ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم : چلتا پھرتا علی گڑھ


مشکلات و مصائب میں گھری پاکستانی صحافت کا ایک المیہ یہ ہے کہ ایک ایک کر کے چراغ بجھ رہے ہیں اور نئے چراغ روشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ نہایت دکھ ہوتا ہے کہ صحافت کو آن بان عطا کرنے اور پیشہ وارانہ لگن کی عظیم مثالیں قائم کرنے والے بیشتر حضرات کے ساتھ ہمیں مرحوم لکھنا پڑرہا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم اور جناب سید سعود ساحر مرحوم جیسی نابغہ روزگار شخصیات کا اس جہان فانی سے رخصت ہو جانا محاورتا نہیں واقعتاً ایک نا قابل تلافی نقصان ہے۔ میں ان دونوں شخصیات کے ساتھ ملاقات کی سعادت سے محروم رہی ہوں۔ ہاں میں ان دنوں کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا قیمتی اثاثہ سمجھتی ہوں جب مجھے اپنے وقت کے عظیم ایڈیٹر، جناب مجید نظامی مرحوم کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔

جناب ڈاکٹر اعجاز قریشی کی راہنمائی میں کام کرنے کی سعادت نہ ملنے کے باوجود، ان کا نام کسی بھی پڑھے لکھے فرد یا گھرانے کے لئے اجنبی نہیں۔ آج سے کوئی ساٹھ سال پہلے معروف جریدے ”ریڈرز ڈائجسٹ“ کی طرز پر جب پاکستان میں ”اردو ڈائجسٹ“ کے نام سے ایک ماہانہ پرچے کا اجراء ہوا تو شاید کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا کہ یہ پرچہ آگے چل کر صحافتی تاریخ میں نہ صرف ایک بڑے سنگ میل کا درجہ حاصل کرے گا بلکہ ایک روشن روایت بن جائے گا۔

جناب اعجاز حسن قریشی اور محترم الطاف حسن قریشی نے اردو ڈائجسٹ کے ذریعے نہ صرف پاکستان میں مطالعے کا شوق پیدا کیا بلکہ نظریاتی، قومی اور ثقافتی حوالے سے نئی نسل کی فکری تربیت میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ اردو ڈائجسٹ کی عمر ساٹھ سال سے زائد ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں کسی پرچے کا اتنے طویل عرصے تک تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہنا ہی ایک شاندار مثال ہے۔ جہاں الطاف حسن قریشی صاحب کے یاد گار انٹرویوز اور تجزئیاتی تحریریں، اردو ڈائجسٹ کا خاصا رہیں وہاں جناب اعجاز حسن قریشی صاحب کی انتظامی اور فکری راہنمائی نے پرچے کی نظریاتی سمت پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔

ہم پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ محترم اعجاز حسن قریشی مرحوم نے علی گڑھ کا چراغ تھامے، غلامی کے اندھیروں کے خلاف، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں بھی یاد گار کردار ادا کیا۔ ان کی جوانی تحریک آزادی کے لئے وقف رہی اور وہ مرتے دم تک علی گڑھ اور تحریک آزادی کے جذبے کو پروان چڑھاتے رہے۔ انہوں نے علی گڑھ ہی کے جذبے کے تحت ”کاروان علم فاونڈیشن“ کی بنیاد رکھی۔

میرا ارادہ تھا کہ ڈاکٹر قریشی صاحب کے صحافتی اور سماجی کارناموں پر لکھوں۔ راہنمائی کے لئے معروف کالم نگار اور دانشور عرفان صدیقی صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ۔ ڈاکٹر صاحب نہایت قد آور شخصیت تھے۔ مرحوم، برصغیر کے عظیم ادارے، علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ آپ حقیقی معنوں میں چلتا پھرتا علی گڑھ تھے۔ عمر بھر سر سید احمد خان اور قائد اعظم کے افکار و نظریات کی ترویج کرتے رہے۔ اردو ڈائجسٹ کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے کہ اگر آج سر سید احمد خان زندہ ہوتے اور آج کے حالات میں اپنے نظریے، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور نئی نسل کی ذہنی تربیت کے لئے کوئی پرچہ جاری کرنے کے بارے میں سوچتے تو وہ ”اردو ڈائجسٹ“ کے بہت قریب ہوتا۔

