نکمے اور شریر بچوں کو کیسے سدھارا جائے؟


میرے ایک دوست ہیں۔ سلیم نام فرض کر لیں۔ ایک قابل ڈاکٹر ہیں۔ جب انگلینڈ میں سپیشلائزیشن کرلی تو بڑے شوق سے اپنے ملک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے آ گئے۔ ان کے دوسرے بھائی بہن بیرون ملک مقیم تھے اس لئے ان کو اپنے والدین کی خدمت کا بھی خیال تھا۔ ظاہر ہے جب تمام بچے ملک سے باہر ہوں تو والدین کو پریشانی ضرور ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے والد جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، بہت خوش ہوئے۔ ڈاکٹر سلیم نے پرائیویٹ پریکٹس شروع کردی۔

تاہم جب سرکاری ہسپتال میں اسامی نکلی تو درخواست دے دی اور ان کو جاب بھی مل گئی کہ اس سپیشلٹی میں پہلے ہی بہت کمی تھی۔ ڈاکٹر سلیم کے دو ہی بچے تھے۔ بڑی لڑکی ماریا اور چھوٹا بیٹا سنان۔ جب سکول جانے کی عمر ہوئی تو ان کو اچھے سکول میں داخل کروادیا۔ ان کی بیگم بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اس لئے بچوں کے ساتھ بہت محنت ہوتی تھی۔ تاہم لڑکی تو سکول میں نمایاں مقام لینے لگی لیکن لڑکا مطالعے میں نہ سکول کے معیار پر پورا اترا اور نہ ہی والدین مطمئن ہوئے۔

سنان تھا بھی بہت شرارتی۔ گھر میں کوئی چیز توڑے بغیر نہ چھوڑتا۔ اور تو اور فرنیچر پر بھی دانتوں کے نشان چھوڑتا۔ غرض اس کی نگہداشت ایک فل ٹایم ذمہ داری تھی۔ ڈاکٹر سلیم تو سارا دن مریضوں کے ساتھ مصروف ہوتے لیکن ان کی بیگم رات کو بستر پہنچتی تو ہر عضو دکھ رہا ہوتا کہ سنان کے پیچھے سائے کی طرح لگنا بھی ایک تھکا دینے والا کام تھا۔ سکول کے اساتذہ ہر ماہ والدین کو بلاتے اور سنان کے کارناموں کی ایک فہرست زیر بحث آتی۔

اگلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ڈاکٹر سلیم بچوں کو لے کر انگلینڈ لے گئے۔ وہاں تو ہر خاندان ایک جی پی کے ساتھ رجسٹر ہوتا ہے۔ سلیم بھی بچوں کو لے کر عمومی چیک اپ کے لئے اپنے جی پی کے پاس گئے۔ وہاں مختصر سے وقت میں بھی سنان نے اودھم مچا دیا۔ جی پی کی نرس نے سنان کی ماں سے اس کی معمولات کے بارے میں تفصیل سے پوچھا تو وہ چونکی۔ پھر ڈاکٹر کے پاس جاکر اسلم کی ساری عادات کے بارے میں بتا دیا۔ جی پی بھی متفکر ہوا اور ڈاکٹر سلیم سے کہنے لگا کہ اس بچے میں ساری علامات بچوں کی ایک بیماری کی ہیں جسے اٹینشن ڈیفیسٹ/ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (Attention Deficit/Hyperactivity Disorder) کہتے ہیں۔

اس ذہنی کیفیت میں بچے کی توجہ چند منٹ یا سیکنڈ سے زیادہ کسی چیز پر مرتکز نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت متحرک بھی رہتے ہیں۔ دراصل یہ ذہنی گرہ کی ایک سلسلہ وار زنجیر ہے جس میں آٹزم (Autism) سے لے کر ڈاؤن سنڈروم تک شامل ہیں۔ خیر ان گرمیوں کی چھٹیاں ساری سنان کے مختلف ٹسٹوں اور کئی سپیشلسٹوں کے پاس آنے جانے میں صرف ہو گئیں لیکن بالآخر سنان کی ساری شرارتوں اور توڑ پھوڑ کی عادت کا سبب معلوم ہو گیا۔

اس کے بعد اس کا اگلا مرحلہ اس کے علاج کا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان بچوں کے لئے سپیشل سکول ہوتے ہیں جہاں سارے اساتذہ ان کے ساتھ بڑے طریقے سے پیش آتے ہیں۔ ان اساتذہ میں کئی ماہرین نفسیات بھی ہوتے ہیں اور ان سکولوں کی نگرانی سائیکاٹرسٹ، پیڈیاٹریشن اور نیورو فزیشن کے بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ سہولت یہاں کہاں۔ چنانچہ سلیم نے پھر سے ہجرت کی ٹھانی اور بیوی بچوں کے ساتھ ہی انگلینڈ منتقل ہو گیا۔ اس واقعے کو اب بیس سال ہونے کو آرہے ہیں۔ سنان ماشا اللہ اب وکالت کے کالج کا ایک ہونہار طالب علم ہے اور اس کی گریجویشن جلد ہی متوقع ہے۔

یہ نفسیاتی گرہ سکول کے تین سے پانچ فیصد بچوں میں پھنسی ہوتی ہے۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو سکول میں پھسڈی کہلاتے ہیں۔ ان کے گھر کا کام نامکمل ہوتا ہے۔ امتحانات میں انڈہ لیتے ہیں۔ نہ ان کا سکول کا بیگ مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کام سلیقے سے ہو سکتا ہے۔ استاد اگر ان سے بات کر رہا ہو تو سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ ان سے اکثر چیزیں گم ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ہاں سکولوں میں انہی بچوں کو سب سے زیادہ مار پڑتی ہے۔ یہی بچے ہوتے ہیں جو کسی ایک چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے۔

نہ ہی ان کو کوئی سبق زیادہ دیر تک یاد رہتا ہے۔ ان کی اکثریت ایک جگہ آرام سے نہیں بیٹھ سکتے اور بلا مقصد ایک جگہ سے دوسری جگہ دوڑتے رہتے ہیں۔ ایک جگہ بیٹھے بھی ہوں تو متحرک ہوتے ہیں۔ ہاتھ ادھر ادھر مارتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک چیز توڑی تو کبھی دوسری۔ یہ بچے کھیل میں بھی اکثر دوسرے بچوں سے لڑ پڑتے ہیں۔ اکثر ایک کھیل کھیلتے کھیلتے دوسرے کھیل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ایک کھیل بھی مکمل نہیں کر پاتے۔

ایسے بچوں کی تشخیص آسانی سے نہیں ہوتی کیونکہ ان کے سپیشلسٹ ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عموماً بچوں کے سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ، بچوں کے نیورو فزیشن یا وہ پیڈیاٹریشن جو ایسے بچوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس مرض کی تشخیص کے لئے لازم ہوتے ہیں۔ ہر شریر بچے پر یہ تشخیص نہیں تھوپی جا سکتی۔ ایسے بچے جن کے والدین ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، ان میں بھی ایسی علامات پائی جا سکتی ہیں۔ بچپن میں کوئی گہرا صدمہ بھی بچوں پر برا اثر ڈال سکتا ہے اور وہ رد عمل کے طور پر جھگڑالو ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سکولوں میں بڑے بچوں کی بدمعاشی عام ہے اور ہر کلاس میں چند ایسے بچے ضرور ہوتے ہیں جو بقیہ کلاس پر رعب جمائے رکھتے ہیں۔ یہ بچے یا ان کے متاثرین بھی ایسی علامات کام مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہر وہ بچہ جو سکول کے کام میں پیچھے رہ جائے، بیمار نہیں تصور کیا جاسکتا۔

