پی ڈی ایم کا میثاق پاکستان


گلگت بلتستان کے الیکشن ہوچکے اور سب کچھ توقع کے مطابق ہوا۔ انتخابات میں توقع کے مطابق تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی اور توقع کے مطابق ہی دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بلتستانی مقامی لیڈر شپ کے مطابق ان انتخابات میں بھی 2018 والا فارمولا اپنایا گیا۔ امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں، فارم 45 نہیں دیا گیا۔ جو بھی ہوا برا ہوا اس سے بہتر ہو سکتا تھا۔ حکومت نے گلگت بلتستان کے فری اینڈ فئیر الیکشن کرا کے 2018 کے انتخابات کو بھی کلیئر کرا سکتی تھی مگر انہوں نے شاید حالیہ اور سابقہ انتخابات کو متنازعہ بنانا ہی مناسب سمجھا اس ضمن میں سینئر صحافی سلیم صافی کا یہ ٹویٹ قابل غور ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات تو حکومت جیت گئی تاہم گلگت کی سیاست بلاول بھٹو زرداری جیت چکا ہے۔ اور ایسا ہی ہے بلاول بھٹو کی انتخابی مہم نے وہاں کی سیاست پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اس کا فائدہ بہرحال پاکستان پیپلزپارٹٰی کو مستقبل کی سیاست میں ضرور ہوگا۔ حرف آخر یہ کہ پی ڈی ایم نے ان انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے

جی بی کے انتخابات کی گہما گہمی کے بعد پہلی بار پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس اتحاد میں شامل جماعتوں نے اتفاق رائے سے 12 نکاتی میثاق پاکستان پیش کر دیا۔ اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں 12 نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سربراہی اجلاس میں ملک کی سیاسی ومعاشی ابتر صورتحال اور گلگت بلتستان کے انتخابات کابھی جائزہ لیا گیا اور چارٹر آف پاکستان پر مشاورت بھی کی گئی۔

ان 12 نکات جن میں پہلا نکتہ وفاقی، اسلامی، جمہوری، پارلیمانی آئین پاکستان کی بالادستی اور عمل داری یقینی بناناہے۔ دوسرا نکتہ پارلیمنٹ کو خود مختار بنانا تیسرا نکتہ ملک کی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس اداروں کے کردار کا خاتمہ، چوتھا نکتہ ملک میں آزاد عدلیہ کا قیام، پانچوان نکتہ انتخابی اصلاحات اور ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد، چھٹا نکتہ عوام کے بنیادی انسانی اورجمہوری حقوق کا تحفظ، ساتواں نکتہ اٹھارہویں ترمیم کا تحفظ اور صوبوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہیں۔

میثاق پاکستان کا آٹھواں نکتہ مقامی حکومتوں کا موثر نظام، نواں نکتہ آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کا تحفظ، دسواں نکتہ ملک میں نیشنل ایکشن پان پر عملدرآمد کرتے ہوئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ، گیارہواں نکتہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہنگامی معاشی پلان جبکہ میثاق پاکستان کا بارہواں اور آخری نکتہ 1973 کے آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ اور ان پر عملدرآمد ہے۔

کوئی شک نہیں کہ یہ 12 نکات کم وبیش تمام مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ خاص طورپرپہلا نکتہ جس میں کہا گیا کہ وفاقی اسلامی، جمہوری، پارلیمانی آئین پاکستان کی بالا دستی اور عمل داری کو یقینی بنانا ہے۔ بالکل اس نکتے کی طرح ہے کہ جس کے متعلق کہا گیا کہ اک نقطے وچ گل مکدی ہے۔ تاہم اگر دیگر ایشوز کی وضاحت کی خاطر ان نکات کو شامل کیا گیا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان نکات میں کشمیر کے ایشو کو بھی شامل کر لیا جاتا اس سے کم سے کم کشمیریوں کی اشک شوئی ہوجاتی۔

بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے اور بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کا عزم کیا جاتا اور گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب صوبوں کے قیام کا نکتہ اگر شامل کر لیا جاتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ نیب کی کارروائیوں کو انتقامی کہنے والی پی ڈی ایم کو یک طرفہ احتساب کے حوالے سے بھی شق شامل کرتے ہوئے بلا تفریق احتساب کی حمایت کا نکتہ شامل کر لیا جاتا تو یہی تاثر جاتا کہ اپوزیشن احتساب کے خلاف نہیں بلکہ یک طرفہ احتساب کے خلاف ہے اور اپوزیشن کی طرف سے یہ مثبت پیغام ہوتا۔

میثاق پاکستان یا چارٹر آف پاکستان کے نکات سے پی ڈی ایم کو ایک مشترکہ لائحہ عمل مل گیا اور اب ان نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن کی سیاسی جدوجہد شروع ہوگی۔ لیکن کچھ سوال اب بھی وضاحت طلب ہیں جن کی وضاحت ہونا بہت ضروری ہے ایک تو یہ کہ موجودہ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے گی یا اس دوران مڈٹرم انتخابات ہوں گے۔ موجودہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا پھر ان اسمبلیوں کے اندر تبدیلی لائی جائے گی اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔

سب سے اہم بات کہ نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کا بیانیے کا کیا ہوگا۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بہت جلد میاں نواز شریف کا بیانیہ پی ڈی ایم کے مشترکہ بیانیے سے الگ ہوگا اور ان نکات نے وہ بات ثابت کردی ہے اور شاید اسی لیے نون لیگ نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر بھی اپنے جلسے شروع کردییے ہیں جس میں سوات کے بعد مریم نواز شریف مانسہرہ کا جلسہ کررہی ہیں۔

پی ڈی ایم کے دیے گئے 12 نکات کی مثبت بات یہ ہے کہ بظاہر پی ڈی ایم نے اداروں سے تصادم سے گریز کرتے ہوئے اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اور ان نکات میں کوئی نکتہ ایسا نہیں ہے جو غیر آئینی ہو۔ یہ ایک مثبت علامت ہے امید یہ ہے کہ ان نکات پر طاقتور حلقوں کو بھی بظاہر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ رہی بات اٹھارہویں ترمیم کی تو یہ مسئلہ حل طلب رہے گا اور اس پر سمجھوتے کے لیے شاید فریقین راضی نا ہوں۔

جبکہ باقی ماندہ 11 نکات کی نرمی سے لگتا ہے کہ کہیں برف پگھلی ہے کہیں کوئی نا کوئی بند کھڑکی کھلی ہے جس سے آنے والی تازہ ہوا نے سیاسی حبس کو کسی حد تک کم کیا ہے۔ حرف آخر یہ کہ مقتدر حلقوں کو مبارک ہو کہ پی ڈی ایم میاں نواز شریف کے بیانیے سے ہٹ گئی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ نون لیگ اور میاں نواز شریف کا مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا۔ کیا میاں نواز شریف اپنے بیانیے کو لے کر چل سکیں گے اور کیا نون لیگ میں اتنی سکت ہے کہ وہ تن تنہا اپنے قائد کے بیانیے کا بوجھ اٹھا کر چل سکے۔ یا پھر میاں نواز شریف کی حالیہ بیماری ان کی سیاسی جدوجہد کی راہ میں حائل ہو جائے گی۔ اگر کہیں رابطے ہوئے ہیں تو میاں صاحب بیمار رہیں گے اور مریم نواز کے لہجے کی تلخی بتدریج نا صرف کم ہوگی بلکہ ان کی انگلی کا اشارہ صرف اورصرف حکومت کی طرف ہی ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).