجام دیے۔

اس تربیتی نشست میں ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمٰن قمر ’موٹیویشنل سپیکر اختر عباس‘ سٹی 42کے ڈائریکٹر نوید چوہدری ’اردو پوائنٹ ملٹی میڈیا کے انچارج شاہد نذیر‘ اینکر پرسن اسد اللہ خان ’اخوت کے ایگزیگٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب‘ بین الاقوامی سکالر و ماہر نفسیات ڈاکٹر جاوید اقبال ’معروف مزاح نگارگل نوخیز اختر‘ معروف شاعر اعتبار ساجد اور آغر ندیم سحر ’روزنامہ مشرق کے میگزین ایڈیٹر ندیم نظر‘ لیگل ایڈوائزر سعدیہ ہما شیخ اور تنظیم کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری نے لکھاریوں کو اپنی تحریر کو جاندار بنانے کے حوالے سے مختلف مشوروں سے نوازا۔

مہمانان گرامی کا کہنا تھا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی ٹریننگ کے لیے کوئی نہ کوئی ادارہ موجودہے جس میں ان افراد کو اس شعبہ سے متعلق بنیادی تربیت دی جاتی ہے ’جبکہ المیہ یہ ہے کہ لکھاریوں کے لیے ایسا کوئی ادارہ سرے سے ہے ہی نہیں جس میں ابتدائی تربیت دی جائے۔ اس ضمن میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کاگزشتہ چار سال سے ایسی تربیتی نشستوں کا اہتمام کرنا گویا ”اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جانا“ کے مترادف ہے اور یہ شمع چلتی رہنی چاہیے اس لیے کہ یہ شمع جلے گی توہمارا معاشرہ روشن سے روشن ترہوگا۔

تربیتی نشست میں سینئر لکھاریوں نے نئے لکھنے والوں کو بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ ان کا کہنا تھا کہ: (1) لکھاری کے الفاظ اور اس کا نظریہ اگر جاندار ہوگاتو کوئی بھی اخبار ’میگزین یا ڈائجسٹ اس کی تحریر کورد نہیں کر سکتا۔ (2) اپنی تحاریر کوجاندار بنانے کے لیے پڑھنے اور مطالعہ کا تناسب لکھنے سے تیس سے چالیس فیصد زیادہ ہونا چاہیے۔ (3) اپنی تحریروں کے لیے بہتر اور مناسب الفاظ تلاش کریں اور اس کے لیے ادب اور شعروشاعری کا ضرور مطالعہ کریں اس لیے کہ ادیب اورشاعر حضرات الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔

(4) ہمیشہ سچ لکھنا چاہیے اس لیے کہ سچ اپنے اندر بہت طاقت رکھتا ہے۔ (5) آپ کو مایوس ہوئے بغیر مسلسل لکھتے رہنا چاہیے اوریہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمای بعض تحریریں کہیں شائع نہیں ہورہیں یا ہماری تحریروں کو پذیرائی نہیں مل رہی۔ (6) اگر آپ مزاح لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحریروں میں خود سے مزاح ڈالنے کی کوشش نہ کریں بلکہ روز مرہ واقعات کو ہی اس انداز میں بیان کریں کہ لوگوں کو پڑھ کر ہنسی آئے۔ (7) نئے اور اچھوتے موضوعات کا انتخاب کریں اور عام موضوعات سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کریں اس لیے ایک جگہ اگر دوسو کپڑے کی دکانیں موجود ہوں اور آپ بھی وہاں ایک اور کپڑے کی دکان کھولیں گے تو کون آپ کوجانے گا۔

مذکورہ تربیتی نشست میں فروغ ادب کے حوالے سے بہت سے نئے اورقابل تقلید اقدام بھی کیے گئے۔ تنظیم کے سرپرست زبیر احمد انصاری کی جانب سے تنظیم کے عہدے داروں میں بذریعہ قرعہ اندازی عمرہ کا ایک ٹکٹ اورشرکاء میں غلاف کعبہ پر لگائے جانے والے عطر کے چارپیکٹ تقسیم کیے گئے۔ عمرہ کا ٹکٹ سوشل میڈیا کی انچارج ”ساجدہ چوہدری“ کے حصے میں آیا اور جب ایم ایم علی نے ان کے نام کا اعلان کیا اور انہیں ڈائس پر بلایاگیا تو سٹیج پر موجود تمام مہمانان گرامی اور شرکاء نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر کافی دیر تک مسلسل تالیاں بجا کر ان کو مبارکباد دی۔

ساجدہ چوہدری نے نم آنکھوں سے بتایا کہ وہ سرگودھا کے دور دراز علاقے سے آئی ہیں اور آج لاہور شہر میں اتنے بڑے پروگرام میں ان کے لیے عمرہ کا ٹکٹ نکلنا اور پھر ڈائس پر آ کر سینئر لوگوں سے سامنے گفتگو کرنا ’یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے اور میں یہ اعزاز اپنے ”والدین کے نام“ کرتی ہوں جن کی کاوشوں سے آج میں آپ کے سامنے ہوں۔ اس کے علاوہ کرونا وبا کے پیش نظر تمام شرکاء میں سینٹائزر کی ایک ایک بوتل اور KN 95 ماسک تقسیم کیے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ ان کے استعمال سے آپ اس وبا کا بہت حد تک مقابلہ کر سکتے ہیں۔

آخر میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے عہدے داران میں ایوارڈ‘ موجودہ سال کتابیں لکھنے والے ممبران کو ”ایوارڈ برائے کتاب“ اور باقی شرکاء میں اعزازی سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے۔ پروگرام کے آخر میں تنظیم کے صدرایم ایم علی نے اپنے اختتامی کلمات میں مہمانان گرامی اور شرکائی ورکشاپ کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان شاء اللہ یہ تنظیم فروغ ادب کے حوالے سے ایسے پروگرامات کا انعقاد کراتی رہے گی۔ پھر ہائی ٹی کا ایک پر تکلف دور بھی چلا اور اس طرح صبح ساڑھے دس بجے سے جاری یہ نشست شام چھ بجے اختتام پذیر ہوئی۔

مبالغہ آرائی سے قطع نظر یہ ایک بہت خوبصورت پروگرام تھا جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ’کم ہے۔ ایسے پروگرام ہوتے رہنے چاہیں اس لیے کہ ایسی شمعیں جلیں گی تو ہمارا معاشرہ روشن سے روشن تر ہوگا۔ ایسے پروگرام مکالمہ بازی اور لوگوں کی بات تحمل سے سننے اور اپنی بات کو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے جیسے جذبات کو فروغ دیتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے کی اس کی اشد ضرورت ہے۔ آخر میں‘ میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مرکزی اور خواتین ونگ کے تمام عہدے داران کو اس کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ فروغ ادب اور اصلاح معاشرہ کے حوالے سے آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور تنظیم کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری صاحب کے جان و مال میں برکت عطا فرمائے جن کی سرپرستی اور رہنمائی میں تنظیم دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).