میں اب اپنے ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو ذہن میں کئی ایسے کلاس فیلوز آتے ہیں جو چند ہی جماعت چل پائے۔ اساتذہ کی مار پیٹ سے جلد ہی سکول چھوڑ گئے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر ان پر توجہ دی جاتی تو شاید وہ بھی معاشرے کا مفید حصہ ہوتے۔ ہم اخباروں میں بارہا ایسے بچوں کی روداد پڑھتے ہیں جن کو سکول یا مدرسہ میں اتنی مار پڑی کہ ان کا بازو یا ٹانگ ٹوٹ گئی۔ مدرسوں میں چونکہ ماں باپ اپنے بچوں کو داخل کروا کر اکثر بھول جاتے ہیں۔

ایسے بچے کئی بار بھاگ جاتے ہیں۔ ہم نے کئی ایسے بچوں کو مدرسوں میں زنجیروں کے ساتھ باندھے دیکھا ہے۔ ان بچوں کے والدین بھی پریشان رہتے ہیں کہ خدا جانے ان میں کس جن کی روح گھس گئی ہے کہ نہ وہ مار سے سدھرتے ہیں اور نہ پیار سے۔ حالانکہ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ صرف ان کو سائنسی انداز میں تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد ان کی یہ نفسیاتی گرہ کھل جاتی ہے۔ تاہم بڑے عرصے تک ان کی نگرانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

میرے ایک دوسرے دوست ہیں ڈاکٹر احمد علی۔ انگلینڈ میں ہوتے ہیں اور نہایت ہی قابل پیڈیاٹریشن ہیں۔ ان کی ساری دلچسپی ایسے بچوں میں ہوتی ہے اور اپنی پوری کاؤنٹی میں مشہور ہیں۔ کبھی ان کے ہاں جانا ہوتا ہے تو اکثر ایسے بچوں کو گھر پر کھانے پر بھی بلاتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین ان سے نہایت عقیدت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد علی جب بھی پشاور آتے ہیں، میں نے کئی ایسے بچوں کے والدین کو تیار کیا ہوتا ہے کہ ان سے مل کر اپنے بچوں کے بارے مزید معلومات حاصل کریں۔

ان کا ایم میل درج کرلیتا ہوں تاکہ وہ والدین جو ایسے بچوں کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں ان سے رابطہ رکھ سکیں (draurakzai@yahoo.com) ۔ ڈاکٹر احمد علی کی بہت خواہش ہے کہ پشاور میں کوئی ایسا ادارہ قائم ہو سکے جو ان بچوں کی نگہداشت سنبھالے اور نہ صرف پشاور کی ضروریات پوری کرسکے بلکہ دوسرے اضلاع کے لئے بھی مناسب سٹاف جس میں ماہرین نفسیات کے علاوہ سکول کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اپنے متعلقہ ساتھی ڈاکٹروں اور سائیکالوجسٹوں سے بھی التماس ہے کہ اس طرف توجہ دے کر بے شمار والدین کی دعائیں لیں اور ان بچوں کو بھی بلاوجہ مارپیٹ سے بچالیا جائے۔

پاکستان میں بھی اب کئی ایک سنٹر کھل گئے ہیں جو زیادہ تر مخیر حضرات کی توجہ سے چل رہے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور، ملتان اور کراچی میں تو مجھے معلوم ہیں۔ تاہم یہ اہم موضوع تعلیم کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے تاکہ اساتذہ ہی ان کی سب سے پہلے تشخیص کرسکیں اگر والدین سے رہ جائیں۔ یاد رہے کہ یہ بچے اگر چہ ہر شے یا کام پر توجہ برقرار نہیں رکھ سکتے لیکن کسی ایک شغل میں ان کی توجہ دوسروں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ آئین سٹائین بھی آٹسٹک ہی تھے اور سکول سے ان کو کئی بار اسی لئے نکالا گیا تھا۔ اب تو ان کی تشخیص وقت پر ہو جائے تو عام سکولوں میں ہی ان کو پڑھایا جاسکتا ہے۔ بس ذرا اساتذہ کی تربیت ہونی چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).