وطن کی شلوار خون آلود ہے


کارل سیگن نے درست فرمایا تھا کہ ایک سو بیس ارب کہکشائیں مل کر بھی ایک انسان نہیں بنا سکتی۔ انسان اس قدر قیمتی ہے۔

دنیا میں کوئی ریاست ایک چار سالہ بچی سے قیمتی نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ ریاست ایٹمی قوت ہو یا چاہے اس ریاست کی بنیادیں کسی اعلی آدرش پر بنائی گئی ہوں۔ ریاست کے تمام ادارے ایک بکری کی چھینک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے کہ جن کے انتظامی بندوبست کے نیچے چار سال کی بچی کو تین افراد۔ دو دن۔

بچی کی چیخیں۔ دو دن۔ دو راتیں۔ ہزاروں صدیاں۔ تین افراد۔

کسی نے ریاست کا پرچم سرنگوں دیکھا؟ کسی نے دارالحکومت کی سفید سنگ مرمر کی عمارتوں کو نقاہت کے باعث پیلا ہوتے دیکھا؟ کسی نے وزیر اعظم کے کانپتے ہاتھ دیکھے کہ میرے ملک میں کیا ہو گیا ہے؟ کسی نے انصاف کی بڑی عمارت کے باہر لٹکے ترازو کے توازن میں کوئی گڑ بڑ دیکھی؟ میڈیا چینلز کے لوگوز کو کسی نے سرمئی یا بلیک اینڈ وائیٹ دیکھا؟

ان میں سے آپ نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اس کمرے میں موجود نہیں تھا جہاں۔ چار برس کی بچی کی چیخیں۔ دو دن۔ دو راتیں۔ ہزاروں صدیاں۔ تین افراد

جائے وقوعہ پر متذکرہ بالا نہیں بھی تھے تو کیا یہ ہم دلی کے اسفل ترین مقام پر بھی نہیں ہیں کہ کہیں کوئی اشک ندامت دکھائی دے دے۔ کہیں ریاست کے کسی ستون کی دبی دبی سسکی سنائی دے دے۔

کیا وہ ویڈیو آپ کی نظر سے گزری جس میں ماں اور ریاست کے درمیان پاکستان بیٹھا ہے۔ ماں پاکستان کو کہتی ہے۔ شلوار اتارو تاکہ ریاست کو معلوم ہو کہ تمہارے ساتھ۔ دو دن۔ تین افراد۔ کیا کرتے رہے۔ ریاست نے ضروری کارروائی کرنی ہے۔ ریاست کو شواہد چاہئیں۔ پاکستان شلوار اتارتا ہے۔ ماں کی چیخ برآمد ہوتی ہے۔

آج سے چند ہفتے قبل۔ چھ ماہ کی بچی کے ساتھ ظلم عظیم ہوا۔ خبر آئی۔ خبر گئی۔ کسی دماغ کو اتنی فرصت نہ ملی کہ چھ ماہ کی بچی کو تخیل میں ہی لے آئے۔ چھ ماہ کی بچی کے دماغ میں گھس کر سوچے۔ چھ ماہ کی بچی بن کر سوچے کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

یہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جتنے واقعات ہوتے ہیں ان واقعات کو آپ اپنے اوپر طاری کرتے ہیں۔ ؟ آپ چھ ماہ یا چار سال کی بچی بن کر اپنے ساتھ زبردستی کرواتے ہیں؟ کیا آپ کے ساتھ ابھی تک ایسا ہوا ہے کہ آپ نے آنکھیں بند کی ہوں اور آپ چار سال کی بچی ہوں اور آپ کے ساتھ جنسی جبر ہوا ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا آپ واقعی انسان ہیں؟

پاکستان ایسے بچوں اور بچیوں کی کٹی پھٹی لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔ کسی خبر کو میڈیا اٹھا لیتا ہے بہت ساری خبریں اخبار کے کسی اندر والے صفحے پر یک کالمی جگہ پاتیں ہیں اور سیکڑوں واقعات خبر بننے کے ”اعزاز“ سے محروم رہتے ہیں۔

چار سال کی بچی۔ دو دن۔ دو راتیں۔ ان گنت صدیاں اور دو نہیں لاکھوں کروڑوں افراد۔ اس بچی کے ساتھ جو ہوا وہ دو افراد نے نہیں کیا۔ اس میں لاکھوں کروڑوں افراد شامل تھے۔ ہر وہ فرد شامل تھا جو کہتا ہے۔

ہم سے زیادہ ایسے واقعات دوسرے ملک میں ہوتے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعت جب حکومت میں تھی تب ایسے واقعات کم ہوتے تھے
ایسے واقعات دوسرے صوبوں میں زیادہ ہیں ہمارے صوبے میں صورتحال بہتر ہے
عورتوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
ایسے واقعات میں بڑھتا افراط عورتوں کے لباس کی وجہ سے ہے۔