صدیقی صاحب کی باتیں سن کر کالم تو خیر کیا لکھتی، کئی دن تک افسردہ رہی کہ لاہور میں رہتے ہوئے بھی میں ڈاکٹر قریشی صاحب کے ساتھ ملاقات کی سعادت سے محروم رہی ہوں۔ برادر محترم ضیا الحق نقشبندی صاحب نے اس تاسف کی شدت بڑھانے میں مزید حصہ ڈالا۔ ضیا صاحب نے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم اور جناب سید سعود ساحر مرحوم کی یاد میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا۔ مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ نشست میں شعبہ صحافت او ر شعبہ سماجی خدمت کی نامور شخصیات موجود تھیں۔

اخوت فاونڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب، سندس فاونڈیشن کے یٰسین خان صاحب، حافظ امیر علی اعوان صاحب، سجاد میر صاحب، روف طاہر صاحب، عمران یعقوب صاحب، محمد عثمان صاحب، خالد ارشاد صوفی صاحب، آصف عفان صاحب اور دیگر۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم کے چار صاحب زادے بھی شریک تھے۔ سب نے ان کے علمی، صحافتی اور سماجی کار ناموں پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ حاضرین کو سن کر آگاہی ہوئی کہ وہ کس قدر شاندار شخصیت کے مالک تھے۔

ان کے بیٹے سعادت اعجاز قریشی صاحب بتانے لگے کہ انہیں ہمیشہ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے ملازمین کی فکر رہا کرتی تھی۔ عید پر سب سے پہلے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرتے۔ بالکل آخر میں ہم بچوں کی تیاری یا شاپنگ وغیرہ کی نوبت آتی۔ ڈاکٹر صاحب کی پاکستان اور قومی زبان سے محبت کا تذکرہ بھی ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے جرمنی سے تاریخ کے مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی تھی۔ انگریزی پر کامل عبور تھا۔ لیکن اردو زبان کی محبت میں گرفتار تھے۔ دستخط بھی اردو میں کرتے۔ بچے اگر انگریزی لکھتے بولتے یا انگریزی میں دستخط کرتے تو خفا ہوتے۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر محسن قریشی نے بتایا کہ اس شادی میں شرکت نہیں فرماتے تھے جس کا دعوت نامہ انگریزی میں لکھا ہوتا۔

روف طاہر صاحب نے وہ تاریخی قصہ دہرایا جب ہندوستان میں وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تقریب کے لئے خصوصی طور پر شیروانی زیب تن کی۔ دوستوں نے نصیحت کی کہ آج کے دن یہ لباس نہ پہنیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آ ج ہی کے دن تو مجھے یہ لباس پہننا ہے۔ تسکین کی بات یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے طیب اعجاز قریشی نہایت محنت اور جانفشانی سے اردو ڈائجسٹ کے ذریعے اپنے والد اور چچا کی فکر اور مشن آگے بڑھانے میں کوشاں ہیں۔

نشست میں ”کاروان علم فاونڈیشن“ کا خصوصی طور پر تذکرہ ہوا۔ ا ن کے چھوٹے بیٹے علی اعجاز قریشی نے بتایا کہ ایک دن وہ ایک غریب لیکن ذہین بچی کے لئے نہایت فکرمند تھے۔ لاہور کا ایک معروف کالج بچی کو داخلہ دینے سے انکاری تھا۔ وجہ یہ کہ وہ کالج کی فیس ادا کرنے سے قاصر تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے بچی کی فیس اپنی جیب سے ادا کی۔ اس واقعے کے بعد ہی انہوں نے ”کاروان علم فاونڈیشن“ کی داغ بیل ڈالی۔ تعزیتی نشست میں تذکرہ ہوتا رہا کہ کس طرح سینکڑوں غریب بچے اور بچیاں ”کاروان علم فاونڈیشن“ کی بدولت ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سی۔ایس۔ پی افسر بنے۔

میری باری آئی تو ایک قصہ میں نے بھی دہرایا۔ میں ایک ایسی بیوہ خاتون کو جانتی ہوں جو گھروں میں برتن ماجھنے اور جھاڑو پوچا لگانے کا کام کرتی تھی۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی مرحوم نے کاروان علم کے توسط سے اس بیوہ کی ذہین بیٹی کا ہاتھ تھاما۔ اس کی فیس، کتابوں، ہوسٹل کے اخراجات کا انتظام کیا۔ بچی آرمی میڈیکل کور کے ٹیسٹ میں کامیاب ہو گئی۔ آج وہ میجر ڈاکٹر ہے اور اس کے شانے پر ایک چاند ستارہ چمک رہا ہے۔ یہ تو فقط ایک قصہ ہے۔ ایسے سینکڑوں، ہزاروں چاند ستارے ڈاکٹر اعجاز قریشی مرحوم کے نامہ اعمال میں روشن ہیں۔ ڈاکٹر قریشی ایسے عظیم لوگ دنیا سے رخصت تو ہو سکتے ہیں، مر نہیں سکتے۔

نشست میں سید سعود ساحر مرحوم کی صحافتی زندگی کے کئی کارنامے بھی سننے میں آئے۔ بلا شبہ وہ جری اور بے باک صحافی تھے۔ جابر حکمرانوں کے منہ پر ان کی گرفت کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ عمر بھر درویشانہ اور فقیرانہ انداز میں صحافت کی خدمت کرتے رہے۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کبھی نہ کی۔ ہمارے ہاں سرکاری اعزازات کس طرح بٹتے ہیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں۔ مجھے اس دن نہایت خوشی ہوئی تھی جس دن سعود ساحر مرحوم کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کی زندگی ہمارے نوجوانوں کے لئے صحافتی قدروں اور پیشہ وارانہ لگن کی روشن مثال ہے۔ وہ نظریاتی اعتبار سے جناب اعجاز حسن قریشی صاحب ہی کے قبیلے سے تھے۔ دونوں کا اس دنیا سے اٹھ جانا، یقیناً نظریاتی صحافت کا بڑا زیاں ہے۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

یہ نشست اختتام پذیر ہوئے کئی دن ہو چلے ہیں۔ بار بار خیال آتا ہے کہ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم جیسی قد آور علمی اور صحافتی شخصیت استحقاق رکھتی ہے کہ ان کے نام پر کسی جامعہ کے شعبہ صحافت میں مسند تحقیق (research chair) قائم ہو۔ جامعہ پنجاب سے ڈاکٹر قریشی صاحب کا ایک تعلق یہ ہے کہ آپ یہاں تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ کچھ برس سے جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر صاحب یونیورسٹی کو جمود سے نکالنے اور اصلاحات کرنے میں کوشاں ہیں۔

جامعہ کے شعبہ صحافت پر ان کی خصوصی توجہ ہے۔ شعبہ صحافت سمیت جامعہ کے دیگر شعبہ جات میں نئی تحقیقی چیئر ز قائم کرنے اور نئے نئے شعبہ جات بنانے کے لئے انہوں نے حال ہی میں عملی اقدامات کیے ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ شعبہ صحافت میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم جیسی قدآور شخصیت کے نام سے ایک مسند تحقیق (Research Chair) قائم کی جائے۔ تاکہ نوجوان ان کے علمی اور صحافتی کارناموں سے آگاہ ہو سکیں۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).