بدبختو ایک چھ ماہ کی بچی کون سا لباس پہنے۔ معصوم جانور کیسے جسم ڈھانپ کر باہر نکلیں۔ نفسیات کے تمام مطالعے ہمیں بتاتے ہیں کہ ریپسٹ یا جنسی تشدد کرنے والا ’کمزور‘ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ چاہے وہ عورت ہو۔ بچہ ہو۔ جانور ہو۔

نفسیات ہمیں اس کا سدباب یہی بتاتی ہے کہ کمزور طبقے کو طاقتور کا جائے۔ ہر وہ کہ جس کے ریپ کا خدشہ ہو اس کو طاقتور کیا جائے۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طور طاقتور کیا جائے۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہی کیوں ایسے واقعات کی زیادتی ہو رہی ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ریپسٹ یا جنسی درندوں کو موافق ماحول مہیا کرتا ہے؟

اس سوال کا جواب اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ ریپسٹ سے نفرت کرتا ہے؟ اپنے معاشرے کا کسی بھی پیمانے سے نفسیاتی تجزیہ کروا لیجیے نتائج حیران کن ہوں گے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کوئی ریپ کرتا ہے اور پکڑا نہیں جاتا تو اس کے آس پاس کے متعلقین اور دوست کہتے ہیں ”بڑا حرامی ہے یار۔ بڑا بدمعاش ہے بھین۔۔۔“ اس حرامی لفظ کے پیچھے طاقت کا کیسا کیسا تفاخر چھپا ہے اور کمزوری کا کیسا کیسا تمسخر پوشیدہ ہے۔

اور جس بچے کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو اسے اس کے ارد گرد کا معاشرہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ”ٹیوب جا رہی ہے۔ گان۔۔ ڈو جا رہا ہے۔“ اگر ایسا بچہ یا بچی معاشرے میں کبھی اپنی عزت نفس کی خاطر کمر سیدھی کرنی کی کوشش کرے تو اسے اس کے ماضی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے کا سر شرم سے جھک جائے۔ زندگی اور معاشی میدانوں میں معاشرہ ان افراد کو ترجیح اول دے۔ اور سب سے اہم کام کہ معاشرے کا کوئی بھی فرد ایسے بچے یا بچی سے زندگی بھر آنکھ سے آنکھ ملا کر بات نہ کرے۔ شرمساری سے آنکھیں نیچی رکھے کہ ہم سب تمہارے مجرم ہیں لیکن۔ یہاں تو ایسا بچہ ’ٹوپ‘ ہے اور ایسی بچی اب شادی کے قابل نہیں ہے کہ ہم نے طاقت سے اس کی راہداری کھولنی تھی وہ ہم سے پہلے کسی اور طاقتور نے کھول دی اور ہم کسی کا کیا شکار نہیں کھاتے۔ ہمیں باکرہ چاہیے۔

ارے صاحب۔ طلاق یافتہ مرد اور طلاق یافتہ عورت کے مابین آپ کو ہمارے ہاں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ان رویوں کے پیچھے کیسے کیسے نفسیاتی تلاطم چھپے ہیں۔ کیا آپ کو بچوں کی پرورش میں برتا گیا مجرمانہ صنفی تعصب نظر نہیں آتا۔ ریاست مریخ سے نہیں اتری۔ انہیں رویوں کے تانوں بانوں کی نمائندہ ہے۔ شک ہو تو اپنے رہنماؤں کے ارشادات اور ریاست کے تمام ستونوں کی ترجیحات ملاحظہ کر لیجیے۔

ہمیں ترقی کرنے اور فلاحی معاشرہ تعمیر کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی جس دن ہم نے اپنے عکس میں نمایاں نظر آتے دھبوں اور لباس میں اٹھتے بدبودار بھبھکوں سے نفرت کرنا سیکھ لی۔ جس دن ہم نے یہ سیکھ لیا۔ اس دن ہم غسل بھی کر لیں گے اور لباس بھی دھو لیں گے۔ جب تک یہ صلاحیت قوم کو حاصل نہیں ہوتی قوم کو گانے دیں۔ ہم زندہ قوم ہیں اور ہمارا ملک دنیا کا رہبر و رہنما ہے۔ اور دنیا بھر کے ممالک بنیادی انسانی اخلاقیات سیکھنے کے لیے سبز پرچم کو دیکھتے ہیں۔ قوم گاتی رہے اونچے سروں میں۔ یہ سب گاتی رہے۔ لیکن آپ کو لگتا نہیں ہے ان اونچے سروں میں اب خون آلود شلوار والے پاکستان کی چیخیں نمایاں ہو رہی ہیں؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik